کیا موجودہ بحران سے نکلنے کی کوئی راہ ہے؟
پاکستان نے ماضی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کیا ہے جن میں 1968ء کی معاشی بدحالی، سیاسی نظام کی حقیقی یا انجینیئرڈ خرابی جس کا انجام بلآخر ہم نے 1958ء، 1977ء اور 1999ء میں مارشل لا کی صورت میں دیکھا، 1968ء میں عوامی مظاہروں کے بعد قومی سلامتی کے مسائل، 1970ء میں ملک میں خانہ جنگی، 1977ء میں ملک گیر احتجاج اور 2004ء سے 2017ء تک تقریباً پورے ملک میں ہی لڑی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ شامل ہیں۔
1970ء کی دہائی کے آغاز میں جب ہمارا ملک تقسیم ہوا تب ہمیں سیاسی اور سیکیورٹی بحران کی صورت میں بڑا دھچکا لگا تھا۔ لیکن 1971ء میں سقوط ڈھاکا کے سانحے کے علاوہ ہم نے بحیثیت قوم بیشتر بحرانوں کا بہادری سے مقابلہ کیا۔
آج جو حالات ہم دیکھ رہے ہیں وہ معاشی، سیاسی اور سیکیورٹی بحرانوں کا امتزاج ہیں۔ ہم اس میں 2022ء میں شدید بارشوں اور سیلاب کی صورت میں اس ملک کو درپیش ماحولیاتی خطرات کو بھی شامل کرسکتے ہیں جس کے باعث پیدا ہونے ہونے والے چیلنجز کا مقابلہ ہم آج بھی بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب کے مختلف حصوں میں کررہے ہیں۔
پوری دنیا ہی کورونا وائرس کے باعث آنے والے بحرانوں کے سنگین اثرات اور شدید معاشی عدم استحکام کا بھی سامنا کررہی ہے جس کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ پاکستان آج جن حالات کی لپیٹ میں ہے اسے کچھ لوگ پولی کرائیسس (بیک وقت متعدد بحران) کا نام بھی دیتے ہیں۔
جدید ریاستوں میں تمام اقسام کے بحرانوں سے نمٹنا سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پاکستان کے لیے اس وقت تشویشناک عنصر یہ ہے کہ ہمارا سیاسی بحران دیگر تمام چیلنجز پر غالب ہے اور اس کے نتیجے میں اہم معاشی اور سیکیورٹی مسائل کا حل تلاش کرنے میں دشواری پیش آرہی ہے۔
موجودہ سیاسی بحران کو ، شدید سیاسی تقسیم اور پولارائزیشن کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے۔ ماضی میں پاکستان سیاسی تقسیم کی صورتحال کا سامنا کرچکا ہے جس کی مثال 1970ء کے عام انتخابات اور 1977ء کے انتخابات کے بعد کی صورتحال ہے لیکن موجودہ سیاسی بحران اس سے بھی زیادہ شدید اور گہرا محسوس ہوتا ہے۔ یہ تقسیم اب سیاسی محاذ تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ اب عدلیہ اور دیگر حساس اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے جبکہ سول بیوروکریسی کا شعبہ تو کافی عرصے قبل ہی سیاسی ہوچکا تھے۔
کافی لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ملکی سیاست میں اس قدر عدم استحکام کیوں ہے اور سیاسی قیادت اور دیگر طاقتور عناصر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیوں نہیں لیتے؟ اس کا جواب اس مثال سے سمجھنا آسان ہوگا کہ جب کسی نشے کے عادی شخص کو نشے کی طلب ہوتی ہے اس وقت وہ جس کیفیت سے دوچار ہوتا ہے ویسا ہی آج ہمارے ملک کی سیاست میں ہورہا ہے۔
جب نشے کے عادی شخص کو اس کی مطلوبہ چیز نہیں ملتی تب وہ غیرفعال اور تشدد پسند ہوجاتا ہے، حتیٰ کہ وہ خودکشی جیسا سخت اقدام تک اٹھانے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ وہ اپنی حالت کی درست تشخیص ہی نہیں کرپاتے ہیں تو اسے بہتر کرنا تو دور کی بات ہے۔ وہ اپنی مطلوبہ چیز کے لیے کوششیں کرتے ہیں، بھیک مانگ سکتے ہیں، قرض لے سکتے ہیں حتیٰ کہ چوری بھی کرسکتے ہیں، لیکن وہ اپنا علاج کروانے کی حالت میں نہیں ہوتے۔
پاکستان کے زیادہ تر سیاست دانوں کو اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت کام کرنے کی عادت ہوچکی ہے۔ اسے ہم مداخلت کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ یہ ہم گزشتہ 70 سالوں سے دیکھتے آرہے ہیں اور اس کا اعتراف حال ہی میں اپنے عہدے سے ریٹائر ہونے والے جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اپنی الوداعی تقریر میں کیا تھا۔
پاکستان میں سیاستدانوں کو آزادانہ فیصلے لینے کی عادت نہیں ہے۔ جب کبھی بھی انہوں نے ایسا کیا یا پھر ایسا کرنے کی کوشش بھی کی تو انہیں اس کی سنگین سزادی گئی اور اسے دوسروں کے لیے مثال بنایا گیا۔ ملک کے صدر اور پھر وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے شاید اس آزادی کا بھرپور فائدہ اٹھایا کیونکہ جب انہوں نے حکومت سنبھالی تب فوج مشرقی پاکستان میں شکست کے باعث کمزور دور سے گزر رہی تھی۔
انہوں نے کئی اعلیٰ ترین فوجی افسران کو برطرف کیا اور بعد میں فوج اور فضائیہ کے سربراہوں کو بھی اپنے عہدوں سے برطرف کردیا۔ وہ بہت قابل اور تجربہ کار تو تھے لیکن وہ پھر بھی آزاد نہیں تھے۔ اسی لیے انہیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی جو انہیں پھانسی کے تختے تک لے گئی۔
بےنظیر بھٹو نے سمجھوتے کی کوشش کی لیکن شاید ان کی یہ کوشش ناکافی تھی۔ نواز شریف نے بطور وزیراعظم اپنے اختیارات استعمال کرنے کی سب سے زیادہ کوشش کی لیکن انہیں برطرفی، قید، جلاوطنی اور آخر میں تاحیات نااہلی کا سامنا کرنا پڑا۔ جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو ان کے دور حکومت میں زیادہ تر عرصے حالات اچھے رہے اور فوج اور حکومت ’ایک صفحے‘ پر تھے لیکن وزیراعلیٰ پنجاب کو عہدے پر برقرار رکھنے اور آئی ایس آئی سربراہ کے انتخاب میں اصرار کرنے پر انہیں بھی سزا کا سامنا کرنا پڑا۔
سیاستدان چاہے حکومت میں موجود ہوں یا حزبِ اختلاف میں وہ مداخلت کے عادی ہوچکے ہیں اور وہ ہمیشہ پالیسی ڈکٹیٹ کرنے اور ریاست کے تمام شعبہ جات میں ان پالیسیوں کے اطلاق میں مدد کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی جانب دیکھتے ہیں۔
ہمارے منتخب سیاستدان کس حد تک اسٹیبلشمنٹ پر منحصر ہیں اس کی ایک مثال کے ذریعے بھرپور عکاسی کی جاسکتی ہے۔ عمران خان نے حال ہی میں اپنے مزاج کے برخلاف یہ اعتراف کیا ہے کہ ان کی حکومت پارلیمنٹ میں بل پاس کروانے، حتیٰ کہ سالانہ بجٹ منظور کرنے کے حوالے سے اراکین کی درکار تعداد کو یقینی بنانے کے لیے بھی ’ایجنسیوں‘ کا سہارا لیتی تھی۔
ایسا لگتا ہے کہ نومبر میں نئے فوجی سربراہ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد فوج نے شاید اپنے غیر سیاسی رہنے کے وعدے کو سنجیدگی سے لینا شروع کردیا ہے یا پھر سیاست میں اپنے عمل دخل کو کسی حد تک کم کردیا ہے۔
موجودہ سیاسی بحران اسی وجہ سے اتنی شدت اختیار کرچکا ہے کیونکہ سیاستدانوں کو اب وہ مداخلت نظر نہیں آرہی اور وہ لاعلم ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کے بغیر سیاسی معاملات کیسے سنبھالے جاتے ہیں۔ عمران خان کی زیرِقیادت حزبِ اختلاف اور حکومت دونوں نے ہی موجودہ تعطل سے نمٹنے کے لیے کھلے عام اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کیا ہے۔
2023ء میں پاکستان میں جمہوریت کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ سیاستدانوں کی سیاست میں کردار ادا کرنے کی درخواست کرنے اور ڈیفالٹ کی جانب جاتی معیشت کے باوجود کیا اسٹیبلشمنٹ اپنے غیرسیاسی رہنے کے بیانیے پر قائم رہتی ہے؟ اگر وہ قائم رہتی ہیں تو اگلے 2، 3 سالوں میں افراتفری، ہلچل، اور تشدد کی صورتحال شدت اختیار کرلے گی۔
ہمارا سیاسی طبقہ بغیر کسی سرپرستی کے آئینی دائرہ کار میں اپنے معاملات خود ہی طے کرنا سیکھ لے گا۔ تب تک ہمیں اپنے حکمرانوں کے اس ٹوٹتے نشے کو برداشت کرنا ہوگا۔
یہ مضمون 4 مارچ 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔