’آئی ایم ایف سے ڈیل ہو جائے گی لیکن کب ہوگی، یہ کہنا مشکل ہے‘
پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان قرض بحالی پروگرام کے لیے بات چیت اور مذاکرات جاری ہیں اور آخر کار یہ معاہدہ ہوجائے گا لیکن اس وقت یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ معاہدہ کب ہوگا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے اس بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ اگلے ہفتے تک اسٹاف لیول معاہدہ ہونے کی توقع ہے، واشنگٹن میں موجود اندرونی اعلیٰ ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ یقین کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ معاہدہ ہونے میں ’ایک ہفتہ، دو ہفتے یا تین ہفتے لگیں گے۔
مختلف مالیاتی اداروں کے حکام نے معاشی بحران کے خاتمے کے لیے عالمی قرض دہندہ کے ساتھ معاہدہ نہ ہونے میں حکومت کی ہچکچاہٹ کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا۔
ذرائع نے بتایا کہ مسئلہ گزشتہ سال کے آخر میں پیدا ہوا جب سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کو ہٹایا گیا، مفتاح اسمٰعیل اصلاحات کی ضرورت کو سمجھ رہے تھے، وہ ایسا کرنا چاہتے تھے جب کہ اسحٰق ڈار ایسا نہیں چاہتے۔
جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ آج پاکستان کی معیشت کے لیے بہت برا دن ہے کیونکہ روپیہ ڈالر کے مقابلے تین سو تک پہنچ گیا ہے جبکہ پالیسی ریٹ میں بھی 3 فیصد اضافہ کرکے 20 فیصد کردیا گیا ہے جس کے لیے توقع تھی کہ 2 فیصد بڑھایا جائے گا۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ امید کرتے ہیں کہ یہ سب کرنے کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے معاہدہ ہو جائےگا۔
انہوں نے حکومت کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پیٹرول 5 روپے کم کرنا اور پھر 30 روپے بڑھانا کوئی معاشی پالیسی نہیں بلکہ معیشت سے کھلواڑ ہے۔
حکام نے واشنگٹن میں ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسحٰق ڈار کی جانب سے ڈالر ریٹ قابو کرنے کی کوشش، جنرل سبسڈی واپس لینے سے انکار اور قرضوں کی تنظیم نو کو نا پسند کرنے کے رویے نے معیشت کو نقصان پہنچایا۔
ایک عہدیدار نے کہا کہ اگر اسحٰق ڈار وقت پر اسے قابو کرنے کی کوشش نہ کرتے تو ایک ڈالر 250 سے 260 روپے کے درمیان کے ریٹ پر مستحکم ہو سکتا تھا، ڈالر اب 285 پر ہے اور اس کا ریٹ 300 تک جا سکتا ہے۔
ایک اور عہدیدار نے کہا کہ روپے کو مصنوعی طور پر مضبوط کرنا درآمدات پر سبسڈی دینے کے مترادف ہے جب کہ پاکستان ایسا کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، انہوں نے مزید کہا کہ قرضوں کی تنظیم نو سے پاکستان کو پانچ سے دس سال تک کا ریلیف مل سکتا تھا۔
عہدیدار نے کہا کہ قرضوں کی ادائیگی کے ذریعے زرمبادلہ کے ذخائر کو کم کرنے کے بجائے پاکستان اس مدت کو ذخائر کو بڑھانے کے لیے استعمال کر سکتا تھا، اس طرح سے اس صورتحال کو روکا جا سکتا تھا جس سے معیشت کے تباہ ہونے کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔
عہدیدار نے کہا کہ پاکستان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے تجویز کردہ اصلاحات سے اسے نہیں بلکہ ملک کو ہی فائدہ ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ معیشت کو تنظیم نو کی ضرورت ہے لیکن حکمران اس کڑوی گولی کو نگلنے سے خوفزدہ ہیں۔
ڈان سے بات کرنے والے زیادہ تر اندرونی ذرائع نے ملک کی سیاسی صورتحال اور معاشی عدم استحکام کو باہم منسلک قرار دیا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ سپریم کورٹ کا بدھ کے روز سامنے آنے والا فیصلہ صورت حال کو تبدیل کر دے گا جس کے نتیجے میں بالآخر انتخابات اور ایک ایسی مستحکم حکومت کی راہ ہموار ہو گی جس سے آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے بات چیت اور مذاکرات کرنے میں بہتر پوزیشن میں ہوں گے۔
ایک عہدیدار نے کہا کہ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی ایسا نہیں ہوا، کوئی چیز کام کرتی نظر نہیں آرہی اور اس صورتحال سے قومی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔