اداروں کو بغاوت پر اکسانے کا الزام: لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب بری
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے اداروں کو بغاوت پر اکسانے کے الزام میں گرفتار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کو کیس سے ڈسچارج کردیا۔
گزشتہ ہفتے لیفٹیننٹ جزل ریٹائرڈ امجد شعیب پر عوام کو اداروں کے خلاف اکسانے کا مقدمہ تھانا رمنا میں درج کیا گیا تھا جس کے بعد انہیں اسلام آباد میں واقع ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے خلاف کیس میں جسمانی ریمانڈ سے متعلق نظرثانی اپیل پر ایڈیشنل سیشنز جج طاہر عباس سپرا نے سماعت کی، امجد شعیب کے وکیل میاں اشفاق عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل میاں علی اشفاق نے مؤقف اپنایا کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے خلاف کسی بھی پبلک سرونٹ نے مقدمے کی درخواست نہیں دی، ان کے الفاظ پر کیس نہیں بن سکتا، امجد شعیب کے خلاف مقدمہ بوگس ہے، امجد شعیب نے کسی کمیونٹی کے خلاف بات نہیں کی۔
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ امجد شیعب نے جو جو پروگرام میں کہا اس کو تسلیم کرتے ہیں، اگر دوبارہ ہمیں بلایا جائے گا تو ہم پھر وہی بات کریں گے، ہم ہر جگہ وہ بات کریں گے، ہم اپنی بات پر قائم ہیں۔
وکیل نے کہا کہ ہمیں پھر بھی بلایا جائے گا تو پروگرام میں وہی بات کریں گے، پاکستان میں 6 لاکھ فوجی جوان ہیں اور کروڑوں کی تعداد میں سرکاری ملازمین ہیں۔
وکیل امجد شعیب نے استدلال کیا کہ کروڑوں سرکاری ملازمین میں سے کس نے آکر آپ کو شکایت کی کہ ہم اس بیان سے متاثر ہوئے ہیں؟ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ایک سابق فوجی جرنیل کی جیل کے کمرے میں کیمرا لگا ہوا ہے، رات 10 بجے پروگرام چلا، 11 بجے ختم ہوا، پوری قوم سو رہی تھی، دوسرے دن بھی کروڑوں سرکاری ملازم سوتے رہے اور کوئی ایک بھی درخواست لے کر نہیں آیا۔
انہوں نے کہا کہ کروڑوں سرکاری ملازمین نے امجد شعیب کی درخواست کی ایسی گھٹیا تشریح نہیں کی جو اویس خان نے کی ہے۔
اس دوران لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ ) امجد شعیب نے جج سے مکالمہ کیا کہ میرے الفاظ اتنے سخت نہیں جتنے حکومت کے رویے ہیں، میں نے ہمیشہ دھرنے اور لانگ مارچ کی مخالفت کی، میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ کیا دھرنے سے یا لانگ مارچ سے کبھی کوئی حکومت گری ہے، میرا تجزیہ ہوتا ہے، میرے تجزیے پر کبھی عمل نہیں ہوا، میری کبھی کسی سیاسی لیڈر سے ملاقات نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ توڑ پھوڑ سے اپنے ہی ملک کا نقصان ہوتا ہے، اپنے ہی لوگ پریشان ہوتے ہیں، میں تاریخ کی بات کر رہا تھا کہ کبھی دھرنوں اور ریلی سے کوئی حاصل حصول نہیں ہوا۔
اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کا مؤقف سن لیا، میرٹ پر دیکھ لیتے ہیں، اس دوران وکیل میاں اشفاق نے امجد شعیب کو کیس سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ امجد شعیب محب وطن اور اس ملک کے معزز شہری ہیں۔
اس کے ساتھ ہی امجد شعیب کے وکیل میاں اشفاق کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد پراسیکیوٹر عدنان نے دلائل شروع کیے، عدالت نے استفسار کیا کہ مان لیتے ہیں کہ امجد شعیب کا رول ہے لیکن 6 دن رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم کا فوٹوگرامیٹک ٹیسٹ کروانا تھا اور تفتیشی افسر نے تفتیش کرنی تھی، ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے کہ تفتیش تفتیشی کا حق ہے۔
عدالت نے کہا کہ کچھ معاملات میں جوڈیشل مجسٹریٹ کے اختیارات زیادہ ہیں جو سب سے چھوٹی عدالت ہے، آپ نادرا کیوں نہیں لے کر جاتے کہ یہ امجد شعیب ہے یا نہیں؟ آپ کہہ رہے ہیں کہ امجد شعیب کو محتاط رہ کر بات کرنی چاہیے تھی، آپ کے مطابق لوگ امجد شعیب کی بات سنتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔
پراسیکیوٹر کی جانب سے امجد شعیب کو کیس سے ڈسچارج کرنے کی مخالفت کی گئی۔
وکیل امجد شعیب نے کہا کہ چار کیسز کا ریکارڈ عدالت میں فراہم کیا جن میں دفعات، الزامات یکساں ہیں لیکن ایک دن بھی ریمانڈ نہیں دیا گیا، ایسے دس کیسز ہیں جس میں عدالت نے ملزمان کو ڈسچارج کیا۔
عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا جسے بعد ازاں جاری کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس سپرا نے امجد شعیب کو مقدمے سے ڈسچارج کر دیا۔
امجد شعیب کی گرفتاری
اسلام آباد پولیس کے مطابق لیفٹیننٹ جزل ریٹائرڈ امجد شعیب کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا، امجد شعیب پر عوام کو اداروں کے خلاف اکسانے کا مقدمہ تھانا رمنا میں درج ہے۔
پولیس کے مطابق امجد شعیب کے خلاف مقدمہ مجسٹریٹ اویس خان کی مدعیت میں درج ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب پر 153 اے اور 505 پی پی سی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ان کے خلاف درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق انہوں نے نجی نیوز چینل ’بول‘ پر ایک پروگرام میں عمران خان کی ’جیل بھرو تحریک‘ کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی چاہیے، انہیں اسلام آباد میں لوگوں کو سرکاری دفاتر جانے سے روکنا چاہیے، جب ان کی اس کال پر عمل ہوگا تو اگلے دن ہی حکومت کچھ سوچنے پر مجبور ہوجائے گی۔
مقدمے کے مطابق امجد شعیب نے اپنے بیان کے ذریعے سرکاری ملازمین اور اپوزیشن کو اپنے سرکاری اور قانونی فرائض کی انجام دہی سے روکنے کے لیے اکسایا ہے، اس سے ان کا مقصد اپوزیشن اور سرکاری ملازمین میں حکومت کے خلاف نفرت، اشتعال انگیزی پھیلانا ہے تاکہ اس سے ملک میں بے چینی، بےامنی اور انتشار پیدا کیا جاسکے۔
ایف آئی آر کے مطابق اس بیان کی بنیاد پر وہ عوام، سرکاری ملازمین اور اپوزیشن کی جماعت کو ایسا مشورہ دے کر ملک کے ان مخصوص طبقات میں نفرت پھیلانا چاہتے ہیں۔
مقدمے کے مطابق ملزم کی اس بات سے حکومت اور حزب اختلاف میں مزید دشمنی، اشتعال انگیزی اور نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق اس بات سے ملک کے تینوں طبقات حکومت، اپوزیشن اور سرکاری ملازمین میں نفرت اور دشمنی کی فضا پیدا کی گئی ہے جو ملک کو کمزور کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔
مزید کہا گیا ہے کہ یہ تمام بیان ایک سوچی سمجھی سازش اور منصوبہ بندی کے تحت دیا ہے تاکہ ملک کو مزید کمزور کیا جا سکے۔