مبینہ بیٹی ظاہر نہ کرنےکا کیس: کیا نااہل شخص پارٹی سربراہ رہ سکتا ہے؟ اسلام آباد ہائی کورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بینچ نے کاغذات نامزدگی میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپنی مبینہ بیٹی ٹیریان جیڈ وائٹ کا ذکر نہ کرنے پر ان کے خلاف نااہلی کی درخواست پر سماعت کے دوران تعجب کا اظہار کیا ہے کہ کیا کوئی نااہل شخص سیاسی جماعت کا قائد بن سکتا ہے۔
خیال رہے کہ عمران خان پر مبینہ بیٹی کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے کا الزام ہے، شہری محمد ساجد نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو نااہل کرنے کی استدعا کر رکھی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس عامر فاروق، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب محمد طاہر پر مشتمل بینچ نے درخواست گزار محمد ساجد کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ ہفتے تک درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل مکمل کرلیں۔
سماعت کے دوران جسٹس عامر فاروق نے محمد ساجد کی نمائندگی کرنے والے وکیل حامد علی شاہ سے کہا کہ وہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے وقت ریٹرننگ افسر کے سامنے جھوٹا حلف نامہ جمع کرانے کے نتائج کی وضاحت کریں۔
درخوست گزار کے وکیل نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا حوالہ دیا جس میں امیدوار کے لیے لازم قرار دیا گیا تھا کہ وہ اپنے زیر کفالت افراد اور اپنے زیر ملکیت اثاثوں کی تفصیلات پر مشتمل حلف نامہ جمع کرائیں۔
انہوں نے کہا کہ جھوٹا حلف نامہ داخل کرنا یا ریٹرننگ افسر سے حقائق چھپانا توہین کے زمزے میں آتا ہے جس پر کاغذات جمع کرانے والے میدوار کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ نااہل قرار دیا گیا رکن اسمبلی سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں رہ سکتا۔
دوسری جانب عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے اصرار کیا کہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے جب کہ عمران خان کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے توشہ خانہ ریفرنس میں پہلے ہی این اے 95 سے نااہل قرار دیا جا چکا ہے۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کی کہ ماضی میں الیکشن کمیشن ان الزامات کا جائزہ لے چکا اور اس نے پی ٹی آئی چیئرمین کے خلاف ریفرنسز مسترد کر دیا تھا۔
ان دلائل کو مسترد کرتے ہوئے حامد شاہ نے کہا کہ پی ٹی آئی سربراہ اب بھی رکن پارلیمنٹ ہیں، سات نشستوں پر ان کی کامیابی کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی کرم قبائلی ضلع سے ان کی کامیابی کا نوٹی فکیشن جاری کیا تھا اور انہیں پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے لیے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کی ضرورت ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے مزید استدلال کیا کہ حلف نہ اٹھانے کی وجہ سے عمران خان مراعات حاصل نہیں کرسکے لیکن وہ رکن پارلیمنٹ ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ چوہدری نثار علی خان نے بھی تاحال حلف نہیں اٹھایا لیکن وہ اب بھی پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں، انہوں نے کہا اسی طرح وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے بھی سینیٹ میں منتخب ہونے کے 4 سال بعد حلف اٹھایا۔
الیکشن کمیشن کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ای سی پی نے 2004 میں مبینہ بیٹی کو چھپانے پر عمران خان کی نااہلی کا ریفرنس اٹھایا تھا تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ معاملہ میرٹ پر نہیں نمٹا گیا۔
اس کے ساتھ ہی عدالت عالیہ نے انہیں احکامات کے ساتھ الیکشن کمیشن کی کارروائی کی نقول جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 8 مارچ تک ملتوی کر دی۔
درخواست گزار کا مؤقف
درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عمران خان نے برطانیہ میں ٹیریان وائٹ کی کفالت کے انتظامات کیے لیکن اپنے کاغذات نامزدگی میں اور الیکشن لڑنے کے حلف نامے میں اس کا ذکر نہیں کیا۔
درخواست گزار کے وکیل کے طور پر پیش ہونے والے سابق اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما خان کی جانب سے 18 نومبر 2004 کے ڈیکلیریشن پر مشتمل اضافی دستاویز پیش کی۔
اس میں کہا گیا ہے کہ میں نے یہ ڈیکلیریشن ٹیریان جیڈ خان وائٹ کی درخواست کی حمایت میں کیا ہے جس میں اپیل کی گئی ہے کہ کیرولین وائٹ (ٹیریان کی والدہ اینا لوئیسا سیتا وائٹ کی بہن) کو ٹیریان کا سرپرست مقرر کیا جائے۔
ڈیکلیریشن میں مزید کہا گیا ہے کہ جمائما خان نے ٹیریان جیڈ کے سرپرست کے طور پر خدمات انجام دینے سے انکار کردیا تھا اور سرپرستی کے لیے کیرولین وائٹ کا نام تجویز کیا تھا کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ یہ ٹیریان کے بہترین مفاد اور خواہش کے مطابق ہے۔
اینا لوئیسا (سیتا) وائٹ لارڈ گورڈن وائٹ کی بیٹی تھی جنہوں نے ایک بڑے صنعتی گروپ ہینسن پی ایل سی کی امریکی شاخ کی سربراہی کی۔
درخواست گزار ساجد محمود نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے سیتا وائٹ سے شادی نہیں کی کیونکہ اس کے ’نسل پرست‘ والد نے مدعا علیہ (عمران خان) کو دوٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ اگر انہوں نے سیتا وائٹ سے شادی کی تو ان دونوں کو اس کی دولت میں سے ایک پیسہ بھی نہیں ملے گا۔اس کے بعد ہی عمران خان کی ملاقات ایک اور امیر خاتون جمائما سے ہوئی اور بہت ہی کم عرصے میں ان سے شادی کرلی۔
درخواست میں ان حالات کا بھی ذکر کیا گیا جن میں ٹیریان جیڈ کی تحویل جمائما کو دی گئی تھی۔
اس میں کہا گیا کہ اینا لوسیا وائٹ نے 27 فروری 2004 کی اپنی وصیت میں جمائما خان کو اپنی بیٹی ٹیریان جیڈ خان وائٹ کا سرپرست نامزد کیا تھا، بعد ازاں اسی برس 13 مئی کو سیتا وائٹ کا انتقال ہوگیا۔
درخواست میں کہا گیا کہ جمائما گولڈ اسمتھ 1995 سے 2004 تک عمران خان کی شریک حیات تھیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ چھپائے گئے حقائق کی تصدیق کیلیفورنیا کی ایک عدالت کی جانب کیے گئے فیصلے سے ہوئی جہاں یہ کہا گیا کہ مدعا علیہ (عمران خان) ٹیریان جیڈ کے والد ہیں۔
اس میں مزید کہا گیا کہ عمران خان ابتدائی طور پر اپنے اٹارنی کے توسط سے کارروائی میں شامل ہوئے لیکن جب انہیں خون ٹیسٹ کرانے کا کہا گیا تو وہ کیس کی پیروی سے پیچھے ہٹ گئے۔
پٹیشن میں الزام لگایا گیا ہے کہ بعد میں جب سیتا وائٹ کی بہن کیرولین وائٹ نے عدالت سے کہا کہ اسے ٹیریان کا سرپرست مقرر کیا جائے تو انہوں نے عدالت میں ڈیکلیریشن جمع کرایا۔