ہمارے مطابق یہ پٹیشین 3 کے مقابلے میں 4 سے مسترد ہوگئی، وفاقی وزیر قانون
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے مطابق یہ پٹیشین 3 کے مقابلے میں 4 کی اکثریت سے مسترد ہوگئی۔
اسلام آباد میں اٹارنی جنرل آف پاکستان شہزاد الہیٰ کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت نہیں، نہ ہی یہ تشریح طلب معاملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا اس لیے ہے کیونکہ فیصلہ بہت واضح ہے اور کوئی ابہام بھی نہیں ہے، یہ کوئی ہار جیت یا اہلیت اور نااہلی کا کیس نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک آئینی نکتے پر بحث ہوئی جس میں 2 جج صاحبان نے خود کو رضاکارانہ طور پر بینچ سے علیحدہ کرلیا، 7 جج صاحبان میں سے 2 جج صاحبان 23 تاریخ کو اپنا فیصلہ دے چکے تھے کہ ہم ان پٹیشنز کو خارج کرتے ہیں، یہ قابل سماعت نہیں ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ 2 جج صاحبان اس معاملے پر پہلے ہی فیصلہ دے چکے ہیں اس لیے اب ان کا اس معاملے پر بیٹھنا مناسب نہیں ہے، اس لیے دیگر 5 ججز نے اس کیس کی سماعت کی۔
انہوں نے کہا کہ آج 5 رکنی بینچ کا فیصلہ آیا، 3 جج صاحبان نے کہا کہ یہ پٹیشنز قابل سماعت ہیں، گورنر اور الیکشن کمیشن مشاورت سے تاریخ دیں، 90 روز تو گزر جائیں گے لیکن مشاورت کے بعد جتنی جلدی ممکن ہو سکے انتخابات کروائے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے، ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ حالات سازگار ہوں تو بھی آئین انتخابات کے انعقاد کا حق الیکشن کمیش اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو دیتا ہے، اس بحث کو چھوڑ دیں۔
وزیر قانون نے کہا کہ آج کے فیصلے میں 2 جج صاحبان نے 23 فروری کے اختلافی نوٹس سے اتفاق کیا، اس فیصلے کو پڑھنے کے بعد ہمارا یہ مؤقف ہے کہ یہ پٹیشنز 3-4 سے مسترد ہوگئی ہیں، اب یہ فیصلہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت کارروائی میں ہوجانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اس فیصلے میں نظر ثانی والی بات نہیں، فیصلہ واضح ہو تو نظرثانی والی بات نہیں ہوتی، اگر کسی کو اختلاف ہوا تو جاکر تشریح کرالیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت نے ایک فیصلہ تھوپ کر واپس لیا، صدر کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ میرے مؤکل نے اختیارات سے تجاوز کیا، فیصلہ کرلیں کہ صدر مملکت نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے، صدر نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنی ہے یا پھر پارٹی ورکر بن کرف یصلے کرنے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پشاور اور لاہور ہائی کورٹس میں انتخابات کا معاملہ زیر التوا ہے، اس فیصلے کی تشریح ان دونوں ہائی کورٹس میں بھی ہوسکتی ہے۔
4 ججز نے اختلافی نوٹ لکھا، یہ 7 میں سے 3 ججز کا فیصلہ ہے، اٹارنی جنرل
اس موقع پر اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہیٰ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بڑی تیز رفتاری سے عدالتی کارروائی ہوئی، پرسوں صبح سے شام 6 تک سماعت چلی، کل بھی 9 سے 6 عدالت چلی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کارروائی میں مکمل تعاون کیا، کوئی تاریخیں نہیں مانگیں، حقائق سب کے سامنے ہیں، معاملہ 9 رکنی بینچ سے شروع ہوا اور 5 رکنی بینچ تک آگیا، جسٹس یحیٰی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے 23 فروری کو ہی اپنے نوٹ میں ان دونوں پٹیشنز کو مسترد کردیا تھا۔
اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہیٰ کا کہنا تھا کہ 5 رکنی بینچ نے جو فیصلہ دیا ہے اس میں جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ اس کیس کے ریکارڈ میں 5 نہیں 7 ججز صاحبان کے فیصلے موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس منصور کے نوٹ کا دوسرا پیراگراف اہمیت کا حامل ہے، اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ 2 ججز کے نوٹ سے اتفاق کرتے ہیں، اختلافی نوٹ کے فٹ نوٹس میں کہا گیا ہےکہ جسٹس یحییٰ اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ بھی کیس کے ریکارڈ کا حصہ ہیں، اس طرح 4 ججز نے اختلافی نوٹ لکھا ہے، یہ 7 میں سے 3 ججز کا فیصلہ ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے سنائے گئے مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انتخابات دونوں صوبوں میں 90 روز میں ہونا ہیں، پارلیمانی جمہوریت میں انتخابات اہم عنصر ہیں۔
سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کی جانب سے سامنے آنے والا یہ فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی اکثریت کے ساتھ جاری کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ خیبرپختونخوا کی حد تک گورنر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے، اگر گورنر اسمبلی تحلیل نہ کرے تو صدر مملکت تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے، الیکشن کمیشن فوری صدر مملکت سے مشاورت کرے، 9 اپریل کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت سے پنجاب میں تاریخ بدلی جاسکتی ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکم دیا ہے کہ الیکشن کمیشن فوری طور پر صدر مملکت کو الیکشن کی تاریخ تجویز کرے، پنجاب کے الیکشن کی تاریخ صدرِ مملکت دیں گے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گورنر خیبر پختونخوا نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کر کے آئینی ذمہ داری سے انحراف کیا، گورنر کے پی صوبائی انتخاب کی تاریخ کا اعلان کریں، الیکشن ایکٹ کے 57 اور 58 کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخ دی جائے، کے پی کے انتخابات کی تاریخ دینا گورنر کی ذمہ داری ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے آج مختصر فیصلہ جاری کیا گیا ہے، تفصیلی فیصلہ بند میں جاری کیا جائے گا، فیصلے کے مطابق آئین میں انتخابات کے لیے 60 اور 90 دن کا وقت دیا گیا ہے، جنرل انتخاب کا طریقہ کار مختلف ہے۔