لائف اسٹائل

ماریہ بی کی ٹرانسجینڈر پر مبنی ڈراما ’سرِراہ‘ پر شدید تنقید

ڈرامے میں باپ اور مخنث بچے کے درمیان گفتگو کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس میں باپ اپنے بچے کو ٹرانسجینڈر سے متعلق رہنمائی فراہم کررہا ہے۔

پاکستان کی معروف فیشن ڈیزائنر ماریہ بی ایک بار پھر ٹرانسجینڈر پر تنقید کرتے ہوئے خبروں میں آگئیں۔

ان دنوں نجی ٹی وی چینل اے آر وائے ڈیجیٹل کا ڈراما ’سرِراہ‘ ناظرین جانب سے بے حد پسند کیا جارہا ہے، جس کے مرکزی کردار منیب بٹ، صبا قمر، صبور علی، حریم فاروق، سنیتا مارشل شامل ہیں۔

عدیل بھٹی کی ہدایت کاری میں بننے والے اس ڈرامے نے اب تک اپنی چار اقساط میں متعدد سماجی مسائل اجاگر کیے گئے ہیں اس کے علاوہ صنفی برابری اور ٹرانسجینڈر/خواجہ سرا سے متعلق مسائل کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔

ڈرامے کی حالیہ قسط میں باپ اور اس کے مخنث بچے کے درمیان گفتگو دکھائی گئی ہے جو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہورہی ہے، باپ کا کردار پاکستان کے معروف اداکار نبیل ظفر ادا کررہے ہے جبکہ مخنث کا کردار منیب بٹ ادا کررہے ہیں۔

کلپ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ باپ اپنے بیٹے کو ٹرانسجینڈر سے متعلق رہنمائی فراہم کررہے ہیں، ڈرامے میں ٹراسجینڈرز کی تعلیم کی اہمیت اور ان کے حقوق کے علاوہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل کے حوالے سے بھی اجاگر کیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے اس ڈراما کلپ پر کئی ٹوئٹر صارفین نے تعریف کی۔

اسی دوران پاکستان کی معروف فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے انسٹاگرام پر مذکورہ وائرل کلپ شیئر کرتے ہوئے ڈرامے پر شدید تنقید کی۔

انہوں نے لکھا کہ بچے کو شریعت کے مطابق لڑکا یا لڑکی بننے کی رہنمائی کرنے کے بجائے یہاں بچے کو ٹرانسجینڈر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے انتہائی سخت الفاظ میں لکھا کہ اب پاکستانیوں کے جاگنے کا وقت آگیا ہے، کیا ایجنڈا اب بھی واضح نہیں؟ ’لعنت‘ ان تمام لوگوں پر جنہوں نے اس کام کے لیے اپنے آپ کو ہی بیچ دیا اور ہمارے بچوں کی تباہی میں برابر کے شریک ہیں۔

ٹوئٹر پر ماریہ بی شدید تنقید کی زد میں آگئیں

ماریہ بی کے ردعمل کے بعد ٹوئٹر صارفین نے فیشن ڈیزائنر پر شدید تنقید کی

ایک صارف نے لکھا کہ ’ایک طرف وہ کہہ رہی ہیں کہ شریعت کے مطابق ٹرانس انٹرسیکس لوگ طبی طور پر مخصوص جنس کا انتخاب کرسکتے ہیں دوسری طرف وہ طبی بنیاد پر مخصوص جنس کا انتخاب کے لیے ٹرانس لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنارہی ہیں، ان کے انسٹاگرام اکاؤنٹ کو رپورٹ کریں‘۔

ماریہ عامر نے لکھا کہ ’مضحکہ خیز بات ہے کہ ماریہ بی کے سڑنے سے اب دل کو ٹھنڈ پڑتی ہے، سرِ راہ میں مہربانی، ہمدردی اور ایسے افراد کو معاشرے میں قبول کرنے کا اجاگر کیا گیا ہے، تو یقیناً ماریہ بی کا اس سے سخت اختلاف ہے۔

ایک اور انسٹاگرام اسٹوری میں ڈیزائنر ماریہ بی نے الزام لگایا کہ چونکہ سرِراہ یو ایس ایڈ کے زیر اہتمام ڈراما ہے، اس لیے مغربی دنیا ہمارے معاشرے پر اپنے صنفی ایجنڈے کو فروغ دے رہی ہے۔

شملہ نے لکھا کہ ’ٹرانس لوگوں کے خلاف ایجنڈا چلانے پر ماریہ بی کو کہاں سے فنڈنگ مل رہی ہے؟ وہ اس کے لیے بہت وقت وقف کررہی ہیں، مجھے حیرت ہے کہ انہیں کون فنڈ دے رہا ہے، انہیں اس سوال کا جواب دینا چاہیے، عوام جاننا چاہتی ہے‘۔

اس طرح کے مسائل پر شاید ہی کوئی ڈراما بنایا جاتا ہے اور جب ایسے مسائل کو اجاگر کیا جاتا ہے تو ماریہ بی جیسے لوگ سامنے آکر تنقید کرتے ہیں، سرِراہ کی حالیہ قسم میں کیا غلط تھا؟ اب تو جو غلط نہیں بھی ہے وہ بھی عوام کو غلط لگنے لگے گا’۔

ایک اور صارف نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونےوالے ڈراما کلپ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ’ ایک والد اور بچے کے درمیان محبت محبت کی خوبصورت تصویر کشی کی گئی ہے، بظاہر ماریہ بی جیسے متعصب لوگ اپنے پرانے خیالات کی وجہ سے یہ چاہیں گے کہ بچے کو لاوارث چھوڑ دیا جائے’۔

واضح رہے کہ اے آر وائے ڈیجیٹل میں نشر ہونے والے ڈرامے سرراہ میں دکھایا جاتا ہے کہ منیب بٹ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سی ایس ایس کا اعلیٰ امتحان پاس کرکے اسسٹنٹ کمشنر (اے سی) تعینات ہوتا ہے۔

قبل ازیں منیب بٹ نے ڈان امیجز کو بتایا تھا کہ پہلی بار کسی ڈرامے میں مخنث شخص کو تعلیم حاصل کرکے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوکر سماجی مسائل حل کرتے دکھایا جائے گا، ورنہ عام طور پر خواجہ سرا افراد کو جسم فروش، ڈانسر اور فقیر کے روپ مین دکھایا جاتا ہے۔