پاکستان

مریم نواز کی تقریر میں عدلیہ پر الزامات، سابق اٹارنی جنرل کا کارروائی کیلئے چیف جسٹس کو خط

اس طرح کی شدید تنقید کو عدلیہ کی آزادی اور انصاف کے نظام پر حملہ تصور کیا جاتا ہے، مریم نواز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہونی چاہیے، انور منصور خان
|

سابق اٹارنی جنرل اور سینئر وکیل انور منصور خان نے مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز کی سرگودھا جلسے میں کی گئی تقریر پر کارروائی کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کو خط لکھ دیا۔

انور منصور خان نے کہا کہ میرے لیے ایسے خط لکھنا بالکل غیر معمولی ہے لیکن بحیثیت ایک سینیئر وکیل 23 فروری کو سرگودھا میں پیش آنے والے واقعے کو آپ کے سامنے رکھنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ ہمارا فخر ہے جس کی حفاظت ہم پر لازم ہے، مجھے مریم نواز سے کوئی ذاتی عناد نہیں لیکن سرگودھا میں 23 فروری کو جلسے کے دوران انہوں نے ارادتاً عوام میں سپریم کورٹ اور ججز کے خلاف جذبات بھڑکائے اور بغیر کسی ثبوت کے معزز ججز اور سپریم کورٹ پر بھونڈے الزامات لگائے۔

اپنے خط میں انور منصور خان نے کہا کہ مریم نواز نے انتخابات کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس کے بینچ کے ارکان جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی کو تنقید کا نشانہ بنایا، دونوں معزز جج صاحبان پر تنقید کرنے کا مقصد انصاف کے عمل پر اثر انداز ہونا اور رکاوٹ ڈالنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی شدید تنقید کو عدلیہ کی آزادی اور انصاف کے نظام پر حملہ تصور کیا جاتا ہے، چنانچہ مریم نواز کے خلاف اس حوالے سے توہین عدالت کی کاروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔

سابق اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی نواز شریف کے خلاف پاناما کیس میں بینچ کا حصہ تھے۔

خط میں انہوں نے مریم نواز کے خطاب کی ویڈیوز کے لنک بھی دیے اور کہا کہ لاکھوں لوگ انہیں سن چکے ہیں اور اسے اب بھی سنا جارہا ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو مریم نواز کی تقریر کی ساؤنڈ ریکارڈنگ پیمرا سے منگوائی جا سکتی ہے اور آپ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کیا آپ ذاتی تنقید کے لیے متعلقہ فرد کے خلاف ’عدالتی اور مجرمانہ توہین‘ کے ذریعے کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔

انور منصور خان کا مزید کہنا تھا کہ تقریر میں نامعلوم ذرائع سے لیک ہونے والی آڈیو ریکارڈنگ سے متعلق الزامات بھی لگائے گئے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے ججز یا کسی اعلیٰ عدالت کے کسی جج کے خلاف بغیر کسی ثبوت یا دستاویز کے آڈیو لیک ہونے کا الزام نہیں لگایا جاسکتا اور نہ ہی استعمال کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا کرنا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ جج پر اثر انداز ہونے اور دباؤ ڈالنے کی کوشش کی وجہ سے قابل تشویش بھی ہے جس سے عدلیہ کی آزادی مجروح ہوتی ہے۔

انور منصور خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان قرار دے چکی ہے کہ کسی بھی غیر قانونی طریقے، جہاں ذریعہ دستیاب نہ ہو، سے لی گئی معلومات کو کسی جج تو دور کسی فرد کے خلاف بھی بطور ثبوت استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ سر عام بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے الزامات لگانا اور آئین کے آرٹیکل 209 پر عمل نہ کرنا اس سے بھی بدتر ہے کہ اسے آرٹیکل 204 کے مطابق بغیر کسی کارروائی کے جاری رہنے دیا جائے۔

سابق اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اب یہ عدالت پر منحصر ہے کہ معزز عدالت کے سامنے رکھے گئے حقائق اور عدلیہ کی ساکھ، عزت، آزادی اور اعتماد کے تحفظ کے لیے آئین و قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

مریم نواز کی سرگودھا میں کی گئی تقریر

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے سرگودھا میں جلسے کے دوران اپنی تقریر میں سابق فوجی جرنیلوں اور عدلیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’2014 میں جب عمران خان کا دھرنا ناکام ہوگیا اور پھر لاک ڈاؤن ناکام ہوا تو دوسرا طریقہ اپناتے ہوئے عدلیہ سے یہ جج اٹھائے، جو بھی کمپرومائزڈ اور کرپٹ جج تھا چاہے وہ کھوسہ ہو، ثاقب نثار ہو یا عظمت سعید ہو‘۔

مریم نواز نے کہا تھا کہ ’جب نواز شریف کو نااہل کیا جارہا تھا تو ایک جج بھی اس میں شامل تھا اور اس کو 5 برس گزر چکے ہیں مگر آج بھی اگر نواز شریف کے خلاف کوئی کیس آتا ہے تو وہ اس میں شامل ہوتا ہے‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’جب اسٹیبلشمنٹ نے اپنے کندھوں سے عمران خان کو اتار کر پھینک دیا تو یہ ٹوکرا آج ان دو، تین ججز نے اٹھا لیا ہے‘۔

مریم نواز نے کہا تھا کہ ’آج جب عمران خان کا لانگ مارچ ناکام ہوا، اسمبلیوں سے باہر آنا پڑا، اس کو استعفے دینے پڑے اور اس کی ہر چیز ناکام ہوئی تو اس کو واپس لانے کا بیڑا ان دو ججز نے اٹھا لیا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’آج جب عمران خان کی سیاسی موت نظر آرہی ہے تو اس کی سیاسی موت کو زندگی دینے کے لیے دو جج پھر میدان میں آگئے ہیں، یہ فیض کی باقیات ہیں جو آج بھی کہیں بیٹھ کر آپریٹ کر رہا ہے‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’لاہور میں سی سی پی او کا تبادلہ ہوا وہ انہوں نے روک دیا اور اس کیس کا خود ہی نوٹس لے لیا اور پھر عمران خان کے آدمی ڈوگر کو لگا لیا اور وہ کیس سنتے سنتے اچانک الیکشن پر پہنچ گئے اور پھر 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا جس میں پھر ان دو ججز کو شامل کرلیا‘۔

مسلم لیگ (ن) کی رہنما نے کہا تھا کہ ان کی آڈیو بھی سامنے آگئی ہے جبکہ یاسمین راشد کہہ رہی ہیں کہ سپریم کورٹ میں اپنے بندے بیٹھے ہوئے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ’بجائے اس کے کہ ان دونوں ججز کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرتے، وہ دو جج جو سینیئر ہیں جن کے کردار پر آج تک کسی نے انگلی نہیں اٹھائی ان دونوں ججز کو شامل نہیں کیا، لیکن ان کو شامل کرلیا‘۔

مریم نواز نے کہا تھا کہ’ آپ یہ جانچنے بیٹھ گئے کہ الیکشن کمیشن اور حکومت پاکستان کی کیا ذمہ داری ہے، گورنر کی کیا ذمہ داری ہے، ضرور جانیں مگر کیا کبھی اپنی بنیادی ذمہ داری کا احاطہ کیا ہے آپ نے، آپ کی ذمہ داری ہے غیرمتنازع بینچ بنانا، کیا وہ ذمہ داری آپ پوری کر رہے ہیں’۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا تھا کہ ’جب آڈیو لیکس کے بعد بھی ان دونوں ججز کو بینچ میں شامل کیا تو لوگوں نے حیرانی اور پریشانی سے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں اور نہ صرف عوام اور سیاسی جماعتوں نے اعتراض کیا بلکہ ساری بار کونسلز نے کہا کہ یہ زیادتی ہو رہی ہے اور وہ ان دونوں ججز کے خلاف ریفرنس لے کر بیٹھے ہیں‘۔

اسلام آباد: عمران خان کی تین مقدمات میں عبوری ضمانتیں منظور

حمزہ علی عباسی کی شوبز میں واپسی

حمزہ علی عباسی کی شوبز میں واپسی