حیدرآباد میں تیزی سے مقبول ہوتی ہوئی آف لائن بائیک سروس
کورونا وبا نے ہمارے کام کرنے کے طریقہ کار کو کافی حد تک تبدیل کردیا ہے۔ اس وبا نے جہاں بہت سے لوگوں کے لیے شدید مشکلات پیدا کیں اور وہاں اس کی وجہ سےمتعدد لوگ اپنی ملازمتوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ عالمی ادارہ صحت نے بتایا کہ بہت سے لوگ وبا کے سماجی معاشی اثرات کی وجہ سے پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کا شکار ہیں جن میں ڈپریشن، پریشانی اور تناؤ جیسی علامات تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہیں۔
تاہم وبا کی وجہ سے ہمیں اپنے کام کرنے کے پرانے طریقہ کار پر نظرِثانی کا موقع ملا۔ وہ لوگ جو اس مشکل وقت میں اپنی ملازمتوں سے وابستہ رہنے میں کامیاب رہے، وہ ورک فرام ہوم جیسی نئی اصطلاح سے واقف ہوئے جبکہ گوگل اور مائیکروسافٹ سمیت متعدد کمپنیوں میں یہ طریقہ کار مستقل طور پر اختیار کرلیا گیا ہے۔
کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے جو لاک ڈاؤن لگایا تھا اس میں بہت سے مواقع پیدا ہوئے۔ جہاں ایک جانب ہمارے نظام کی خامیاں اور فالٹ لائنز بےنقاب ہوئیں وہیں دوسری جانب عوام نے ضرورت محسوس کی کہ اس خلا کو پُر کرنے کی وہ خود کوشش کریں۔
اس کی ایک مثال ہمیں حیدرآباد میں دیکھنے کو ملتی ہے۔
حیدرآباد میں چند نوجوان موٹر سائیکل سوار مختلف بس اسٹاپوں پر رکتے ہیں تاکہ وہ سواریاں بٹھا سکیں۔ وہ اپنے اس غیر رسمی کاروبار کے خود مالک ہیں اور یہ بائیکیا یا کریم جیسے باضابطہ کاروباروں کے ماتحت نہیں ہوتے۔
کوٹری کے رہائشی 33 سالہ اسد زنگیجو نے 2020ء میں اس بائیک سروس کا آغاز کیا۔ اس وقت وہ حیدرآباد میں بدین بس اسٹاپ پر پولیو ورکر کے طور پر تعینات تھے جس سے وہ دن میں 400 روپے کی معمولی رقم ہی کما کرپاتے تھے۔
اسد زنگیجو نے بتایا کہ ’کورونا وبا پھیلنے کی وجہ سے حکومت نے لاک ڈاؤن لگادیا جس نے ہماری روزمرہ کی زندگی کو شدید متاثر کیا۔ میری روز کی کمائی میرے خاندان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ناکافی تھی۔
’2016ء سے 2020ء تک میری تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تو میں نے بطور پولیو ورکر اپنی نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور اس کے بجائے مسافروں کے لیے آف لائن بائیک سروس کا آغاز کیا‘۔
اسد زنگیجو نے یہ کاروبار خود شروع کیا ہے کیونکہ وہ کریم اور بائیکیا جیسی نامی گرامی کمپنیوں کو کمیشن دینے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ انہوں نے ان ایپلیکشنز کے بجائے حیدرآباد کے عوام کے لیے ایک سستا متبادل متعارف کروایا ہے۔ وہ اپنی بائیک لیے بس اسٹاپ پر انتظار کرتے ہیں اور مسافروں کو سستی سواری فراہم کرتے ہیں۔ اسد زنگیجو کی دیکھا دیکھی کچھ ہی دنوں میں ان جیسے دیگر بائیک سوار بھی بس اسٹاپوں پر کھڑے ہونے لگے۔
آج وادھو واہ بس اسٹاپ کے باہر 20 موٹر سائیکل سوار موجود ہیں۔ کچھ یہ کام جزوقتی طور پر کررہے ہیں جبکہ کچھ نے اسے اپنا مستقل پیشہ بنالیا ہے۔
وہ لوگ جو رکشہ یا ٹیکسی کے اخراجات نہیں برداشت کرسکتے وہ مناسب کرائے اور معقول سروس کی وجہ سے ان موٹر سائیکلوں کا انتخاب کرتے ہیں جس سے ان کے وقت کی بھی بچت ہوتی ہے۔
اس غیر رسمی کاروبار کو بھی کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ بائیک سروس چلانے والے شکایت کرتے ہیں کہ انہیں پولیس کی وجہ سے متعدد مسائل پیش آتے ہیں۔ زیادہ تر پولیس حکام بائیک کے کاغذات اور لائسنس یا آن لائن کمپنی کا اجازت نامہ طلب کرتے ہیں جبکہ پولیس واقف ہے کہ یہ ایک آف لائن سروس ہے جس کے لیے ایپلیکیشن کی ضرورت نہیں۔
اسد زنگیجو نے شکایت کی کہ ’جب ہم سواری لےکر نیا پل، حیدر چوک اور قاسم چوک جاتے ہیں تو پولیس اہلکار ہمیں کسی وجہ کے بغیر ہی روک لیتے ہیں۔ ہم کسی ٹریفک قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے لیکن پھر بھی پولیس ہمیں پریشان کرتی ہے۔
’وہ لوگ یا تو ہمیں 500 سے زائد کا چلان کرتے ہیں یا پھر ہم سے ’چائے پانی‘ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جب ہم انہیں 100 روپے رشوت دیتے ہیں تب ہی وہ ہمیں جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ اگر کسی دن بائیک سوار کا سامنا کسی پولیس اہلکار سے ہوجاتا ہے تو اس دن تمام مطلوبہ کاغذات ہونے کے باوجود اسے اپنی کمائی کا بڑا نقصان ہوتا ہے‘۔
آف لائن بائیک سروس فراہم کرنے والوں کی راہ میں صرف پولیس ہی رکاوٹ نہیں بنتی۔ شہریوں کو مناسب قیمت پر سواری فراہم کرنے کا ذریعہ ہونے کے باوجود رکشہ ڈائیور اس آف لائن بائیک سروس سے ناخوش ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اس کی وجہ سے ان کے گاہک کم ہورہے ہیں۔
چند رکشے والے ان بائیک سروس فراہم کرنے والوں کو دھمکاتے ہیں اور ان کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں جبکہ ایک رکشہ ڈرائیور نے تو ایک شخص کی موٹر سائیکل ہی قریبی دریا میں پھینکنے کی دھمکی دے دی تھی۔ جب یہ بائیک سروس والے پولیس کے پاس اپنی شکایات لےکر جاتے ہیں تب وہ عموماً ان کی شکایات پر توجہ ہی نہیں دیتے۔
بائیک سروس فراہم کرنے والے گروپ کے جزوقتی رکن اور رکشہ ڈرائیورز کے عداوتی رویے سے پریشان 27 سالہ احمد سومرو کا کہنا ہے کہ ’ہمیں کسی رکشہ ڈرائیور سے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ ان کے رکشے میں بائیک کے مقابلے زیادہ مسافر بیٹھ سکتے ہیں۔
’فیملیز بائیک پر بیٹھنا نہیں چاہتیں اس لیے وہ عموماً رکشوں کو ترجیح دیتی ہیں۔ ہماری سواریاں محدود ہیں اور ہمارے کام کے اوقات بھی مخصوص ہوتے ہیں۔ ہم صبح آتے ہیں اور رات میں چلے جاتے ہیں۔ ہمارا اور ان کا شاید ہی کوئی مقابلہ ہے۔ اسکول جانے والے طلبہ بھی ان کے صارف ہیں، ان کے مقابلے میں ہمارے صارفین کی تعداد کافی محدود ہے‘۔
اس کام کا ایک فائدہ یہ ہے کہ چونکہ یہ آف لائن بائیک سروس مسافروں کو مخصوص بس اسٹاپوں سے بٹھاتی ہے اور انہیں اپنے گاہکوں کو لینے کے لیے کسی الگ جگہ پر بائیک چلانے کی ضرورت نہیں ہوتی اس لیے اس سے ایندھن کی کھپت کم ہوتی ہے۔ عموماً وہ اپنے روز کے گاہکوں کو اپنا فون نمبر دے دیتے ہیں تاکہ انہیں جب بھی سواری کی ضرورت ہو تو وہ ان سے رابطہ کرسکیں۔
اس سروس کو استعمال کرنے میں صنف رکاوٹ بن جاتی ہے۔ مرد تو اس آف لائن بائیک سروس کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں تاہم خواتین رکشہ استعمال کرنے کو ہی ترجیح دیتی ہیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی اور پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث کرائیوں میں اضافے کی وجہ سے آف لائن بائیک سروس کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
راشد لغاری اس آف لائن سروس کو روزانہ استعمال کرتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ ’مہنگائی کی حالیہ لہر نے لوگوں کی زندگیوں کو بےحد مشکل بنادیا ہے بلخصوص ان لوگوں کی جو محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولت میسر نہیں ہے۔
’حکومتِ سندھ نے پیپلز بس سروس کا آغاز کیا ہے لیکن وہ گنجان آبادی والے اس شہر میں ٹرانسپورٹ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ اس آف لائن بائیک سروس کے آغاز سے پہلے میں اپنے کام پر جانے کے لیے رکشے کا استعمال کرتا تھا۔ یہ بائیک اس کا سستا متبادل ہے۔ اگر میں بائیک کے ذریعے اپنی منزل تک 100 روپے میں پہنچ سکتا ہوں تو پھر میں رکشے پر 200 روپے کیوں خرچ کروں؟‘
پورا دن کام کرنے کے بعد ان بائیک سواروں کو دن کے 10 سے 12 مسافر ملتے ہیں جس سے وہ تقریباً 1500 روپے کمالیتے ہیں۔ وہ ان کمپنیوں کے ضابطوں پر عمل درآمد کرنے کے پابند بھی نہیں ہوتے جو آن لائن بائیک سروسز فراہم کرتی ہیں، اس وجہ سے ان کی رائے ہے کہ یہ سروس انہیں خود مختار بناتی ہے۔
اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں کمپنی کو کسی قسم کا کوئی کمیشن ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ جو کچھ کماتے ہیں وہ انہیں کے پاس رہتا ہے۔ تاہم اس کی چند خامیاں بھی ہیں۔ اگر کوئی موٹرسائیکل سوار کسی حادثے کا شکار ہوکر زخمی ہوجاتا ہے تو ان کے پاس کسی قسم کی میڈیکل اور بائیک انشورنس نہیں ہوتی۔
بہرحال لگ رہا ہے کہ اس طرح کے منصوبے کئی علاقوں میں شروع کیے جارہے ہیں۔ سینیئر صحافی اور فیلڈ رپورٹر اسحٰق منگریو نے نشاندہی کی کہ یہ حیدرآباد میں ایک نیا رجحان ہے۔ اس کے علاوہ نارو، چونڈکو اور خیرپور میں موٹرسائیکل کو ٹیکسی کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔
عوام کو سستی ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کرنے میں ریاست کی نااہلی اور ناکامی کے پیش نظر یہ جاننا بہت آسان ہے کہ اس طرح کی سروسز آخر کیوں مقبول ہورہی ہیں۔
یہ مضمون 26 فروری 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر رہے ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس akhterhafez@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔