پاکستان

پنجاب، کے پی انتخابات: بینچ سے 4 اراکین ازخود الگ، صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر سماعت کر رہے ہیں۔
|

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کی سماعت کرنے والے 9 رکنی لارجربینچ سے 4 اراکین کے خود الگ ہونے کے بعد 5 رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں۔

از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ اس بات کا تعین کرے گا کہ آئین کے تحت مختلف حالات میں کسی صوبائی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری اور اختیار کس کے پاس ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی اور جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے سماعت سے معذرت کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا 5 رکنی بینچ از خود نوٹس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 4 معزز اراکین نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے، عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا، آئین کی تشریح کے لیے عدالت سماعت جاری رکھے گی۔

آئین کیا کہتا ہے اس کا دار ومدار تشریح پر ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین کیا کہتا ہے اس کا دارومدار تشریح پر ہے، کل ساڑھے 9 بجے سماعت شروع کرکے ختم کرنے کی کوشش کریں گے، حکم نامہ ویب سائٹ پر نہیں سے پہلے جاری نہیں کرسکتے، جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ حکم نامہ پہلے ہی سوشل میڈیا پر آگیا تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ ایسا واقعہ نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس جمال خان مندوخیل کا نوٹ کو حکم میں شامل ہونے سے پہلے پبلک ہونا غیر مناسب ہے، عدالتی احکامات پہلے ویب سائٹ پر آتے ہیں پھر پبلک ہوتے ہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فل کورٹ کے معاملے پر درخواست دائر کی ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کی درخواست بھی سن کر نمٹائی جائے گی۔

90 دن کی آئینی مدت کا آغاز 14 جنوری سے ہوچکا، علی ظفر

اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ وزیراعلی پنجاب نےاسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو ارسال کی، گورنر پنجاب نے نگران وزیراعلی کے لیے دونوں فریقین سے نام مانگے، ناموں پر اتفاق رائے نہیں ہوا تو الیکشن کمیشن نے وزیراعلی کا انتخاب کیا۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے گورنر کو خط لکھ کر پولنگ کی تاریخ دینے کا کہا لیکن گورنر نے جواب دیا کہ انہوں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی تو تاریخ کیسے دیں۔

علی ظفر کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دن میں انتخابات لازمی ہیں،کوئی آئینی عہدیدار بھی انتخابات میں90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتا اور 90 دن کی آئینی مدت کا آغاز 14 جنوری سے شروع ہوچکا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ گورنر پنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ گورنر کو کون مقرر کرتا ہے تو علی ظفر نے کہا کہ گورنر کا تقرر صدر مملکت کی منظوری سے ہوتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے اور آئینی مدت کے بعد ازخود تحلیل ہونے میں فرق ہے۔

سابق اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت گورنر یا الیکشن کمیشن کو تاریخ مقرر کرنے کا حکم دے سکتی ہے، انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، ہائی کورٹ نے قرار دیا انتخابی عمل الیکشن سے پہلے شروع اور بعد میں ختم ہوتا ہے۔

علی ظفر نے کہا کہ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن اور گورنر کی ملاقات بے نتیجہ ختم ہوئی، صدر مملکت نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے خود تاریخ مقرر کر دی۔

وکیل نے کہا کہ گورنر کے مطابق شق 208 (4) کے تحت یہ تاریخ الیکشن کمیشن یاکوئی اور اتھارٹی دے گی، ہدایت دی گئی ہے کی سیکیورٹی اورمعاشی صورت حال کے تحت گورنر سے مشورہ کرے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ حکم لازمی قابل پابندی نہیں ہے، مختصر یہ کہ گورنر نے تاریخ دینے سے انکار کیا، الیکشن کمیشن نے خط کا جواب دے دیا ہے، اب بال آپ کے کورٹ میں ہے، آپ فیصلہ کریں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس کے بعد کیا ہوا، ایڈووکیٹ علی ظفر نے کہا کہ اس کے بعد سے اب تک کچھ نہیں ہوا۔

عدالت نے کہا کہ پی ٹی آئی نے گورنر کے خلاف رٹ پٹیشن دائر کی گئی تھی اس کا کیا فیصلہ ہوا، علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ اس میں بھی کہا گیا ہے گورنر مشاورت کرکے تاریخ کا فیصلہ کرے، آرٹیکل 108 اور 109کے تحت الیکشن کمیشن انتخابات کروانے کا پابند ہے۔

علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ملاقات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، عدالت نے کہا کہ یعنی عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی ہے؟ کیا اس اجلاس کے منٹس بھی میڈیا میں رپورٹ ہوئے ہیں؟

علی ظفر نے کہا کہ یہ میڈیا رپورٹس ہیں کہ ایک اخبار نے تفصیل شائع کی، جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اس کے بعد انٹراکورٹ اپیل فائل ہوئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو مجھے سمجھ آ رہی ہے اس کے مطابق الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ تاریخ کے لیے مشاورت آئین میں شامل نہیں، ہائی کورٹ نے گورنر سے مشاورت کا کہہ دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کیا الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ گورنر سے مشاورت کا فیصلہ ہمارے راستے میں ہے، الیکشن کمیشن اگر خود تاریخ دے دے تو کیا یہ توہین عدالت ہوگی۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ سب تاخیری حربے ہیں، الیکشن کمیشن کا تاریخ دینا آئینی عمل ہے، پہلے آپ نہیں، پہلے آپ چل رہا ہے، جس کا نتیجہ تاخیر ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ازخود نوٹس میں سوال ہے کہ انتخابات کی تاریخ کون دے گا، وکیل علی ظفر نے کہا کہ کسی کو تو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس میں الیکشن 10 سال تاخیر کا شکار ہوں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ دوسرا فریق بتا دے الیکشن کی تاریخ کون دے گا، جن کے بارے میں یہ کہتے ہیں ان کو تاریخ کا اعلان کرنے دیں۔

’گورنر خیبرپختونخوا انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کر رہے ہیں‘

علی ظفر نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں صورت حال مختلف ہے، وہاں گورنر نے اسمبلی تحلیل کرنے کے نوٹیفکیشن پر دستخط کیے لیکن گورنر صوبے میں انتخابات کے لیے تاریخ کا اعلان نہیں کر رہے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں کیس کی اگلی سماعت کل ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے بارے میں پشاور ہائی کورٹ میں جواب جمع کرانے کے لیے 21 دن دیے گئے، یہ خالص آئینی سوال ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ گورنر خیبرپختونخوا کہتے ہیں تاریخ دینے کے لیے 90 روز کی مہلت ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 90 دن تاریخ کے لیے ہیں تو الیکشن کب ہوں گے۔

اس دوران عدالت نے آج ہی گورنر خیبرپختونخوا کے سیکریٹری کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیدھا سادھا کیس ہے 18 جنوری سے گورنر تاریخ دینے میں ناکام ہے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ میں 3 آئینی درخواستیں زیر التوا ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے فریقین کو 21 دن کا نوٹس کیوں دیا؟

ان کا کہنا تھا کہ قانونی نقطہ طے کرنا ہے یہ کوئی دیوانی مقدمہ تو نہیں جو اتنا وقت دیا گیا، علی ظفر نے کہا کہ کے پی اسمبلی 18 جنوری کو تحلیل ہوئی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ کے پی میں انتخابات کے حوالے سے کیا پیش رفت ہوئی؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا گورنر کہہ سکتا ہے کہ دہشت گردی ہو رہی ہے، مشاورت کی جائے؟ علی ظفر نے کہا کہ میری نظر میں گورنر کے پی کو ایسا خط لکھنے کا اختیار نہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ گورنر کے پی نے الیکشن کمیشن کو اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا کہا ہے، گورنر نے اپنے خط میں سیکیورٹی کو بنیاد بنایا ہے۔

’اسمبلی کی تحلیل کا نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن نے جاری کیا‘

اس دوران جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون جاری کرتا ہے؟ علی ظفر نے کہا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن نے جاری کیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن جاری کر سکتا ہے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نوٹیفکیشن کے مطابق 48 گھنٹے گزرنے کے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ کے مطابق نوٹیفکیشن حکومت نے جاری کیا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نوٹی فکیشن سے پہلے کسی نے تو حکم جاری کیا ہی ہوگا؟

کیا آپ سب کے سوالات سے اتفاق کرتے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ کا وکیل سے مکالمہ

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ گورنر کا کردار پارلیمانی جمہوریت میں پوسٹ آفس کا ہی ہے، کیا گورنر اپنی صوابدید پر اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر کی صوابدید ہے کہ وہ کوئی سمری منظور کرے یا واپس بھیج دے، اسمبلی تحلیل پر گورنر کا کوئی صوابدیدی اختیار نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر اگر سمری منظور نہ کرے تو اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ گورنر کی صوابدید یہ نہیں کہ اسمبلی تحلیل ہوگی یا نہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر سمری واپس بھیجے تو بھی اڑتالیس گھنٹے کا وقت جاری رہے گا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ گر گورنر سمری واپس بھیجے تو 48گھنٹے کا وقت کہاں سے شروع ہوگا؟ علی ظفر نے کہا کہ میری نظر میں گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری واپس نہیں بھیج سکتا، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری کو واپس نہیں بھیج سکتا، چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کے لیے گورنر کو کسی سمری کی ضرورت نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 112تھری کے تحت گورنر ازخود اسمبلی تحلیل کرسکتا ہے؟ آرٹیکل 112 میں 2 صورتیں ہیں کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری دیتا ہے یا نہیں؟ آرٹیکل 112 کی ذیلی شق ون میں گورنر کی صوابدید ہے کہ تحلیل کریں یا نہیں، اب بتائیں کہ کیا گورنر کے پاس صوابدید ہے یا ان کا کردار مکینیکل ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر اسمبلی 48 گھنٹے بعد تحلیل ہوتی ہے تو آئین کے تحت نوٹیفکیشن کون کرتا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ گورنر کے صوابدیدی اختیارات پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ علی صاحب آپ سب کے ہی سوالات پر کہہ رہے ہیں ”جی بالکل“، کیا آپ سب کے سوالات سے اتفاق کرتے ہیں؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر الیکشن کے دن ملک میں جنگ ہو یا زلزلہ آجائے تو کیا ہوگا، انتخابات کی تاریخ گورنر دے دے تو بھی قدرتی آفات آسکتی ہیں، جنگ ہو یا کرفیو لگ جائے تو انتخابات کیسے ہوں گے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ قانون میں سیلاب اور قدرتی آفات کا ذکر ہے مگر جنگ کا نہیں ہے، الیکشن کمیشن مخصوص پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ ملتوی کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانون میں جنگ کا کہیں ذکر نہیں اس کے لیے ایمرجنسی ہی لگائی جاسکتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 1976 میں آئین خاموش تھا کہ الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے، اسمبلی نے ترمیم کرکے صدر اور گورنر کو تاریخ دینے کا اختیار دیا، پنجاب کی حد تک صدر نے شاید تاریخ درست دی ہو۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سمری آنے پر اسمبلی تحلیل کا حکم جاری کرنا گورنر کی ذمہ داری ہے، گورنر اپنے حکم میں انتخابات کی تاریخ بھی دے گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن ازخود انتخابات کرا سکتا ہے، جس پر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اسے ہی اختیار ہونا چاہیے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین کو بالکل واضح ہونا چاہیے۔

پارلیمان کی بصیرت کا کیسے جائزہ لیا جاسکتا ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں، پارلیمان کی بصیرت کا کیسے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جہاں اسمبلی کی تحلیل میں گورنر کچھ نہیں کرتا ہے تو وہاں تاریخ کون دے گا،جہاں وزیر اعلیٰ اسمبلی توڑتا ہے گورنر پکچر میں نہیں وہاں گورنر کا کیا اختیار ہوگا۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ فرض کریں اس تاریخ پر جنگ شروع ہوجائے یا کوئی ایسا واقع ہو جائے تو الیکشن کمیشن انتخابات نہیں کرواسکتا تو الیکشن کمیشن ایسے میں کیا کرے گا۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ ایسے کسی واقعے سے کوئی علاقہ یا کچھ علاقے متاثر ہوسکتے تو ان حلقوں مین الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں۔

بینچ کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ فرض کریں کرفیو لگ جائے تو کیا ہوگا، جس پر علی ظفر نے بتایا کہ اس پر آئین خاموش ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایمرجنسی کا نفاذ کس صورت میں ہو سکتا ہے، وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ صرف جنگ اور سیلابی صورت حال میں ہوسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہائی کورٹ سے اسٹاف مانگا ہے، ہائی کورٹ نے کہا ہم نہیں دے سکتے ہیں، یہ انتظامی معاملہ ہے۔

ایسی کوئی شق ہے کہ کچھ بھی ہوجائے الیکشن ملتوی نہیں ہوسکتے، جسٹس منیب اختر

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا ایسی کوئی شق نہیں ہے کہ ملک میں کچھ بھی ہو جائے الیکشن ملتوی نہیں ہوسکتے، جج کے سوال پر ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) الیکشن کمیشن نے کہا کہ سیکشن 58 کے تحت ناگزیر حالات میں الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جہاں گورنر ناکام ہوجائے تو وہاں صدر آئے گا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر ایڈوائس پر اسمبلی توڑے اور تاریخ نا دے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر تاریخ دے، ایسی صورت میں آپ کو عدالت جانا ہوگا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ چند صورتوں میں آئین خاموش ہو تو پارلیمنٹ ایک منتخب ادارہ ہے، 1976 میں یہ اختیار الیکشن کمیشن کے پاس تھا اور گورنر کے حوالے سے آئین خاموش تھا، پھر پارلیمنٹ نے مداخلت کی اور کہا کہ صدر کو اختیار حاصل ہوگا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ تینوں صورتوں میں تاریخ دینے کا اختیار گورنر کا ہی ہوگا اور وکیل سے سوال کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن کو بڑھ کر تاریخ دینی چاہیے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے،گورنر اسمبلی تحلیل کرتا ہے تو تاریخ بھی گورنر دے گا، چیف جسٹس نے کہا کہ دوسری صورت ہوگی تو الیکشن کمیشن ایکٹ کرے گا۔

علی ظفر نے کہا کہ گورنر تاریخ نہ دے تو صدر مملکت تاریخ دے گا، چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر صرف تاریخ دے یا اس پر کوئی غور و فکر کرسکتا ہے۔

کمیشن تیار ہو لیکن وسائل نہ ہو تو کیا ہوگا، جسٹس جمال مندوخیل

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن راضی تو ہو لیکن وسائل نہ ہوں تو پھر کیا ہوگا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ 10 سال الیکشن نہ ہوں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پورے پاکستان میں کرکٹ ہورہی ہے لیکن انتخابات نہیں ہوسکتے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اس موقع پر ابھی صرف تاریخ کی بات ہو رہی ہے لیکن رشتہ نہیں ہوا ہے، اس کی تاریخ بعد میں ہوگی۔

سپریم کورٹ میں جسٹس منصور علی شاہ کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا سمری آنے پر اسمبلی تحلیل کا حکم جاری کرنا گورنر کی ذمہ داری ہے، گورنر اپنے حکم میں انتخابات کی تاریخ بھی دے گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن ازخود انتخابات کرا سکتا ہے؟ جس پر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اور اسے ہی اختیار ہونا چاہیے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین کو بالکل واضح ہونا چاہیے، چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان کی بصیرت کا کیسے جائزہ لیا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن نے گورنرز کو تاریخیں تجویز کر رکھی ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ہر وقت انتخابات کے لیے تیار رہنا چاہیے، کوئی بھی اسمبلی کسی بھی وقت تحلیل ہوسکتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس بنیاد پر انتخابات نہ ہوں کہ پیسے ہی نہیں ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا یہ عجیب نہیں ہے کہ صدر مشاورت سے تاریخ دیتا ہے اور گورنر اپنی مرضی سے، چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر کسی سے تو مشاورت کرتا ہی ہوگا۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر گورنر ایک ہفتے میں الیکشن کا اعلان کر دے تو الیکشن کمیشن کیا کرے گا، انتخابات کا سارا کام تو الیکشن کمیشن کو کرنا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ انتخابات کے لیے پورا شیڈول دیا گیا ہے کہ کس مرحلے کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ کا پابند ہوتا ہے یا تاخیر کرسکتا ہے، جس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ آئین میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

علی ظفر نے کہا کہ ترکیہ میں زلزلے کے باوجود انتخابات بروقت ہو رہے ہیں، پولنگ کے دن کیا ہوجائے وہ اُس وقت ہی دیکھا جا سکتا ہے، خدشات کی بنیاد پر پولنگ ملتوی نہیں ہوسکتی۔

25 اپریل سے پہلے انتخابات ممکن نہیں، اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے کہا کہ عدالت آرٹیکل کے آرٹیکل 254 کو بھی مدنظر رکھے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 254 کا اطلاق تب ہوگا جب کوئی کام تاخیر سےکیا گیا ہو، پہلے کام کرنے کی نیت تو کریں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر کی جانب سے دی گئی تاریخ پر الیکشن ممکن نہیں کیونکہ الیکشن کمیشن کو قانون کے مطابق 52 دن درکار ہوتے ہیں، کسی صورت بھی 25 اپریل سے پہلے انتخابات ممکن نہیں ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 2005 میں زلزلہ آیا تو بھی سپریم کورٹ بار کے انتخابات بروقت ہوئے تھے تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ آئین خاموش ہو تو قانون کے مطابق چلا جاتا ہے۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کل سپریم کورٹ بار اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدور کو بھی سنیں گے، عدالت میں موجود پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کل اپنے مختصر دلائل دوں گا۔

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران صدر مملکت کے پرنسپل سیکریٹری بھی عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ عدالت میں صدر مملکت کی نمائندگی وکیل سلمان اکرم راجا کریں گے۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کل صبح 9:30 بجے تک ملتوی کردی گئی۔

23 فروری کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری، 4 ججز کے اضافی نوٹ شامل

قبل آج سپریم کورٹ نے پنجاب، خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی 23 فروری کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا۔

Title of the document


حکم نامہ 9 رکنی لارجر بینچ نے جاری کیا، سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ تحلیل ہوگیا، بینچ کی تشکیل نو کا معاملہ چیف جسٹس کو بھیجوا دیا گیا۔

9 رکنی بینچ کے حکم نامے میں ایک جج کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے، تحریری حکم نامے کے مطابق گزشتہ سماعت پر 3 آئینی سوالات کو سنا گیا، فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس یحیی آفریدی اور جمال خان مندوخیل کے اختلافی نوٹ شامل ہیں۔

چیف جسٹس کی جانب سے اپنی سربراہی میں بنائے گئے 9 رکنی بینچ میںجسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کا مشترکہ بیان پڑھتے ہوئے کہا تھا کہ 2 ججز کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض ہے، اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی اپنے آپ کو بینچ سےالگ کردیں۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے یہ ازخود نوٹس ایسے وقت میں لیا گیا جب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پیر کے روز یکطرفہ طور پر پنجاب اور خیبر پختون خوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا جس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر مشاورت کے لیے ان کی دعوت کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس کا از خود نوٹس

22 فروری کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی درخواست پر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجربینچ تشکیل دے دیا تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی درخواست پر لیے گئے از خود نوٹس میں کہا کہ ’عدالت کے دو رکنی بینچ کی جانب سے 16 فروری 2023 کو ایک کیس میں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت از خود نوٹس لینے کی درخواست کی گئی تھی‘۔

نوٹس میں کہا گیا کہ انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے سپریم کورٹ میں مزید درخواستیں بھی دائر کردی گئی ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجز بینچ تشکیل دیا ہے، جس میں سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود شامل نہیں ہیں۔


بینچ کے سامنے جائزے کے لیے سوالات:


ازخود نوٹس میں چیف جسٹس نے کہا کہ معاملے کا تناظر یہ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں بالترتیب 14 جنوری اور 18 جنوری کو تحلیل کی گئیں تھیں۔

چیف جسٹس کی طرف سے ازخود نوٹس میں لارجر بینچ کے لیے تین سوالات رکھے ہیں جن پر غور کیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اہم آئینی معاملے پر وضاحت نہیں ہے اس لیے اس کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔

نوٹس میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن سے منسوب بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو درکار تعاون خاص طور پر ضروری فنڈ، عملہ اور سیکیورٹی کی فراہمی نہیں کی جا رہی ہے اور اسی لیے آئین کے مطابق الیکشن کمیشن عام انتخابات کے انعقاد سے معذور ہے۔

چیف جسٹس نے مذکورہ وجوہات کی روشنی میں کہا کہ میری نظر میں یہ مسائل عدالت کی جانب سے فوری توجہ اور حل کی ضرورت ہے، آئین کی کئی شقوں اور الیکشن ایکٹ کی متعلقہ سیکشنز کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ 20 فروری کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا۔

یاد رہے کہ 12 جنوری کو وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے سمری پر دستخط کر دیے تھے۔

گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے وزیراعلیٰ کی جانب سے ارسال کی گئی سمری پر دستخط نہیں کیے تھے، جس کے بعد صوبائی اسمبلی 48 گھنٹوں میں از خود تحلیل ہوگئی تھی۔

بعدازاں 18 جنوری کو گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے وزیر اعلیٰ محمود خان کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے سے متعلق ارسال کی گئی سمری پر دستخط کیے تھے۔

دونوں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے نئے انتخابات کے لیے تاریخ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

پی ٹی آئی نے 27 جنوری کو پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تاریخ کا فوری اعلان کرنے کا حکم دیا تھا۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن نے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن سے صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات کے لیے مشاورت کی تھی تاہم اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا تھا، گورنر پنجاب نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر اپیل دائر کی تھی اور اس کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی انٹراکورٹ اپیل دائر کر دی تھی۔

دوسری جانب پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور گورنر خیبر پختونخوا کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا حکم دینے سے متعلق درخواستوں پر ای سی پی سے الیکشن شیڈول طلب کرلیا تھا۔

کیفی خلیل کا گانا ’کہانی سنو‘ ٹاپ 10 گلوبل ویڈیوز میں شامل

پی ایس ایل8 میں قلندرز کی جارحانہ بیٹنگ، پشاور زلمی کو 40 رنز سے شکست

وزیراعظم نے کفایت شعاری پالیسی پر عملدرآمد کیلئے مانیٹرنگ کمیٹی تشکیل دے دی