پاکستان

صوبوں کے انتخابات پر از خود نوٹس کی سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست

2 ججز جو پہلے ہی اس معاملے پر اپنا ذہن بنا چکے ہیں، انہیں ہٹا کر کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے، درخواست گزار

حکمراں اتحاد میں شامل تین جماعتوں نے سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے سوا دیگر تمام ججوں پر مشتمل فل کورٹ کے قیام کے لیے درخواست کی ہے تاکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کے اعلان میں تاخیر پر ازخود نوٹس کی کارروائی کی جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینئر وکیل فاروق ایچ نائیک، منصور عثمان اعوان اور کامران مرتضیٰ کی جانب سے بالترتیب پی پی پی پی، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) کی جانب سے دائر کی گئی مشترکہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ استدعا انصاف کے بہترین مفاد اور سپریم کورٹ پر عوام کا اعتماد مضبوط کرنے کے لیے کی گئی ہے۔

درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ 2 ججز جو پہلے ہی اس معاملے پر اپنا ذہن بنا چکے ہیں، انہیں ہٹا کر انصاف اور شفافیت کے مفاد میں کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

درخواست میں استدلال کیا گیا تھا کہ جب 23 فروری کو چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تو جسٹس جمال خان مندوخیل نے ایک نوٹ پڑھ کر سنایا اور اس بات پر اعتراض اٹھایا کہ چونکہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی پر مشتمل 2 رکنی بینچ پہلے ہی اس معاملے پر ایک واضح رائے دے چکا ہے جیسا کہ عدالت کے 16 فروری کے حکم نامے میں درج ہے لہٰذا اگر وہ لارجر بینچ کا حصہ رہے تو یہ آرٹیکل 10 اے کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔

درخواست گزار کے مطابق جسٹس جمال خان مندوخیل نے مزید کہا کہ آرٹیکل 184 (3) کے تحت معاملہ چیف جسٹس کو بھیجنا مناسب نہیں تھا اور چیف جسٹس کی جانب سے کی گئی از خود کارروائی کا جواز نہیں تھا۔

بعد ازاں اسی تاریخ کو سپریم کورٹ نے متعلقہ فریقین کو نوٹسز جاری کیے اور درخواست گزار اپنے وکیل کے ذریعے 24 فروری کو عدالت میں پیش ہوئے اور ایک مشترکہ بیان پڑھ کر جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے پی پی پی، مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے پاکستان سے متعلق کسی بھی معاملے میں شامل نہ ہونے کا مطالبہ کیا۔

درخواست کے مطابق ان حالات نے ازخود دائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے چیف جسٹس کے نوٹ میں درج کردہ بہت سے قانونی، آئینی اور عوامی اہمیت کے کئی سوالات اٹھائے ہیں۔

مزید برآں جسٹس جمال خان مندوخیل کے مشاہدات نے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت از خود نوٹس اختیارات کے استعمال کے طریقے کے بارے میں بھی اہم آئینی سوالات اٹھائے ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی غیر سنجیدگی

دریں اثنا سپریم کورٹ میں ایڈووکیٹ ہائی کورٹ شوکت علی جوئیہ، زاہد انور جاوید، ملک وہاب حسن اور دیگر وکلا کی جانب سے کیس میں فریق بننے کی علیحدہ درخواست دائر کی گئی۔

درخواست گزاروں نے نشاندہی کی کہ دونوں صوبوں میں عام انتخابات کے انعقاد کے معاملے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) اور حکومت کے متعلقہ حلقوں کی ’غیر سنجیدگی‘ کی وجہ سے عدالت عظمیٰ کو ازخود نوٹس کی کارروائی شروع کرنا پڑی۔

درخواست گزاروں نے کہا کہ یہ آئین کی بالادستی کا معاملہ ہے، اسی لیے وہ عوام کے جذبات کے مطابق عدالت کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔

ان کا مؤقف تھا کہ تینوں حکمران جماعتوں کی طرف سے دو ججوں کو بینچ سے ہٹانے کے لیے دائر مشترکہ بیان قانون اور حقائق کے منافی ہے،بلکہ اس کا مقصد عدالت کو متاثر کرنا تھا جس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

درخواست میں یاد دلایا گیا کہ 2022 میں دوست محمد لغاری کیس میں سپریم کورٹ نے لارجر بنچ کی تشکیل سے متعلق تقریباً وہی اعتراض/درخواست مسترد کر دی تھی۔