پاکستان

بارکھان سے بازیاب ماں بیٹوں کی شوہر سے ملاقات، مری اتحاد کا دھرنا ختم کرنے کا اعلان

سانحہ بارکھان کے ورثا میتوں کو لے کر روانہ ہو گئے اور مری قومی اتحاد کی جانب سے دھرنا ختم کردیا گیا۔

بلوچستان کے علاقے بارکھان میں مبینہ طور پر صوبائی وزیر کی جیل میں قید خاتون اور اس کے بچوں کو بازیاب کراتے ہوئے ان کے شوہر سے چار سال بعد ملاقات کرا دی گئی جس کے بعد مری قبائل کا چار روز سے جاری دھرنا ختم کردیا گیا۔

کوئٹہ میں بارکھان سے لاپتا خاندان کی بازیابی کے بعد سربراہ محمد خان مری سے ملاقات کرادی گئی۔

پولیس حکام کے مطابق بارکھان واقعے میں لاپتا خان محمد مری کی اہلیہ، بیٹی اور چاروں بیٹوں کو بازیاب کرانے کے بعد آج کوئٹہ پہنچایا گیا جس کے بعد خان محمد کو اہلخانہ سےملوایا گیا ہے۔

بچے اور خان محمد پولیس کی تحویل میں آگئےہیں جبکہ بازیاب خاتون و بچوں کو جوڈیشل مجسٹریٹ 12 کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

مجسٹریٹ کے روبرو بازیاب ہونے والے افراد کے بیانات قلمبند کیے جائیں گے اور بازیاب ہونے والوں کے ڈی این اے اور جنسی زیادتی کے حوالے نمونے لیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد بازیاب ہونے والے بچوں کو خاندان کے سربراہ خان محمد کے حوالے کیا جائے گا۔

بچوں کی بازیابی کے بعد خان محمد اور ان کی اہلیہ نے پہلی بار میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سب کا شکرگزار ہوں اور میرے بچے بازیاب ہوچکے ہیں لہٰذا میں دھرنے کے شرکا سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ دھرنا ختم کریں۔

انہوں نے بچوں کی بازیابی میں مدد کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم چار سال بعد آزاد ہو گئے ہیں۔

خاتون اور بچوں کی بایابی کے بعد مری قبائل نے چار دن سے جاری دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

چیئرمین مری اتحاد مہردین مری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خان آف قلات کے بھائی پرنس عمر آغا کے اعلان کے بعد مری اتحاد نے دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ہم اپنے شہیدوں کو دوسروں کے ہاتھوں استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری لاشیں خراب ہو رہی ہیں اور خان محمد مری نے کل ہی تدفین کا کہہ دیا تھا۔

مہردین مری نے کہا کہ صوبائی حکومت نے ہمارے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا بلکہ حکومت سردار عبدالرحمٰن کھیتران کی پشت پناہی کر رہی ہیے البتہ ہم آئی جی بلوچستان کے بہت مشکور ہیں جنہوں نے ہمارے مغویوں کو بازیاب کروایا اور دیگر مطالبات مانے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاشوں کو ڈی این اے کے لیے لے جارہے ہیں جس کے بعد تدفین کا اعلان بعد کیا جائے گا جبکہ گران ناز اور اس کی بیٹی کو کراچی میڈیکل کے لیے لے جائیں گے

اس دوران اس موقع پر عجیب و غریب صورتحال پیدا ہو گئی جب دھرنا ختم کرنے کے اعلان پر شرکا میں اختلاف پیدا ہو گیا ہے اور مخالف گروپ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایف آئی آر میں سردار عبدالرحمٰن کا نام شامل کیا جائے اور مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

دھرنے کے دوسرے دھڑے نے لاشیں بھی روک لیں اور ایمبولینسز کا گھیراؤ کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو بھی لاشیں لے جانے نہیں دیں گے۔

دھرنا دینے والے دوسرے دھڑے کی قیادت کرنے والے چنگیز مری نے کہا کہ ریڈزون میں موجود لاشوں کو تدفین کرنے نہیں دیں گے کیونکہ لاشوں کی تدفین کے بعد ہمارے مطالبات منظور نہیں کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں سردار کھیتران کو بھی نامزد کیا جائے، خان محمد مری سردار کھیتران کے گھر ملازم تھا، مری سمیت تمام قبائل سے خاتون نے قرآن پاک اٹھاکر اپیل کی اور نوجوان لڑکی کی لاش کی ویڈیو وائرل کرنے پر قتل کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہماری جدوجہد سے خاتون سمیت 6 بچے بازیاب ہو گئے ہیں اور تینوں افراد کے قتل کی ایف آئی آر سردار کھیتران کیخلاف کاٹی جائے۔

چنگیز مری نے دعویٰ کیا کہ ہمارے بڑے بھی سردار کھیتران کو محفوظ راستہ دے رہے ہیں۔

بعدازاں سانحہ بارکھان کے ورثا میتوں کو لے کر روانہ ہو گئے اور مری قومی اتحاد کی جانب سے دھرنا ختم کردیا گیا۔

دوسری جانب وزیرِداخلہ بلوچستان میر ضیا لانگو نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بارکھان واقعہ انسانی مسئلہ تھا، وزیراعلیٰ نے معاملے پر سب کو اکٹھا کیا اور فوری ایکشن کا کہا۔

انہوں نے کہا کہ اہل خانہ کو بازیاب کرنے کا مشن تھا جو سب اداروں نے مل کر پورا کیا اور وزیراعلیٰ کی ہدایت پر جے آئی ٹی اور پولیس کی اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم بھی بنائی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی بیان بازی تو کی گئی مگر بازیابی میں کوئی تعاون نہیں کیا گیا البتہ اب اہل خانہ نے بازیابی پر شکریہ ادا کیا اور دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔

ضیا لانگو نے کہا کہ ماحل بلوچ کے معاملے میں قانون کے تحت کاروائی ہورہی ہے اور ان کی ماں سے ملاقات بھی کروائی گئی ہے۔

سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے الزام عائد ہونے پر خود کو پیش کیا، ہم عملی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں اور جب تک الزام ثابت نہیں ہوتا کوئی کاروائی نہیں ہوسکتی۔