کیا حکومت انتخابات میں تاخیر کے لیے آئینی فراڈ کا سہارا لے رہی ہے؟
آسکر آر بیناوڈس کا قول ہے کہ ’میرے دوستوں کے لیے سب کچھ اور میرے دشمنوں کے لیے قانون‘۔
پُرتشدد واقعات کے خوف اور افراتفری نے ملک کو گھیرا ہوا ہے۔ ملکی تاریخ میں اس سے قبل کبھی بھی 3 اقسام کے انتشار نے بیک وقت ملک کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیا۔ اس وقت ہم سیاسی اور اقتصادی تباہی کے دہانے ہر ہیں جبکہ دہشت گردوں اور علحیدگی پسند گروہوں کی پُرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے بھی افراتفری کی صورتحال موجود ہے۔ حتیٰ کہ جب مشرقی پاکستان الگ ہورہا تھا (71-1970ء) تب بھی سیاسی ڈیڈلاک اور علحیدگی پسند گروہوں کی وجہ سے حالات کشیدہ تو تھے لیکن اس وقت بھی ہمیں دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔
ملک میں موجود سیاسی انتشار کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہماری سیاسی اور عسکری اشرافیہ اگلی حکومت کو اقتدار منتقل کرنے کے بنیادی اصولوں پر متفق نہیں ہوتی۔
پُرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی یا کسی بھی حکومت کی جانب سے اقتدار کھودینے کے امکان کو تسلیم ہی نہ کرنا پاکستان کی سیاست کا پرانا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ سیاسی حکومتوں کے دوران بھی رہا ہے اور آمریتوں میں بھی۔ اس امر کو برصغیر میں موجود اس رجحان سے بھی تقویت ملتی ہے جس کے تحت ملک پر کوئی ایک جماعت یا فرد ہی حکومت کرتا ہے۔ اس کی لاتعداد مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جن میں شیخ مجیب الرحمٰن (1975ء)، اندرا گاندھی (77-1975ء)، نریندر مودی (2014ء سے اب تک)، حسینہ واجد (2009ء سے اب تک)، ذوالفقار علی بھٹو (77-1971ء)، نواز شریف (99-1997ء)، عمران خان (22-2018ء)، اور بنگلادیش اور پاکستان میں حکومت کرنے والے تمام آمر بھی شامل ہیں۔
عصرِ حاضر کے پاکستان میں اس وقت آئینی دھوکا دہی کی حکمت عملی اختیار کرکے اقتدار کی پرامن منتقلی کو سبوتاژ کیا جارہا ہے۔ اس سیاسی کھیل میں آئین کو پیادہ بنا کر مضحکہ خیز طور پر اسے اپنے مطلب کے لیے استعمال کیا جارہا ہے تاکہ حکومت اپنے غیرجمہوری اور غیرآئینی اقدامات کا جواز پیش کرسکے۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں بھی عدم اعتماد کے ووٹ کو سبوتاژ اور قومی اسمبلی تحلیل کرکے اسی طرح آئینی دھوکا دہی انجام دی گئی تھی۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی زیر قیادت موجودہ حکومت بھی پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات میں تاخیر کی کوشش اور اپنے سیاسی مخالفین کو ممکنہ طور پر نااہل اور مجرم قرار دینے کے لیے قانون کا غلط استعمال کرکے اسی طرح کے آئینی فراڈ میں مصروف ہے۔ یہ رجحان بھی عمران خان کی گزشتہ حکومت سمیت ہمارے ملک کی تمام سیاسی اور عسکری اشرافیہ کی روایت بن چکا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 105(3) اور 224(2) میں درج ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 روز کے اندر ہی انتخابات منعقد کروائے جائیں۔ لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات میں تاخیر کی جو وجوہات بتائی جارہی ہیں وہ مضحکہ خیز بھی ہیں اور خطرناک بھی۔
پہلی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کے علیحدہ سے انتخابات کروانے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ تو کیا ہماری جمہوری آئینی ریاست کی بنیاد یعنی بروقت انتخابات کو صرف اس وجہ سے ٹالا جاسکتا ہے کہ ریاست اس کام کے لیے چند ارب روپے خرچ نہیں کرسکتی؟
انتخابات میں تاخیر کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومتیں جو دوسرا جواز پیش کررہی ہیں وہ یہ ہے کہ دہشت گردی کی وجہ سے انتخابات کا انعقاد نہیں ہوسکتا۔ اگر 2013ء میں انتخابات ہوسکتے ہیں تو اب بھی ہوسکتے ہیں۔ 2013ء میں تو تحریکِ طالبان پاکستان نے پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کو واضح دھمکیاں دی تھیں اور ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم دہشت گردوں کو یہ فیصلہ کرنے دیں گے کہ ہمارے ملک میں انتخابات کس وقت ہونے چاہئیں؟
جو تیسرا جواز پیش کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ اگر اس وقت پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات ہوجاتے ہیں تو پھر قومی اسمبلی کے انتخابات میں ان دونوں صوبوں میں نگران حکومت نہیں ہوگی جس سے عبوری سیٹ اپ کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ اگر اس آئینی تشریح کو تسلیم کرلیا جاتا ہے تو وزیراعلیٰ کی تجویز سے یا کامیاب عدم اعتماد کے ووٹ کے نتیجے میں صوبائی اور قومی اسمبلیوں کو قبل از وقت تحلیل کرنے کے آئینی اختیار کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی، کیونکہ اکثر حالات میں اسمبلیاں قبل از وقت تحلیل ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے صوبائی اور قومی انتخابات مختلف اوقات میں منعقد ہوتے ہیں۔
چوتھی وجہ یہ پیش کی جارہی ہے کہ گورنر پنجاب آئینی طور پر انتخابات کی تاریخ دینے کے پابند نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے پنجاب اسمبلی کو تحلیل نہیں کیا۔ پنجاب کی اسمبلی کو آئین کے آرٹیکل 112 کے تحت تحلیل کردیا گیا تھا۔ اگر اس دلیل کو تسلیم کرلیا جائے تو کوئی بھی گورنر محض انتخابات کی تاریخ نہ دےکر یا پھر تاریخ دینے میں تاخیر کرکے آئینی جمہوری عمل کو تعطل کا شکار کرسکتا ہے۔
اس کے علاوہ صدر، الیکشن کمیشن آف پاکستان، گورنروں اور لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج کی طرف سے متضاد آئینی تشریحات کی وجہ سے ملک آئینی بگاڑ کے دہانے پر ہے۔
آئین کا آرٹیکل 254
موجودہ حکومت آئین کے آرٹیکل 254 کو بنیاد بناکر انتخابات میں تاخیر کی حکمتِ عملی اپنا رہی ہے۔ آرٹیکل 254 جائز وجوہات کی بنا پر التوا کے شکار ہونے والے اقدامات کو محض التوا کی وجہ سے آئینی طور پر غیر موثر ہونے سے بچاتا ہے۔
تاہم سپریم کورٹ نے ’ریفرنس نمبر 1 آف 1988ء کیس‘ میں کہا تھا کہ مقررہ مدت کے اندر ذمہ داری انجام نہ دینے سے بھی آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
اس کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ نے ’راؤ نعیم سرفراز کیس‘ (2013ء) میں کہا تھا کہ آرٹیکل 254 سیاسی وجوہات کی خاطر آئینی حدود کی خلاف ورزی کرنے کا لائسنس فراہم نہیں کرتا۔ جبکہ حال ہی میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے حوالے سے موقف اپنایا تھا کہ آرٹیکل 254 فرار کا راستہ نہیں ہے کہ جو متعلقہ آئینی اتھارٹی کو یہ اجازت دے کہ وہ جب چاہیں آئین میں درج مقررہ مدت کو نظرانداز کرسکیں۔
مختصراً یہ کہ موجودہ حکومت پہلے سے طے شدہ حکمتِ عملی کے تحت انتخابات میں تاخیر کا جو جواز پیش کررہی ہے، اس کی آئین کے آرٹیکل 254 میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
آئینی انتشار کی اس صورت حال کا حل سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے پاس موجود ہے۔ آئین کے محافظ ہونے کی حیثیت سے عدالتوں کو چاہیے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کا مقررہ آئینی مدت میں انعقاد یقینی بنائیں۔ عدالتیں الیکشن کمیشن کو حکم دیں کہ وہ مقررہ وقت میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد کرے اور عدالتیں غیرقانونی طور پر سیاسی مخالفین کو نااہل کرنے اور انہیں مجرم قرار دینے کے لیے عدالتی عمل کا غلط استعمال بھی نہ ہونے دیں۔
گزشتہ سال عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے معاملے پر سپریم کورٹ ہی تھی جس نے عدالتی فیصلے کے ذریعے اس ملک کو مکمل طور پر آئینی بحران سے بچایا تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ان حالات میں انتخابات آئین کی مقرر کردہ مدت میں ہوں گے اور کیا یہ انتخابات آزاد اور منصفانہ ہوں گے یا نہیں۔ اس سوال کا جواب ہی اس بات کا تعین کرے گا کہ آیا مستقبل میں پاکستان آئین کی حکمرانی دیکھے گا یا یوں ہی ایک کے بعد ایک آئینی بحرانوں کا شکار ہوتا رہے گا۔
یہ مضمون 23 فروری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔