طورخم سرحد 4 روزسے بند، ڈرائیور غذائی اشیا کے ٹرکس واپس پشاور لانے پر مجبور
طورخم سرحد مسلسل 4 روز سے بند ہے جس کی وجہ سے ڈرائیور جلد خراب ہونے والی غذائی اشیا کے 50 ٹرکس واپس پشاور لانے پر مجبور ہو گئے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرحد پر پھنسے زیادہ تر ڈرائیورز نے بتایا کہ ان کے محدود مالی وسائل ہیں اور ان کے پاس پیسے ختم ہو رہے ہیں جبکہ وہ بے چینی سے سرحد کے دوبارہ کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
ڈرائیوروں نے کہا کہ انہیں تجارتی سامان کے چوری اور شرپسند عناصر کی جانب سے تخریب کاری کا بھی خدشہ ہے۔
تجارتی سرگرمیوں میں مکمل تعطل کے باوجود مقامی پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے تاجروں، کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس اور سیکڑوں یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کو سرحد پار جانے کی اجازت دے کر نرمی کا مظاہرہ کیا۔
مزدوروں کے ایک گروپ نے سرحد کے قریب احتجاج بھی کیا اور سرحد کھولنے کا مطالبہ دہرایا تاکہ وہ کام کر سکیں۔
انہوں نے اسلام آباد اور کابل سے مطالبہ کیا کہ وہ شہریوں کی سرحد پار جانے کے مسئلے کے مستقل حل کے لیے معنی خیز مذاکرات شروع کریں، چھوٹے سرحدی مسائل کو سیاسی بنانے سے گریز کریں اور تجارت کو بغیر کسی رکاوٹ کے ہونے دیں۔
کسٹم کے دفاتر بھی دوبارہ کھل چکے ہیں اور حکام کا کہنا ہے کہ جیسے ہی اعلیٰ حکام کی طرف سے اجازت ملتی ہے وہ اشیا کی کلیئرنس کے لیے تیار ہیں۔
نوجوانوں کی مقامی تنظیم نے 800 کے قریب پھنسے ہوئے افغان شہریوں کے لیے خوراک اور دیگر ضروری مصنوعات فراہم کیں جن میں گرم کپڑے بھی شامل ہیں، ان افراد میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔
پھنسے ہوئے زیادہ تر افغان شہری طورخم پر گوداموں میں ٹھہرے ہوئے ہیں جبکہ ٹرکس روڈ کے کنارے اور قریب ہی ویران ریلوے ٹنل میں کھڑے ہیں۔
خیال رہے کہ 19 فروری کو افغان طالبان کے حکام نے اسلام آباد پر اپنے وعدوں سے مکرنے کا الزام لگاتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ایک اہم تجارتی اور سرحدی گزرگاہ کو بند کر دیا تھا۔
طورخم میں طالبان کمشنر مولوی محمد صدیق نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان نے اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کی، اس لیے قیادت کی ہدایت پر گیٹ وے کو بند کر دیا گیا ہے۔
افغان طالبان کے عہدیدار نے یہ نہیں بتایا تھا کہ اسلام آباد نے مبینہ طور پر اپنے کس عہد کی خلاف ورزی کی ہے، کچھ غیر مصدقہ میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ افغان طالبان پاکستان میں علاج معالجے کے خواہشمند افغان مریضوں کی آمد و رفت پر غیر اعلانیہ پابندی سے ناراض ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی قیادت میں ایک وفد نے کابل کا دورہ کیا تھا، جس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش خراسان کے بڑھتے ہوئے خطرے پر تبادلہ خیال کیا گیا اور ’دونوں فریقین نے دہشت گردی کے خطرے سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے تعاون پر اتفاق کیا۔‘
یہ دورہ کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے کراچی میں پولیس ہیڈکوارٹرز پر دھاوا بولنے کے چند روز بعد ہوا جس میں تین سیکیورٹی اہلکاروں سمیت چار افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔