چوہدری پرویز الہٰی 10 سابق اراکین صوبائی اسمبلی سمیت پی ٹی آئی میں شامل
پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ اور مسلم لیگ (ق) پنجاب کے صدر چوہدری پرویز الہٰی اپنے 10 سابق اراکین صوبائی اسمبلی کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں شامل ہوگئے۔
لاہور میں پی ٹی آئی کے نائب صدر فواد چوہدری اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کے دوران چوہدری پرویز الہٰی کی پی ٹی آئی شمولیت کا اعلان کیا گیا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ آج ہماری سینئر قیادت کا اجلاس ہوا اور اس کے بعد چوہدری پرویز الہٰی کی عمران خان کے ساتھ ملاقات ہوئی، حالیہ بحران میں انہوں نے جو کردار ادا کیا، اس کو ہم سراہتےہیں اور ہم ان کے مداح ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چوہدری پرویز الہٰی کے ساتھ مسلم لیگ (ق) کے تمام اراکین صوبائی اسمبلی، ان کے اکابرین کے ساتھ ساتھ مونس الہٰی اور حسین الہٰی کی بھی پوری حمایت اپنی پارٹی کے ساتھ تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پیش نظر دو باتیں تھیں کہ مسلم لیگ (ق) کے ساتھ اتحاد ہو اور ہم اگلا انتخاب اکٹھا لڑیں یا مسلم لیگ (ق) کو پی ٹی آئی میں ضم کرلیا جائے تو اس پر طویل بحث اور گفتگو ہوئی۔
فواد چوہدری نے کہا کہ آج پرویز الہٰی مسلم لیگ (ق) چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں اور آج کے بعد چوہدری پرویز الہٰی، مونس الہٰی اور ان کے دیگر اراکین پی ٹی آئی کا حصہ ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو نئے ساتھی پارٹی میں شامل ہوئے ہیں ان کو عمران خان کی قیادت میں ایک نئے پاکستان کی جدوجہد میں خوش آمدید کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چوہدری پرویز الہٰی اور ان کے دوستوں کی پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کے لیے قربانیاں بے پناہ ہیں، پرویز الہٰی کے پرنسپل سیکریٹری محمد خان بھٹی اور ضیغم گوندل کا تاحال کچھ پتا نہیں ہے۔
پرویز الہٰی کو پی ٹی آئی میں شمولیت پر مبارک باد دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جس طرح انہوں نے مشکل وقت میں ساتھ دیا ہے، اسی طرح ہم بھی ان کا ساتھ دیں گے اور پہلا قدم لے لیا گیا ہے، پرویز الہٰی کو اراکین صوبائی اسمبلی آج سے پی ٹی آئی کا حصہ ہیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ہم نے چوہدری پرویز الہٰی کو تحریک انصاف کا صدر بنانا ہے، جس کی سینئر قیادت نے منظوری دی ہے، پارٹی آئین کے مطابق آگے چلیں گے اور اس پر عمل درآمد ہوگا۔
ہمارے لیڈر عمران خان اور پارٹی کی جو خواہش ہوگی وہی کریں گے، پرویز الہٰی
اس موقع پر پرویز الہٰی نے کہا کہ میں عمران خان اور ان کی ساری قیادت کا دل سے احترام کرتا ہوں اور ہر مشکل وقت میں ہم نے ثابت کردیا ہے کہ عمران خان اور پارٹی کا ساتھ دیا ہے باوجود اس کے کہ ہمارے اراکین اسمبلی اور خواتین پر مختلف تھانوں پر پرچے ہوئے لیکن ہم ڈٹ کر کھڑےہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کارکردگی کے حوالے سے ڈیلیور کر کے دکھایا ہے، 2002 سے 2009 اور اب 6 ماہ ملے تھے تو ہم بہترین کام کیا اور عمران خان کے کہنے پر اسمبلی توڑ دی۔
پی ٹی آئی کی اسٹیبلشمنٹ سے متعلق پالیسی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر چوہدری پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ ہم ایسا موقع آنے نہیں دیں گے کہ اس طرح کی بات ہوگی۔
پرویز الہٰی نے کہا کہ عمران خان نے خود کہا صدر بنائیں گے اور جو پارٹی اور ہمارے لیڈر عمران خان کی خواہش ہوگی ہم وہی کریں گے۔
اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان پل کے کردار پر سوال کیا گیا تو پرویز الہٰی نے کہا کہ میں صلح جو آدمی ہوں اور کوشش ہوتی ہے سب کو اکٹھا کریں اور مسائل کا حل نکالیں۔
یاد رہے کہ مسلم لیگ (ق) کے سابق صدر پنجاب پرویز الہٰی اور مرکزی صدر چوہدری شجاعت حسین کے درمیان گزشتہ برس پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اختلافات کھل کر سامنے آگئے تھے۔
مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور مرکزی سیکریٹری جنرل طارق بشیر چیمہ سمیت متعدد اراکین قومی اسمبلی نے شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت کا ساتھ دیا تھا جبکہ پرویز الہٰی اور اراکین صوبائی اسمبلی نے پی ٹی آئی کی حمایت کی تھی۔
بعد ازاں پی ٹی آئی نے چوہدری پرویز الہٰی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا اور پرویز الہٰی کی قیادت میں چند پارٹی اراکین نے چوہدری شجاعت کو مسلم لیگ (ق) کی صدارت سے ہٹانے کا اعلان کیا تاہم الیکشن کمیشن نے چوہدری شجاعت حسین کو برقرار رکھا۔
اس دوران میڈیا میں رپورٹ کیا گیا کہ چوہدری پرویز الہٰی مسلم لیگ (ق) کو پی ٹی آئی میں ضم کرنے جا رہے ہیں اور دوسری طرف کہا گیا کہ مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی عام انتخابات میں اتحاد کریں گی۔
پاکستان مسلم لیگ (ق) نے چوہدری پرویز الہٰی کو پارٹی ضم کرنے کے بیان پر شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کی بنیادی رکنیت معطل کردی تھی۔
مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کی طرف سے چوہدری پرویز الہیٰ کو جاری کردہ شوکاز نوٹس میں لکھا گیا تھا کہ اس حوالے سے چلنے والی خبروں کے حوالے سے مرکزی صدر چوہدری شجاعت نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا اور اس اقدام کا سختی سے نوٹس لیا کہ صوبائی صدر پارٹی کو کسی دوسری جماعت میں ضم نہیں کر سکتا۔
شوکاز نوٹس میں چوہدری پرویز الہٰی سے غیر آئینی اور غیرقانونی اقدام کی وضاحت طلب کی گئی تھی۔
پارٹی کی طرف سے شوکاز میں لکھا گیا تھا کہ ’پاکستان مسلم لیگ بحیثیت سیاسی جماعت اپنا تشخص، ووٹ بینک، پارٹی ڈسپلن اور منشور و ضابطہ رکھتی ہے جس کی خلاف ورزی آپ کے رات گئے میڈیا کو دیے گئے بیانات سے معلوم ہوتی ہے اور اس بنا پر آپ کو 7 دن کا شوکاز نوٹس دیا جاتا ہے۔‘
نوٹس میں لکھا گیا تھا کہ آپ (پرویز الہٰی) سات دن کے اندر اپنے اس غیرآئینی اقدام کی وضاحت دیں ورنہ آپ کے خلاف پارٹی آئین کے آرٹیکل 16 اور آرٹیکل 50 کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ تاہم آپ کی وضاحت تک پارٹی سے آپ کی بنیادی رکنیت معطل کی جاتی ہے۔
مسلم لیگ (ق) نے پرویز الہٰی کی رکنیت ختم کردی
چوہدری پرویز الہٰی کی جانب سے پی ٹی آئی میں شمولیت کے اعلان سے قبل مسلم لیگ (ق) کے مرکزی صدر چوہدری شجاعت کی جانب سے چوہدری پرویز الہٰی کے نام جاری خط میں ان کی پارٹی رکنیت کے خاتمے کی اطلاع دی گئی تھی۔
چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے جاری خط میں کہا گیا کہ 16 جنوری 2023 کو پارٹی کی بنیادی رکنیت معطلی سے متعلق شوکاز نوٹس بھیج کر پاکستان مسلم لیگ کو دوسری جماعت میں ضم کرنے کی بابت جواب طلب کیا گیا تھا۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ کوئی بھی صوبائی صدر ایسا فیصلہ آئینی طور پر نہیں کرسکتا ہے، ایسے بیانات سے جماعت کا تشخس اور ساکھ متاثر ہوئی اور آپ سے 7 روز میں وضاحت مانگی گئی لیکن کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی۔
مسلم لیگ (ق) کے صدر نے چوہدری پرویز الہٰی کو مخاطب کرکے کہا کہ 26 جنوری 2023 کو آپ کی سرکردگی میں لاہور میں ایک جعلی اور غیر آئینی اجلاس بلا کر پارٹی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی گئی اور مرکزی قیادت کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے قیادت کو برخاست کرنے کی مذموم کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ آپ کے اس اقدام نے جماعت کو بے پناہ نقصان پہنچیا، پہلے شوکاز نوٹس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک بار پھر پارٹی ضابطہ اخلاق کی کھلی خلاف ورزی کی اور اپنی انفرادی ذات کو پارٹی کے منشور اور قواعد و ضوابط سے ماورا سمجھ کر ایک اور سنگین غلطی کی ارتکاب کیا۔
چوہدری شجاعت حسین نے پرویز الہٰی کو خط میں لکھا کہ پاکستان مسلم لیگ کے پارٹی آئین 2006 کے تحت جماعت کی بنیادی رکنیت برخاست کی جاتی ہے اور مزید جتنے عہدے آپ نے پارٹی رکنیت کی حیثیت سے حاصل کے اس کو کالعدم قرار دیے جاتے ہیں۔
چوہدری پرویز الہٰی کو مسلم لیگ (ق) کی جانب سے بتایا گیا کہ آئندہ کسی بھی لحاظ سے اپنے آپ کو پارٹی سے منسلک نہ کریں۔