الیکشن کمیشن کی امیدواروں کو 2 سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑنے سے روکنے کی تجویز
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے امیدواروں کو 2 سے زائد حلقوں پر الیکشن لڑنے سے روکنے کی تجویز دے دی۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کا اجلاس ہوا جس میں الیکشن کمیشن کے حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دی۔
دوران اجلاس الیکشن کمیشن نے ایک امیدوار کے 2 سے زائد حلقوں سے الیکشن نہ لڑنے کی تجویز دے دی۔
الیکشن کمیشن حکام نے کہا کہ امیدوار 15 حلقوں سے الیکشن لڑتے ہیں اور پھر ایک نشست رکھنے کے بعد دوبارہ باقی حلقوں پر الیکشن ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پارلیمنٹ کو تجویز دی ہے کہ ایک امیدوار ایک سے 2 نشستوں پر الیکشن لڑے اور زیادہ سے زیادہ ایک سے 3 حلقوں سے الیکشن لڑنے کی اجازت ہو۔
کمیشن کے حکام نے کہا کہ ہم نے وزارت پارلیمانی امور کو یہ تجویز بھیج دی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں اپوزیشن رکن نے قومی اسمبلی میں پرائیویٹ ممبر بل پیش کیا تھا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ بیک وقت دو سے زائد نشستوں پر الیکشن لڑنے پر پابندی عائد کی جائے۔
آئین کے آرٹیکل 223 میں ترمیم کا بل جماعت اسلامی (جے آئی) کے رکن مولانا عبدالاکبر چترالی نے پیش کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 223 کسی بھی شخص کو ایک سے زائد نشستوں پر الیکشن لڑنے کی اجازت دیتا ہے۔
ترمیمی بل کے مطابق ’شق نمبر ایک کے تحت کوئی بھی شخص بیک وقت ایک یا دو اسمبلیوں میں زیادہ سے زیادہ 2 نشستوں کے لیے امیدوار بن سکتا ہے‘۔
مجوزہ ترمیمی بل میں تجویز پیش کی گئی تھی کہ اگر امیدوار دونوں نشستوں میں جیت جائے تو اس صورتحال میں امیدوار کو 30 دنوں کے اندر ایک نشست خالی کرنی ہوگی۔
جماعت اسلامی کے رکن نے کہا تھا کہ رپورٹ کے مطابق ایک حلقے میں الیکشن کروانے کے لیے الیکشن کمیشن 2 کروڑ 7 لاکھ روپے خرچ کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ کچھ برس سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے اگلے قومی اور صوبائی انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو 46 ارب روپے درکار ہوں گے، اگر یہ رقم قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں تقسیم کرلی جائے تو ایک حلقے کے اخراجات 10 کروڑ 6 لاکھ روپے ہوں گے۔
مولانا چترالی نے کہا تھا کہ یہ ناقابل تصور ہے کہ اگر کوئی امیدوار 8 نشستوں میں الیکشن لڑ رہا ہے اور آخر میں اس کو صرف ایک نشست حاصل ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی مرکزی لیڈرشپ کی جانب سے ایک سے زائد اور حتیٰ کے پانچ سے دس نشستوں سے بھی الیکشن لڑنے کی روایت رہی ہے۔
2018 کے الیکشن میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے پانچ نشستوں سے انتخابات لڑا تھا اور پانچوں نشستوں سے کامیابی کے بعد ایک نشست اپنے پاس رکھ کر بقیہ سے استعفیٰ دے دیا تھا اور بعد میں ان نشستوں پر ضمنی انتخابات کا انعقاد کیا تھا۔
اسی طرح پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو، مسلم لیگ (ن) کے رہنما شہباز شریف سمیت دیگر رہنماؤں نے بھی ایک سے زائد نشستوں سے الیکشن لڑا تھا۔
تاہم اس حوالے سے سب سے زیادہ بحث اس وقت کی گئی جب گزشتہ سال تحریک عدم اعتماد کے بعد ضمنی انتخابات میں عمران خان نے 9 نشستوں سے الیکشن لڑا تھا۔