پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جنوری میں 90 فیصد کم ہو کر 24 کروڑ ڈالر
توازنِ ادائیگی کے بحران کی وجہ سے درآمدات پر جاری پابندیوں کے سبب پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جنوری میں 90.2 فیصد کمی کے بعد 24 کروڑ ڈالر کی سطح پر آگیا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس جنوری میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2 ارب 47 کروڑ روپے تھا جو کم ہو کر 24 کروڑ ڈالر پر آ گیا ہے جبکہ گزشتہ مہینے دسمبر کے 29 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں خسارے میں 16.55 فیصد کمی ہوئی۔
پاکستان کا توازن ادائیگی کا دائمی مسئلہ ہے جس میں گزشتہ برس اضافہ ہو گیا اور زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر خطرناک سطح پر آگئے ہیں، 10 فروری تک مرکزی بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 3 ارب 20 کروڑ ڈالر تھے جس سے بمشکل تین ہفتوں کی درآمدات کی جاسکتی ہیں۔
ڈالر کے انخلا کو روکنے کے لیے حکومت نے اس وقت تک درآمدات پر پابندی عائد کر دی ہیں اور صرف ضروری اشیائے خور و نوش اور ادویات کی درآمدات کی اجازت دی جارہی ہے جب تک عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی جانب سے بیل آؤٹ پیکیج کی بحالی نہیں ہو جاتی۔
اسمٰعیل اقبال سیکیورٹیز کے ہیڈ آف ریسرچ فہد رؤف نے بتایا کہ گھٹتا ہوا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کامیابی نہیں ہے بلکہ یہ کم زرمبادلہ کے ذخائر کا نتیجہ ہے۔
حکومت کی جانب سے زرمبادلہ بچانے کے لیے درآمدات پر پابندی کی حکمت عملی دو دھاری تلوار ثابت ہوئی ہے کیونکہ متعدد صنعتوں کا آپریشنز جاری رکھنے کے لیے درآمدی خام مال پر انحصار ہے۔
نتیجتاً مختلف شعبوں میں متعدد کمپنیوں نے اپنے آپریشنز معطل کر دیے یا پیداوار میں کمی کردی جس کی وجہ سے بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔
تازہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال کے ابتدائی 7 مہینے کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 3 ارب 80 کروڑ ڈالر ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 67.13 فیصد کمی ہے۔
جنوری میں 3 ارب 92 کروڑ ڈالر کی مصنوعات درآمد کی گئی جب گزشتہ مہینے کے مقابلے میں 7.3 فیصد کمی کو ظاہر کرتی ہے جبکہ دوسری جانب برآمدات بھی 4.29 فیصد گر کر 2 ارب 21 کروڑ ڈالر پر رہ گئیں جو گزشتہ مہینے 2 ارب 31 کروڑ ڈالر تھیں۔
ترسیلات زر بھی 9.89 فیصد کمی کے بعد ایک ارب 89 کروڑ ڈٓالر ریکارڈ کی گئیں جو دسمبر میں 2 ارب 10 کروڑ ڈالر تھیں۔