پاکستان

ایک اور لیک آڈیو کلپ کے بعد غلام محمود ڈوگر سے متعلق تنازع مزید شدت اختیار کرگیا

آڈیو میں پی ٹی آئی رہنما یاسمین راشد پولیس افسر سے پوچھ رہی ہیں کیا انہیں سپریم کورٹ سے بحالی کے احکامات موصول ہوگئے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد اور سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے درمیان ہونے والی گفتگو کی آڈیو لیک منظر عام پر آنے کے بعد پولیس افسر کے حوالے سے تنازع مزید شدت اختیار کر گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق منظر عام پر آنے والی لیک آڈیو میں پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد پولیس افسر سے پوچھ رہی ہیں کہ کیا انہیں سپریم کورٹ کی جانب سے بطور سی سی پی او لاہور بحالی کے احکامات موصول ہو گئے ہیں، جس پر آڈیو کلپ کے مطابق پولیس افسر نے جواب دیا کہ انہیں ابھی تک بحالی کے احکامات موصول نہیں ہوئے۔

پنجاب کی سابق وزیر صحت نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ انہوں نے فون کال اس لیے کی تھی تاکہ وہ جان سکیں کہ ’ان کے ارادے کیا ہیں‘، پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ (عمران خان) لاہور پولیس چیف کی بحالی سے متعلق معاملات کے حوالے سے ’تشویش‘ کا شکار ہیں۔

غلام محمود ڈوگر نے جواب دیا کہ عدالتی اوقات کے بعد فائلوں پر دستخط ہو جائیں گے اور ان کے لوگ آرڈر موصول کرنے کے لیے وہاں بیٹھے ہیں، ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ انہوں نے عمران خان کو بتایا کہ غلام محمود ڈوگر کو ابھی تک بحالی کے آرڈر موصول نہیں ہوئے۔

منظر عام پر آنے والی گفتگو میں ڈاکٹر یاسمین راشد نے پولیس افسر سے پوچھا کہ کیا ان کی رات سکون سے گزر جائے گی؟ اس دوران غلام محمود ڈوگر ہچکچائے جس پر پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ انہوں نے شروع میں ہی ایک مشکل سوال کھڑا کر دیا، پولیس افسر نے جواب دیا کہ امید ہے سب ٹھیک ہو جائے گا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ آڈیو کلپ سپریم کورٹ کے اس حکم کے بعد سامنے آئی ہے جس میں نگراں حکومت پنجاب کی جانب سے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے تبادلے سے متعلق جاری کردہ نوٹی فکیشن کو معطل کردیا گیا تھا۔

غلام محمود ڈوگر کے بارے میں آڈیو لیکس کے سلسلے میں یہ ایک اور اضافہ ہے جب کہ چند روز قبل ہی سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہیٰ کی غلام محمود ڈوگر کیس سے متعلق اپنے وکیل سے گفتگو بھی سوشل میڈیا پر لیک ہو گئی تھی۔

ان لیک آڈیو کلپس پر ردعمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے فون ٹیپنگ کی مذمت اور اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم آفس کی محفوظ لائن پر ان کی گفتگو بھی ریکارڈ کرکے سوشل میڈیا پر جاری کی گئی۔

عدالت جانے کا عزم

دوسری جانب ڈاکٹر یاسمین راشد نے زمان پارک کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ انہوں نے غلام محمود ڈوگر سے اس وقت بات کی تھی جب وہ سی سی پی او لاہور تھے اور انہیں پی ٹی آئی کی حکومت نے وزیر آباد میں سابق وزیر اعظم عمران خان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کا کنوینر مقرر کیا تھا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت اور اس کی جانب سے بنائی گئی نگراں حکومت نے غلام محمود ڈوگر کو ہٹا کر مبینہ طور پر تحقیقات کو سبوتاژ کیا اور جے آئی ٹی کے دفتر سے تمام متعلقہ ریکارڈ بھی تلف کردیا دیا۔

انہوں نے اپنے آڈیو کلپ کے منظرعام پر آنے پر حکومت پر تنقید کی اور سوال اٹھایا کہ کیا وہ ملک کے خلاف سازش کر رہی ہیں۔

یاسمین راشد نے مزید کہا کہ ’کرپٹ اور نااہل حکمران‘ ملک بھر میں دہشت گردوں پر قابو پانے میں ناکام ہیںِ، آڈیو لیک کرنے کی شدید مذمت کرتی ہوں، اس طرح کے ہتھکنڈوں سے دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہوتی ہے، انہوں نے کہا کہ وہ اس آڈیو لیک کے معاملے کو عدالت میں لے جائیں گی۔

غلام محمود ڈوگر کے ساتھ اپنی بات چیت سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں ہر اس افسر سے بات کروں گی جس سے بات کرنا مجھے پسند ہوگا، اس ملک کی شہری ہونے کے ناطے یہ میرا بنیادی حق ہے۔

عائشہ عمر نے شعیب ملک کے ساتھ بولڈ فوٹو شوٹ سے متعلق سوال پر کیا جواب دیا؟

پی ایس ایل 8: کراچی کنگز کے کپتان عماد وسیم کا محمد عامر کے ’جارحانہ رویے‘ کا دفاع

صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کے معاملے میں صدر کا کوئی کردار نہیں، الیکشن کمیشن