غلام شاہ کلہوڑو: حیدرآباد کو بسانے والا حاکم (حصہ اول)
انسان کی تمناؤں کا ایک الگ جہان ہے۔ اس کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ اچھے دن کبھی نہ جائیں اور دکھ کے دن کبھی نہ رہیں۔ وہ کبھی نہیں چاہتا کہ بچپن کے دن گزر جائیں۔ جب جوانی آتی ہے تو اُس کی یہ تمنا جڑ پکڑ لیتی ہے کیونکہ جوانی کے دروازے پر ہی بڑھاپا کھڑا کھانس اور ہانپ رہا ہوتا ہے۔
کون چاہے گا کہ محبوب کے آنچل سے نکل کر نحیف جسم کو چارپائی کے حوالے کردے؟ کوئی بھی نہیں چاہے گا۔ مگر چاہنے سے کیا ہوتا ہے؟ اس حیات کا شاید یہی کمال ہے کہ ایک پل دوسرے پل جیسا کبھی نہیں رہتا۔
حیات کے منظرنامے کیوں بدلتے ہیں؟ انسان کا شاید یہی سب سے بڑا دکھ ہے کہ حیات ایک جیسی کیوں نہیں رہتی؟ امی ابو کے گھر کے آنگن میں ہمیشہ کیوں نہیں کھیل سکتے؟ جن کو چاہتے ہیں اُن کو قبر کی تاریکی اپنے پاس کیوں بلا لیتی ہے؟ تخت و تاج کے سحر میں مبتلا یہ سوچتے ہیں کہ یہ ان کے پاس ہمیشہ کے لیے کیوں نہیں رہ سکتا؟ یہ سوچ سوچ کر وہ عجیب بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
آپ کو بتانے کے لیے میرے پاس ایک بادشاہ کی کتھا ہے۔ وہ بادشاہوں جیسا بادشاہ تھا، مگر تھوڑا بہت عام بادشاہوں سے مختلف تھا۔ میرے سامنے ایسٹ انڈیا کمپنی کا 1758ء کا وہ ریکارڈ موجود ہے جب کمپنی نے ٹھٹہ اور شاہ بندر میں تجارتی کوٹھیاں قائم کی تھیں۔ ایک خط جو ٹھٹہ کی تجارتی کوٹھی میں پڑی ہوئی لکڑی کی میز پر سے کمپنی کو لکھا گیا تھا اس میں یہاں کے سیاسی حالات رقم کیے گئے تھے۔
10 دسمبر 1759ء کی اس تحریر کا کچھ حصہ میں آپ کو سناتا ہوں۔ اس کے بعد ہم آج سے 340 برس پہلے ان دنوں میں چلیں گے جب سندھ پر مغل سرکار کے اختیار کا سورج ڈوب رہا تھا اور یہاں کے کلہوڑے سیاسی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے مذہبی چوغہ پہن کر نکل پڑے تھے۔ کمپنی کے خط کی تحریر کچھ اس طرح ہے
’شہزادے غلام شاہ نے اپنے بھائیوں کے خلاف جنگی کارروائی کی ہے۔ اس کے بھائیوں کی ملی جُلی فوج 10 ہزار جنگی جوانوں پر مشتمل تھی اور اس فوج میں بہت ساری اقوام کے لوگ بھی شامل تھے مگر پھر بھی وہ جیت نہ سکے اور ان کے اہم لوگ اور جنگی جوان مارے گئے جن کی تعداد 3 ہزار کے قریب تھی مگر غلام شاہ جیت گیا۔
’یہ جیت اس کی بہادری کی وجہ سے ممکن ہوسکی، وہ جنگ کے میدان میں اپنے لوگوں کو ایک ترتیب سے رکھتا ہے۔ اس کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے دشمن کو جب تک نیست و نابود نہ کردے تب تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ اس جنگ میں اس کو بھی کچھ زخم آئے مگر اس کے بھائی شمال کی طرف بھاگ گئے‘۔
یہ خط اس جنگ کے متعلق تھا جو مئی 1759ء میں لڑی گئی تھی۔ اس کے نتیجے میں غلام شاہ چوتھی بار سندھ کا حاکم بنا تھا اور 14 برس تک کامیاب حکومت کی تھی۔ اگر دیکھا جائے تو کلہوڑا حکمرانوں کا یہ چھٹا حاکم تھا جس نے 1772ء میں وفات پائی۔
میاں غلام شاہ کلہوڑو کے بعد 4 حاکم اور بھی آئے۔ حکومت کا تاج 10، 11 برس انہیں کے سر پر رہا، اس طرح اندازاً 100 برس کے قریب کا کلہوڑا دورِ حکومت اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس مختصر عرصے کی حکومت کے حوالے سے یہ کہنا مناسب ہوگا کہ سومرہ (1010ء سے 1351ء) اور سمہ خاندان (1351ء سے 1521ء) کی حکومتوں کے ایک زمانے بعد، یہ مقامی لوگوں کی حکومت تھی۔ کلہوڑے اگر اپنے اندرونی خلفشاروں کو سنبھال پاتے تو کلہوڑا دورِ حکومت یقیناً طویل ہوسکتا تھا۔
اگر تاریخ کے اوراق کو دیکھا جائے تو کلہوڑوں کی حکومت کی ابتدا ہمیں آدم شاہ سے ملتی ہے جو سید میراں محمد جون پوری (وفات 1550ء) کی مذہبی تحریک کے زیرِاثر رہے۔ رچرڈ برٹن لکھتے ہیں کہ ’روحانی شہرت ہی کلہوڑوں کے عروج کا سبب بنی، سمہ سرداروں کی حکومت میں آدم شاہ، محمد مہدی کا خلیفہ اور جانشین مقرر ہوا۔ اس نے اپنے خاندان کی ایسی بنیاد رکھی کہ جلد ہی اس نے سیاسی طاقت اور اقتدار حاصل کرلیا جبکہ بکھر سرکار کے ناظم نے 1600ء میں میاں آدم شاہ کو موت کی سزا دے دی۔ اس کے بعد اس سلسلے کو میاں داؤد، میاں الیاس اور میاں علی شاہ نے جاری رکھا‘۔
میر علی شیر قانع تحریر کرتے ہیں کہ ’نوبت یہاں تک آپہنچی کہ کلہوڑوں نے ابڑوؤں اور دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کیا۔ مقامی زمینداروں نے ان قبضوں پر بکھر کے نواب سے شکایات کیں اور اس حوالے سے کچھ جنگیں بھی ہوئیں۔ آخرکار 1657ء میں بکھر کے نواب کے ہاتھوں میاں علی شاہ قتل ہوئے‘۔
1657ء کے بعد ہمیں میاں علی شاہ کے بھائی کے بیٹے میاں نصیر محمد کلہوڑو کا نام نظر آتا ہے جو ایک طاقتور اور ذہین حاکم لگتا ہے اور ساتھ میں اپنی طاقت کو بڑھانے میں بھی مصروف نظر آتا ہے۔ اس وجہ سے وہ مغل شاہی قید میں بھی رہا اور آزاد بھی ہوا اور پھر 1692ء میں وفات پائی۔ اس کے بعد اس کی مسند پر اُس کا بیٹا میاں دین محمد بیٹھا۔
یہ شب و روز کلہوڑا خاندان کے ابتدائی اور جڑیں پکڑنے والے دن تھے۔ یہی برس تھے جن میں انہوں نے اپنی طاقت کو مزید وسعت دی۔ قانع لکھتے ہیں کہ ’میاں دین محمد جیسے ہی مسند پر بیٹھا اس کی عزت بڑھنے لگی مگر وہی ہوا جو ہوتا ہے کہ حاکم اور زمین دار اس کی مخالفت میں کھڑے ہوگئے‘۔
خافی خان ’منتخب اللباب‘ میں اس صورتحال کو بغاوت کا نام دیتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ’ملتان کے دربار میں اطلاع پہنچی کہ ملتان کا ناظم شہزادہ معزالدین جس کو ٹھٹہ کے ناظم حفیظ اللہ خان کی مدد حاصل تھی وہ دونوں بلوچوں کی اس بغاوت کو کُچلنے میں مصروف تھے، کتنے ہی معرکے ہوئے آخرکار شہزادہ سرخ رو ہوا‘۔
قانع ہمیں بتاتے ہیں کہ ’میاں دین محمد جو صلح کے لیے راضی تھا اس کو شہزادہ لےکر ملتان روانہ ہوا کہ حالات انتہائی سنگین تھے۔ البتہ دوسرے لشکر کو باغیوں کے خاتمے کے لیے سندھ میں چھوڑ دیا گیا مگر میاں دین محمد کے جانے کے بعد میاں یار محمد بڑی بہادری سے لڑا اور ان کے بہت سارے آدمی جنگ کے میدان میں کام آئے اور فی الوقت مغلوں کے لشکر کو شکست ہوئی۔ معزالدین نے میاں دین محمد کو (1111ھ یا 1700ء میں) پھانسی دےکر مروادیا‘۔
تقریباً 2 برس بعد حالات بدلے اور میاں یار محمد مسند پر بیٹھا۔ مغل سلطنت کے زوال کی شام کے سائے روزبروز دراز ہوتے گئے اور انہیں حالات کا سورج کلہوڑوں کے لیے دوپہر کا کام کررہا تھا کیوں کہ دھوپ میں سب کچھ صاف نظر آتا ہے۔
میاں یار محمد نے پنوھروں کے شہر شکار پور پر قبضہ کرکے اسے خدا آباد کا نام دےکر اپنا تخت گاہ مقرر کیا۔ ’مآثر الامراء‘ میں شاہ نواز خان لکھتے ہیں کہ ’میاں یار محمد دھیرے دھیرے اپنی طاقت کو وسعت دینے میں مصروف رہا۔ یہاں تک کہ درہ بولان تک جو قندھار تک پھیلا ہوا ہے، وہاں تک کے پرانے زمین داروں کی زمینوں اور تحصیلوں پر قبضہ کرتا گیا اور روز بروز اُس کی قسمت کا ستارہ بلند ہوتا گیا‘۔
اس کی بڑھتی طاقت کو محسوس کر کے معز الدین نے اس کو حاکم مانا اور ڈاڈھر اور گنجابہ کے درّوں کی حفاظت بھی میاں یار محمد کے حوالے کردی اور ساتھ میں مغلوں کی غلامی کا طوق ’خدا یار خان‘ کے لقب کی صورت میں میاں کو ملا اور ایک عہدنامہ بھی ہوا جس کے مطابق:
- سرحدی دَرّوں کی حفاظت کی جائے گی۔
- ملتان اور ٹھٹہ کے نوابوں کی ضرورت پڑنے پر مدد کی جائے گی۔
- رعیت کی خوشحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
- ایران کی سرحدوں پر نظر رکھی جائے گی اور ملنے والی معلومات مرکز تک پہنچائی جائے گی۔
اورنگزیب نے 3 مارچ 1707ء کو یہ جہان چھوڑا۔ مرکز میں شاہ عالم ’بہادر شاہ اول‘ کے لقب سے ڈولتی مغل سرکار کا حاکم بنا۔ تقریباً 5 برس کے بعد شہزادہ معزالدین جو شاہ عالم کا بڑا بیٹا تھا وہ تخت پر بیٹھا۔ مولوی محمد ذکا اللہ لکھتے ہیں کہ ’معزالدین 20 محرم 1123ھ کو اپنے بھائیوں سے فارغ ہوکر (مطلب انہیں قبر کے اندھیروں میں دفن کرکے) 52 برس کی عمر میں سلطنت کے تخت پر بیٹھا اور ’جہاں دار شاہ‘ اس نے اپنا خطاب رکھا۔ یہ شاہ عالم بہادر شاہ کے سب سے بڑے بیٹے تھے‘۔
چونکہ ملتان میں رہنے کی وجہ سے میاں یار محمد سے اس کے تعلقات اچھے تھے اس لیے کسی بڑی پریشانی کے بغیر میاں صاحب نے 18 برس تک بڑے مزے سے حکومت کی اور 14 ستمبر 1719ء میں اس بے وفا اور بے بقا جہان سے کوچ کرگئے۔ قانع لکھتے ہیں کہ ’اس کے بعد اس کے بیٹے میاں نور محمد نے ’خدا یار خان‘ کے لقب سے باپ کے ملک پر قبضہ کیا‘۔
یہ 13 نومبر 1719ء پیر کا دن تھا، میاں کے بھائی میاں محمد داؤد کو یہ اچھا نہیں لگا مگر پھر 2، 3 برس کی مخالفت کے بعد دونوں بھائیوں میں صلح ہوگئی۔ میاں نور محمد نے خداآباد کو ہی دارالحکومت کے درجے پر رکھا۔ اسی زمانے میں 1723ء اور 1725ء میں کلہوڑوں اور ’داؤد پوتوں‘ کی آپس میں جنگیں ہوئیں۔ مگر میاں نور محمد کی طاقت اور حکومت کی وجہ سے داؤد پوتوں کو ناکامی ہوئی’۔
جب مغل سلطنت کے تعمیر کیے ہوئے تخت کی دیواروں میں دراڑیں کچھ زیادہ ہی عیاں ہوئیں اور گرفت بالکل ڈھیلی پڑگئی تو مغلوں کے آخری نواب صادق علی خان نے مجبوراً بھیگی آنکھوں سے 1737ء میں ٹھٹہ سے دہلی کے لیے رَخت سفر باندھا۔ یہ وہ زمانے تھا جب سبی، بکھر اور سیہون تک کلہوڑوں کی حکومت تھی اور نواب کے جانے کے بعد بندرگاہوں اور بیوپار کا مشہور شہر ننگر ٹھٹہ بھی کلہوڑا حاکموں کا ہوگیا۔
یہ بہت شان دار دن تھے کہ سمندر کنارے سے سبی تک ان کی حکومت تھی۔ ملنا آسان اور سنبھالنا مشکل ہوتا ہے اس لیے سکون کے اس نیلگوں آسمان پر آزادی کی فاختائیں ابھی جی بھر کر اُڑ بھی نہیں پائی تھیں کہ 1739ء آگیا۔
جاڑے کے دن اپنے اختتام کو پہنچے تھے کہ ہند پر ایک آفت نے جھپٹا مارا۔ یہ عیدالاضحیٰ اور ایرانی کلینڈر کے مطابق نوروز (نئے سال کا پہلا دن) تھا۔ 21 مارچ 1739ء اور 10 ذوالحج 1152ھ، دہلی میں نمازِ عید کے خطبے میں بادشاہ وقت کا نام ’نادرشاہ‘ پڑھا گیا۔ وقت کی بے رحمی اور شامت اعمال دیکھیے کہ ہندوستان کی سلطنت کا اصل مالک و بادشاہ اس خطبے کو اپنے کانوں سے سن رہا تھا اور اپنی ہی مملکت میں ایک غلام کی حیثیت سے عید کے جلوس میں شامل تھا۔
اگر شمال مغرب سے آیا ہوا طاقت کا یہ غبار ان چوکھٹوں تک رُک جاتا تو پھر بھی ایک کڑوے گھونٹ کی طرح حاکم اسے پی لیتا مگر یہ تو ابھی ابتدا تھی۔ شکست و ریخت کی ذلتیں تو ابھی آنا باقی تھیں۔ اسی دن ’نوروز‘ کی تقریب بھی منعقد کی گئی۔ بہرحال دہلی کی گلیوں کی یہ خون میں بسی داستان ہے۔ تیموری خون کی اس سے زیادہ ذلت شاید ممکن ہی نہیں تھی جتنی محمد شاہ رنگیلے کی حرکتوں کی وجہ سے اس کی جھولی میں پڑی۔
پھر وقت آیا دہلی سے تاوان لینے کا۔ دہلی کے امرا اور عوام سے زر و جواہر، بیش قیمت اشیا اور نقدی کی صورت میں کم از کم 70 کروڑ روپے حاصل ہوئے اور ساتھ میں طلائی تخت طاؤس اور کوہِ نور ہیرا بھی ہاتھ لگا۔ جہاں بادشاہ رنگیلے ہوں، ہر خیال کا مرکز جنس پر آ کر رُک جائے، سُرور ملے تو نشے کی حالت میں سیدھا کھڑا رہنا معیوب لگے اور ڈگمگاتے قدم غُرور بن جائیں، وہاں ایسی صورتحال کا ہونا کسی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔
مغل سلطنت کا یہ زمانہ اپنی آخری ہچکیاں لے رہا تھا۔ وسعت جب اپنے پھیلاؤ کی سرحد تک پہنچتی ہے تو اُس کو بحال رکھنا کمال ہوتا ہے۔ مگر یہاں تو زوال کی شامیں تھیں تو شام کی ٹھنڈک میں کمال کی بیل کیسے اُگتی؟
دہلی کے بعد نادر نے سندھ کا رُخ کیا۔ جنوری کا سخت سرد موسم تھا۔ 5 جنوری کو نادر شاہ کا لشکر ڈیرہ اسمٰعیل خان اور 15 کو ڈیرہ غازی خان پہنچا۔ میاں نور محمد کو حاضر ہونے کا حکم دیا گیا مگر میاں صاحب اہل و عیال کے ساتھ عمرکوٹ کے قلعہ میں جابسے تھے۔ نادر 12 فروری کو شہدادپور سے نکلا اور تیزی سے عمرکوٹ روانہ ہوا۔ اس نے 90 میل یعنی 150 کلومیٹر کا فاصلہ اس تیزی سے طے کیا کہ اگلے روز وہ عمرکوٹ پہنچ چکا تھا جہاں میاں نور محمد، نادر شاہ کے سامنے پیش ہوا۔ دونوں میں جو گفتگو ہوئی اُس کا لب لباب کچھ بھی ہو پر نتیجہ دولت کے گرد ہی پھیرے لگاتا تھا۔
اگر تھوڑا غور سے دیکھا جائے تو حاکم اور محکوم کی گفتگو کیا ہوگی؟ جس حاکم کو سندھ کے زمین دار اور نائب خراج دیتے تھے، اُس نے وہ تمام نادر شاہ کی جھولی میں ڈال دیا تھا۔ دہلی کے خون میں رنگے بازاروں سے لےکر ایران، افغانستان، لاہور اور ملتان تک نادر شاہ کے خوف کا جھنڈا جھولتا تھا، تو کلہوڑا سردار بھاگتے نہیں یا خراج نہیں دیتے تو کیا کرتے؟
بس یہ وقت کی بچھی شطرنج کی بساط تھی اور دوسرے حاکموں کی طرح یہ بھی آنکھیں جھپکائے بیٹھے تھے۔ مہرے دونوں طرف سے نادر شاہ افشار کھیلنے کی حالت میں تھا۔ یہ فقط بند زبان اور خاموش آنکھوں سے دیکھ سکتے تھے۔ سوال کرنے کے لیے جو زبان چاہیے ہوتی ہے وہ نادر کے خوف نے ان سب سے چھین لی تھی۔
کلہوڑا خاندان کا خزانہ جو میاں نور محمد نے نادر کو دیا اُس کی مالیت ایک کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی سالانہ 20 لاکھ خراج بھی مقرر کیا گیا۔ میاں کی طاقت کو توڑنے کے لیے سندھ کے 3 حصے کردیے گئے۔ سبی اور کاچھو محبت خان بروہی، خان آف قلات کو ملا۔ شکارپور صادق محمد خان داؤد پوتا کو ملا۔ باقی سندھ کا بادشاہ میاں نور محمد تھا۔ مگر نادر شاہ نے جو سخت سردیوں میں افغانستان سے عمرکوٹ تک کا تھکا دینے والا سفر طے کیا تھا اُس کو وہ شاید ایک پل کے لیے بھی نہیں بھول پایا۔
خراج لینے، سالانہ خراج مقرر کرنے، سندھ کو حصوں میں بانٹنے کے بعد بھی اس کو سکون نہیں ملا اس لیے وہ میاں نور محمد کے 3 بیٹوں کو ضمانت کے طور پر اپنے ساتھ لے گیا کیونکہ کیے گئے وعدوں کو بغیر کسی پریشانی کے پورا کرنے کے لیے یہ ایک بہترین نفسیاتی ہتھکنڈہ تھا۔ ان سب ذہنی اذیتوں کے بدلے میاں نور محمد خان کو ’شاہ قلی خان‘ کا لقب نصیب ہوا۔
نادر شاہ جو اپنے ساتھ (28 مارچ 1740ء میں) میاں کے 3 نورچشم لےکر گیا ان میں میاں محمد مرادیاب خان، میاں غلام شاہ اور میاں عطر خان شامل تھے۔ یہ 3 وہ نام ہیں جو آگے چل کر سندھ کی سیاست کے اکھاڑے میں بڑا اُدھم مچانے والے تھے۔ لیکن اس آنے والی سیاسی افراتفری کا ذکر کرنے سے پہلے میں آپ کو نادر شاہ کے اس جہان سے گزر جانے کی مختصر سی کتھا سُناتا ہوں جو سندھ سے جانے کے 7 برس بعد اس کے قتل کے ساتھ ختم ہوئی۔
یہ وہ سال ہے جب جون کے گرم شب و روز میں کوچان، ایران میں نادر شاہ کو قتل کردیا گیا تھا۔ 19 جون کی شام خابوشان سے دو فرسخ (ایک فرسخ 3 میل کے برابر ہوتا ہے) کے فاصلے پر فتح آباد کے اونچے مقام پر نادر شاہ نے پڑاؤ ڈالا۔ نادر شاہ کو اپنی موت کا شاید پکا یقین ہوگیا تھا اس لیے مشہد سے اس طرف آنے سے پہلے اس نے اپنے بیٹوں اور پوتے کو تحفظ کی خاطر قلات روانہ کردیا تھا۔ اسی رات محمد قلی خان اور صالح خان کے حملے میں نادر بڑی بے دردی سے قتل کردیا گیا۔
نادر کے اپنے بھتیجے نے اُس سے بغاوت کردی تھی۔ مسلسل تھکان اور ذہنی مشقت کے ساتھ جسمانی ضعف نے اسے بیمار کردیا تھا۔ اس کی بولہوسی وقت کے ساتھ بڑھتی گئی تھی۔ دولت سمیٹنے کی حوس میں اس نے ظلم اور جبر کی انتہا کردی تھی۔ آخری وقت میں وہ تقریباً اپنے حواس کھو بیٹھا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ ہر فرد اُسے قتل کردے گا۔
اُسے ایسا لگنا بھی چاہیے تھا کیونکہ بے بس انسانوں کا بہایا ہوا خون، آنکھوں کے سامنے ٹھنڈے ہوتے ہوئے جسم اور بُجھتی بے بس آنکھیں آپ کے ذہن کی زمین سے سکون کی رنگین اور مہکتی فصل کو وقت کی درانتی سے کاٹ دیتی ہے۔ جب سکون اور رشتے آپ کو پرایا کردیں تو آپ دنیا کے چاہے کتنے ہی بڑے آدمی کیوں نہ ہوں، سونے چاندی کے آپ کے سامنے کتنے ہی ڈھیر کیوں نہ لگے ہوں مگر وہ آپ کو کبھی رشتوں کا سکون نہیں دے سکتے۔
کتنے کمال کی اُلٹ پھیر ہے کہ ہم جس بے جان دولت کے لیے اپنے ذہنی سکون اور اپنے پیاروں کو کھو دیتے ہیں آخری وقت میں وہ سونے کے ڈھیر کسی کام نہیں آتے۔ ویسے تو یہ بڑی عام سی بات ہے مگر اسے زمانہ سمجھنے کے لیے شاید تیار نہیں ہے۔
نادر شاہ کے بعد دیر سویر تینوں شہزادے لوٹ آئے اور 1752ء میں احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان پر تیسرا حملہ کیا جس کا مقصد لاہور اور ملتان تک پہلے والے ناظم معین الملک کا اقتدار ختم کرکے مغل سلطنت سے لاہور کو الگ کرنا تھا۔ اس کامیاب افغان حملے میں معین الملک گرفتار بھی ہوا مگر بات چیت کے دروازے کہاں بند ہوتے ہیں۔ بات چیت ہوئی اور معین الملک عرف میر منو کو پھر سے وہی ذمہ داری دی گئی کہ وہ ملتان اور لاہور کا ناظم بنا رہے۔
غلام رسول مہر ’تاریخ کلہوڑا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اس حملے کے بعد، جب ابدالی نے خراج دینے کے لیے سندھ کے حاکم کو پیغام بھیجا تو میاں نور محمد نے کوئی انکار نہیں کیا بلکہ اُس کے پیغام کے جواب میں بڑی رقم بہت سارے تحائف کے ساتھ معتبر امیروں کا ایک وفد بھی خیرسگالی کے طور پر بھیجا جس کی قیادت اس کے بھائی نے کی۔ اس طرح ابدالی سے میاں نے خوش گوار تعلقات قائم کیے اور شیخ محمد محفوظ ’سرخوش‘ قندھار میں سندھ کا وکیل مقرر ہوا۔ مگر یہ ڈر کے سائے میں پنپنے والا رشتہ کچھ زیادہ نہیں چل سکا۔
1753ء کے جاڑے کے موسم کی ابتدا ہوچکی تھی۔ افغانستان میں شدید ٹھنڈ پڑنا شروع ہوئی تو ابدالی نے ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا کہ وہاں افغانستان کے مقابلے میں موسم معتدل ہوتا ہے تو کیوں نہ اس کا لطف اٹھایا جائے۔ بادشاہ نے ساتھ میں یہ بھی فیصلہ کیا کہ وہ پہلے سندھ جائیں گے اُس کے بعد ہند جائیں گے۔ یہ خبر میاں صاحب پر ایک بجلی کی طرح کوُندی، اس کے خیال میں ابدالی حملہ کرنے کے لیے آرہا تھا۔
میاں نور محمد نے فوری طور پر اپنے وکیل دیوان گدومل کو بادشاہ کی طرف روانہ کیا اور اسے کہا کہ بادشاہ سے مل کر اسے ہماری وفاداری کا یقین دلائے اور ساتھ میں راستہ تبدیل کرنے کی بھی گزارش کرے۔ اسے بادشاہ کی طرف بھیج کر میاں نور محمد جیسلمیر کی طرف روانہ ہوا اور دل میں تکلیف ہونے کی وجہ سے جیسلمیر کے قریب کورہرہ گھاٹ کے مقام پر 12 صفر 1167ھ (7 دسمبر 1753ء) بروز جمعہ یہ جہانِ فانی چھوڑ گیا۔ اگر میاں صاحب انتظار کر لیتے تو شاید ایسا نہ ہوتا کیونکہ جب دیوان گدومل، ابدالی سے نوشہرہ میں ملا تو ابدالی نے اس کی بات مان لی۔
نادر شاہ افشار کے حملے کے وقت بھی میاں نے جلدی سے کام لیا تھا جس کا نتیجہ شرمندگی کے سوا کچھ نہیں نکلا تھا، جس سے ضرور میاں کو سیکھنا چاہیے تھا کیونکہ 13 برس اتنا بڑا عرصہ نہیں ہوتا جس میں آدمی اپنی کی ہوئی غلطیوں کو بھول جائے۔ بھاگ جانا کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ شاید یہی کمزوریاں تھیں کہ میاں نے اپنے لیے زندگی میں بہت ساری پریشانیاں پال لی تھیں۔
بہرحال دکھ کے اس موقع پر ہم میاں کے دُکھی خاندان سے جُدا ہورہے ہیں۔ جلدی ملتے ہیں کہ تخت و تاج زیادہ وقت انتظار کے موسم میں جی نہیں سکتے۔۔۔!
حوالہ جات
• ’منتخب اللباب‘ ۔ خافی خان نظام الملک۔ مترجم: محمود احمد فاروقی۔ 1963ء۔ نفیس اکیڈمی، کراچی
• ’تحفتہ الکرام‘ ۔ میر علی شیر قانع۔ مترجم: مخدوم امیر احمد۔ 2011ء، سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
• ’تاریخ کلہوڑا ۔ غلام رسول مہر۔ مترجم: شمشیرالحیدری۔ 2016ء، سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
• ’سندھو گھاٹی اور سمندر‘۔ ابوبکر شیخ۔ 2022ء، سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
• ’تاریخ بلوچی‘۔ عبدالمجید جوکھیو بکھری۔ مترجم: ڈاکٹر عبدالرسول قادری۔ 2017ء۔ ڈاکٹر نبی بخش ریسرچ فاؤنڈیشن، حیدرآباد
• ’بھٹ جو شاہ‘۔ ایچ۔ ٹی۔سورلی۔ مترجم: عطا محمد بھنبھرو۔ 2012ء۔ سندھیکا اکیڈمی، کراچی
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔