پاکستان

ایف-9 ریپ کیس: متاثرہ لڑکی کی وکیل کا ملزمان کے ماورائے عدالت قتل کی تحقیقات کا مطالبہ

ایڈووکیٹ ایمان زینب مزاری حاضر اور انسانی حقوق کی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری نے ملزمان کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

ایف-9 پارک ریپ کیس کی متاثرہ خاتون کی نمائندگی کرنے والی وکیل نے پولیس کارروائی کو ماورائے عدالت قتل قرار دیتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ دونوں ملزمان کو اسلام آباد پولیس نے ایک ’جعلی مقابلے‘ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

دارالحکومت کے پارک میں ہونے والے ریپ نے ملک میں ایک بار پھر خواتین کے تحفظ کے حوالے سے نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

تاہم جمعرات کو اسلام آباد پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈی-12 پولیس چوکی میں پولیس کے ’انکاؤنٹر‘ کے دوران ہلاک ہونے والے دو نوجوان ریپ کے واقعے میں ملوث تھے، دونوں ملزمان دیگر جرائم میں بھی مطلوب تھے جبکہ ان میں سے ایک ملزم ایک قتل کے مقدمے میں بھی مفرور تھا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایڈووکیٹ ایمان زینب مزاری حاضر اور انسانی حقوق کی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری نے ملزمان کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

زینب مزاری نے کہا کہ ان کی مؤکل نے 15 فروری (بدھ) کو ملزمان کی شناخت کی تھی، پولیس نے بدھ کی شام تقریباً ساڑھے 4 بجے ریپ کا شکار لڑکی کو آئی-9 میں کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی پولیس اسٹیشن بلایا تاکہ مشتبہ افراد کی شناخت کی جا سکے اور متاثرہ لڑکی نے اپنے وکلا کے شام 4 بج کر 55 منٹ پر پولیس اسٹیشن پہنچنے سے قبل ہی مشتبہ افراد کو شناخت کر لیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں 100 فیصد یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ جن دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا وہ 15 فروری کو آئی-9 میں کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے تھانے میں پولیس کی حراست میں تھے۔

اس نے مزید کہا کہ اس نے ایک پولیس عہدیدار ایس ایس پی ماریہ کو میسج کیا اور مشتبہ افراد کے پولیس کی تحویل میں ہونے کی وجہ سے توقع کی جا رہی تھی کہ ان کے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے جائیں گے جس پر خاتون پولیس افسر نے اثبات میں جواب دیا۔

اس نے کہا کہ دونوں ملزمان کے تحویل میں ہونے کے باوجود پولیس کا ردعمل عجیب تھا، انہوں نے پہلے ٹوئٹ کیا کہ مشتبہ افراد کا سراغ لگا لیا ہے، پھر انہوں نے اس ٹوئٹ کو ڈیلیٹ کر دیا، پھر انہوں نے کہا کہ وہ انہیں گرفتار کرنے کے قریب ہیں اور پھر انہوں نے ایک فرضی انکاؤنٹر کی کہانی جاری کی جو 100 فیصد جھوٹ پر مبنی اور بے بنیاد ہے، وہ مشتبہ افراد حراست میں تھے اور دوران حراست ہی مارے گئے۔

زینب مزاری نے سوال کیا کہ پولیس کیا چھپانے کی کوشش کر رہی ہے اور انہوں نے ملزمان کو مقدمے کا سامنا کرنے سے کیوں اجتناب کررہے تھے، جب مشتبہ افراد سے دوران حراست پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ پولیس سے ڈرتے ہیں تو انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ نہیں ڈرتے۔

وکیل نے کیپٹل پولیس کے سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اتنے اہم مقدمے میں آپ کی اجازت اور مرضی کے بغیر انکاؤنٹر کی پوری کہانی نہیں بنائی جا سکتی تھی لہٰذا آپ جوابدہ ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر متاثرہ لڑکی کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچا تو آئی جی اسلام آباد، دارالحکومت کی پولیس فورس اور خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ قصوروار ہوں گے۔

اس نے مزید دعویٰ کیا کہ مبینہ انکاؤنٹر کے بعد متاثرہ لڑکی لاشوں کی شناخت کے لیے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) گئی تھی، ان کی مؤکلہ 15 فروری کو پہلے ہی مشتبہ افراد کی شناخت کر چکی تھیں، ملزمان پولیس کی حراست میں تھے، پولیس نے انہیں قتل کر دیا، یہ کوئی انکاؤنٹر نہیں تھا، ہم سول سوسائٹی، ایک وکیل، ایک انسان کی حیثیت سے ماورائے عدالت قتل کی شدید مذمت کرتے ہیں، دنیا کا کوئی قانون آپ کو جج، جیوری اور جلاد بننے کی اجازت نہیں دیتا۔

زینب مزاری نے کہا کہ 15 فروری کو انہوں نے ایس ایس پی ماریہ سے مشتبہ افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کو کہا تھا، اب تک ہم نہیں جانتے کہ ڈی این اے کیا گیا تھا یا نہیں لیکن ہم اب تک دستیاب تھوڑی بہت معلومات سے یہی سمجھے ہیں کہ شاید یہ ماورائے عدالت قتل کے عمل کے بعد پمز میں کیا گیا تھا، ہم نہیں جانتے۔

اس دوران فرزانہ باری نے متاثرہ لڑکی کی شناخت ظاہر ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے الزام لگایا کہ متاثرہ لڑکی کا میڈیکل ٹیسٹ ٹھیک سے نہیں کرایا گیا، انہوں نے کہا کہ میں نے پولیس کے ساتھ یہ مسئلہ اٹھایا تھا لیکن انہوں نے دو ملاقاتوں کے بعد مجھے فون کرنا بند کردیا۔

سماجی کارکن نے کہا کہ ریپ کا شکار لڑکی نے ملزمان کی پہلے ہی دفعہ میں شناخت کر لیا تھا اور انہیں 100 فیصد یقین تھا کہ مشتبہ افراد ہی ملزم ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملزمان انتہائی مطلوب اور عادی مجرم تھے اور انہوں نے اسلام آباد کے ایف-9 اور جی-9 کے علاقوں میں کم از کم 50 ریپ کیے تھے، پولیس کو ان کا مجرمانہ ریکارڈ بھی ملا تھا اور انہوں نے ڈکیتی کے دوران قتل بھی کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آج کی پریس کانفرنس کا بنیادی مقصد ماورائے عدالت قتل کے کلچر کو بے نقاب کرنا ہے، ہمارے ملک ایک عدالتی نظام ہے اور چاہے کوئی شخص دہشت گرد ہو یا سخت گیر مجرم، اس کا جرم عدالت میں ثابت ہونا چاہیے۔