لاہور ہائیکورٹ میں عمران خان کی طلبی: قانونی پوزیشن دیکھ کر فیصلہ کریں گے، بیرسٹر علی ظفر
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی لاہور ہائی کورٹ میں پیشی سے متعلق آج مشاورت ہوگی، دیکھیں گے کہ قانونی پوزیشن کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کے احتجاج اور کار سرکار میں مداخلت کے کیس میں حفاظتی ضمانت کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے حلف نامے اور وکالت نامے پر دستخط میں فرق کی وضاحت طلب کرتے ہوئے عمران خان کو پیر کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
آج لاہور میں میڈیا سے گفتگو کے دوران اس سوال پر کہ عمران خان عدالت میں پیش ہوں گے یا نہیں اور آپ نے انہیں کیا مشورہ دیا ہے، پی ٹی آئی سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ جو کچھ کل ہوا، وہ سب میں نے بھی میڈیا پر دیکھا، میری عمران خان سے ملاقات نہیں ہوئی، آج میری ان سے ملاقات ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ آج عمران خان سے پیشی سے متعلق مشاورت ہو گی، ہم دیکھیں گے کہ قانونی پوزیشن کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ 2 روز قبل اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) سے عبوری ضمانت خارج ہونےکے بعد عمران خان نے حفاظتی ضمانت کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
دوران سماعت جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا تھا کہ عمران خان کے وکالت نامے اور حلف نامے پر دستخط میں فرق کیوں ہے، یہ بہت اہم معاملہ ہے، میں آپ کو یا آپ کے مؤکل کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کروں گا۔
لاہور ہائی کورٹ میں عمران خان کے وکیل اظہر صدیق روسٹرم پر آئے کیونکہ عدالت نے عمران خان کے دستخطوں میں فرق سے متعلق وکیل سے وضاحت طلب کی تھی۔
عمران خان کے دوسرے وکیل غلام نسوانہ نے کہا کہ عمران خان اپنے دستخطوں کو مانتے ہیں اور اس کی ذمہ داری لے رہے ہیں، جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ وہ میرے سامنے اون کریں، ورنہ میں وکیل اور درخواست گزار کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کروں گا۔
وکیل نے کہا کہ اگر عدالت مناسب سمجھے تو دستخط کے بارے میں ویڈیو لنک پر پوچھا جا سکتا ہے، عمران خان کو ڈاکٹروں نے چلنے سے منع کیا، انہوں نے عدالت سے کہا کہ عدالت بیلف مقرر کرے تاکہ دستخط کی حد تک بات واضح ہو جائے، جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ کا کہنا تھا کہ ہم نے قانون کے مطابق چلنا ہے، حلف کے بعد دستخط سے متعلق بیان عمران خان دیں گے۔
وکیل عمران خان غلام نسوانہ نے کہا کہ عمران خان اپنے دستخطوں کو مانتے ہیں تاہم جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ وہ میرے سامنے آکر دستخط کی تصدیق کریں۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کے دستخط کے معاملے پر جو قصور وار ہوا عدالت اس وکیل کو سزا دی سکتی ہے، جسٹس طارق سلیم شیخ نے پیر کو دو بجے عمران خان کو پیش کرنے کا حکم دیا ۔
10 فروری کو انسداد دہشت گردی عدالت اسلام آباد نے عمران خان کی طبی بنیادوں پر دائر حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں طلب کیا تھا، عدالت نے آئندہ سماعت پر عمران خان کو حاضری یقینی بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان پیش ہوئے تو ٹھیک نہیں تو ضمانت قبل از گرفتاری پر آرڈر دے دیں گے۔
واضح رہے کہ عمران خان کےخلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت تھانہ سنگجانی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی نااہلی کے خلاف احتجاج کرنے پر سابق وزیر اعظم، اسد عمر اور علی نواز سمیت 100 سے زائد کارکنان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ نے اسپیکر سمیت فریقین کو 7 مارچ کے نوٹس جاری کر دیے
پی ٹی آئی کے 43 مستعفی ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کرنے کے اسپیکر کے نوٹی فکیشن کے خلاف درخواست پر جسٹس شاہد کریم نے سماعت کی۔
گزشتہ سماعت پر لاہور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے 43 ارکان قومی اسمبلی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے فیصلہ معطل کردیا تھا، فیصلے میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ارکان کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹی فکیشن 7 مارچ تک معطل رہے گا اور اس دوران الیکشن کمیشن پاکستان ان نشستوں پر ضمنی انتخابات کا اعلان نہیں کرے گا۔
آج میڈیا سے گفتگو میں کیس میں پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہلاہور ہائی کورٹ نے کہا تھا اسپیکر کا استعفے منظور کرنے کا نوٹی فکیشن فائل نہیں گیا، اس لیے اسے معطل نہیں کیا، آج ہم نے اسپیکر کا نوٹی فکیشن بھی عدالت میں فائل کر دیا ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ میرے مطابق اراکین قومی اسمبلی کے اراکین اسمبلی جاسکتے ہیں، لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا نوٹی فکیشن معطل کر رکھا ہے، شاید قومی اسمبلی سیکریٹریٹ ا یم این ایز کو جانے نہیں دے رہی، یہ سیاسی معاملہ ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے 43 اراکین کے استعفے منظور کرنےکا اقدام لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا، درخواست میں اسپیکر کے 22 جنوری اور الیکشن کمیشن کے 25 جنوری کے نوٹی فکیشن چیلنج کیے گئے تھے۔
درخواست میں اسپیکر قومی اسمبیلی کی جانب سے استعفے منظور کرنے کا اقدام چیلنج کیا گیا ہے جب کہ لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹٰ آئی اراکین کو ڈی نوٹی فائی کرنے کا اقدام معطل کررکھا ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا کہ عدالت نے نوٹی فکیشن نہ لگانے پر اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے استعفی منظور کرنے کا اقدام معطل نہیں کیا، درخواست کے ساتھ اسپیکر کی جانب سے استعفے منظور کرنے کا نوٹی فکیشن منسلک کردیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے اسپیکر قومی اسمبلی سمیت دیگر تمام فریقین کو 7 مارچ کے لیے نوٹس جاری کر تے ہوئے لاہور ہائی کورٹ نے کارروائی 7 مارچ تک ملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی اراکین اسمبلی نے اسپیکر قومی اسمبلی کے اقدام کو چیلنج کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی، الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کو فریق بنایا تھا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ انہوں نے استعفے منظور ہونے سے قبل ہی واپس لے لیے تھے، استعفے واپس لینے کے بعد اسپیکر کے پاس اختیار نہیں کہ وہ انہیں منظور کریں، اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کرنا خلاف قانون اور بدنیتی پر مبنی ہے، استعفے عدالت عظمیٰ کے طے کردہ قوانین کے برعکس منظور کیے گیے، اسپیکر نے سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے استعفے منظور کیے۔
درخواست میں کہا گیا کہ استعفے منظور کرنے سے قبل اسپیکر نے اراکین کو بلا کر مؤقف نہیں پوچھا، ان کی جانب سے استدعا کی گئی تھی کہ عدالت اسپیکر قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن کی جانب سے استعفے منظور کرنے کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دے۔
پسِ منظر
خیال رہے کہ 25 جنوری کو اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مزید 43 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے جانے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انہیں ڈی نوٹیفائی کردیا تھا۔
اسپیکر قومی اسمبلی کے اس اقدام سے 2 روز قبل ہی پاکستان تحریک انصاف کے باقی 45 اراکین قومی اسمبلی نے اپنے استعفے واپس لینے کی درخواست الیکشن کمیشن میں جمع کرائی تھی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جن 43 اراکین کو ڈی نوٹیفائی کیا گیا تھا ان میں محمد یعقوب شیخ، گل ظفر خان، جواد حسین، ذالقرنین علی خان، حاجی امتیاز احمد، ملک محمد احسان اللہ ٹوانا، رضا نصرالدین، محمد ریاض خان، محمد یعقوب سلطان، محمد امیر سلطان، راحت امان اللہ، رائے محمد مرتضیٰ اقبال، میاں محمد شفیق، فاروق اعظم ملک شامل تھے۔
دیگر اراکین میں جاوید اقبال، شبیر علی، خواجہ شیراز، سردار محمد خان لغاری، سردار نصراللہ دریشک، منزہ حسان، ڈاکٹر سیمیں عبدالرحمٰن ، ثوبیہ کمال، نوشین حامد، ربینہ جمیل، فوزیہ بہرام، رخسانہ نوید، تاشفین صفدر، صائمہ ندیم، غزالہ سیفی، نصرت واحد، نفیسہ عنایت اللہ، ساجدہ بیگم، طارق صادق، نورین فاروق، عظمیٰ ریاض، ظلِ ہما، شاہین ناز سیف اللہ، لال چند، شنیلا رتھ، جئے پرکاش اور جمشید تھومس شامل تھے۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب 17 جنوری کو اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے پاکستان تحریک انصاف کے 34 اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کرنے کے تین روز بعد یعنی 20 جنوری کو اس کے مزید 35 اراکین کے استعفے منظور کرلیے تھے۔
یوں پی ٹی آئی کے تمام 122 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے چار مراحل میں منظور ہوگئے تھے۔
پی ٹی آئی نے گزشتہ سال اپریل میں پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کی برطرفی کے بعد پارلیمنٹ کے ایوان زیریں سے اجتماعی استعفے دے دیے تھے۔
بعد ازاں اسپیکر قومی اسمبلی نے صرف 11 ارکان کے استعفے منظور کیے تھے اور کہا تھا کہ باقی ارکان اسمبلی کو تصدیق کے لیے انفرادی طور پر طلب کیا جائے گا، جب کہ کراچی سے رکن اسمبلی شکور شاد نے اپنا استعفیٰ واپس لے لیا تھا۔