قومی اسمبلی کا اجلاس ضمنی مالیاتی بل پر ووٹنگ کے بغیر ہی ملتوی
قومی اسمبلی کا اہم اجلاس، آئی ایم ایف پروگرام کی تجدید کے لیے ضروری ٹیکس ترامیم پر مشتمل ضمنی مالیاتی بل 2023 (منی بجٹ) پر ووٹنگ کے بغیر ہی ملتوی کردیا گیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے اجلاس کی سربراہی کی جس کے دوران اراکین نے ٹیکسز میں اضافے کے ذریعے غریب عوام پر بوجھ بڑھانے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق اجلاس اب 20 فروری بروز پیر شام 5 بجے ہوگا۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کے لیے بدھ کے روز ضمنی مالیاتی بل پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں پیش کیا تھا۔
آئی ایم ایف نے حکومت سے ٹیکس کی مد میں ایک کھرب 70 ارب روپے کا اضافی ریونیو اکٹھا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
جس کے تحت ایک کھرب 15 ارب روپے کے ٹیکس اقدامات 14 فروری سے ایس آر اوز کے ذریعے پہلے ہی نافذ کیے جاچکے ہیں۔
تاہم بقیہ 55 ارب روپے کے اقدامات کا اطلاق مالیاتی بل کی تجاویز کے ذریعے کیا جائے گا۔
آج ہونے والے اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے عبدالقادر خان مندوخیل نے حکومت پر زور دیا کہ غریبوں پر سے بوجھ کم کیا جائے اور اس کے بجائے لگژری گاڑیوں اور پر تعیش گھروں پر ٹیکس لگایا جائے۔
درین اثنا متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رکن قومی اسمبلی صلاح الدین نے ملک کو درپیش مشکلات پر سنجیدگی نہ دکھانے پر اسحٰق ڈار کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ ’روپے کی قدر کم ہوگئی ہے، پیٹرول، بجلی اور گیس پہلے ہی مہنگا ہے، عوام پر پہلے ہی بم گر چکا ہے اور ہمارے وزیر خزانہ نے 15 فروری کو ان پر ایک اور بم گرا دیا۔
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کی رکن قومی اسمبلی سائرہ بانو نے بھی حکومت کو ٹیکسز میں اضافے پر ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ عام آدمی کے لیے اپنی ضروریات پوری کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔
پی ٹی آئی کے منحرف رکن اسمبلی محمد افضل خان ڈھانڈلا نے زراعت اور آبادی کنٹرول پر توجہ دینے کی ضرورت اور پبلک ٹرانسپورٹ کو مضبوط بنانے اور کاروں کی درآمد کو کم کرنے پر زور دیا۔
ضمنی مالیاتی بل
حکومت کی جانب سے 2 اقدامات، سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) کو بڑھانا اور جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی شرح کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنا، ایس آر اوز کے ذریعے پہلے ہی لاگو کیے جاچکے ہیں۔
ان کے ذریعے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ایک کھرب 15 ارب روپے حاصل ہونے کی توقع ہے۔
اہم نکات
- سگریٹ اور مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ
- لگژری آئٹم پر جی ایس ٹی کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کا فیصلہ
- سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں ڈیڑھ سے 2 روپے فی کلوگرام اضافہ
- جنرل سیلز ٹیکس 17 فیصد سے 18 فیصد کردیا گیا
- بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کا فنڈ 360 ارب سے بڑھا کر 400 ارب روپے کردیا گیا
- شادی کی تقریبات کے بلوں پر 10 فیصد کی شرح سے ودہولڈنگ ایڈجسٹیبل ایڈوانس انکم ٹیکس کا نفاذ
قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ نے تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے امیر طبقے پر اضافی ٹیکس لگانے کی حکمت عملی کے تحت اب لگژری آئٹمز پر جی ایس ٹی کی شرح کو 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کی بلند سطح پر لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ اسی طرح ہوائی سفر میں فرسٹ کلاس اور بزنس کلاس میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ٹکٹ کا 20 فیصد یا 50 ہزار روپے میں سے جو بھی زیادہ ہو، وہ عائد کی جائے گی، اس طرح پرتعیش شادی ہالز میں منعقدہ شادی بیاہ میں اصراف دیکھنے کو ملتا ہے لیکن ہم سب کو سادگی اپنانی چاہیے اس لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ شادی کی تقریبات کے بلوں پر 10 فیصد کی شرح سے ودہولڈنگ ایڈجسٹیبل ایڈوانس انکم ٹیکس نافذ کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت نے چند ایسی اشیا کی قیمتیں بڑھانے کی سفارش کی ہے جو انسانی صحت کے لیے مضر ہیں، اس لیے سگریٹ، ایریٹڈ، شوگری ڈرنکس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ تجویز کیا جارہا ہے، یہ ڈیڑھ روپے فی کلو گرام تھی اور اسے بڑھا کر 2 روپے فی کلو گرام کرنے کی تجویز ہے، کووڈ سے پہلے بھی یہ دو روپے فی کلو گرام ہی تھی لیکن کووڈ کے دوران اسے کم کیا گیا تھا۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ جی ایس ٹی کی شرح کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کیا جارہا ہے، اضافی محصولات عائد کرتے ہوئے ہم نے کوشش کی ہے کہ عام استعمال کی اشیا مثلاً گندم، چاول، دودھ، دالیں، سبزیاں، پھل، مچھلی، انڈوں، کھلے گوشت اور مرغی پر یہ اضافی ٹیکس عائد نہ کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ موجودہ حکومت کو اس بات کا احساس ہے کہ مہنگائی نے ہمارے غریب بہن بھائیوں کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والے افراد کے ماہانہ وظیفے میں اضافہ کیا جارہا ہے اور 40 ارب روپے مزید مختص کیے جارہے ہیں، یعنی ایوان کی جانب سے مختص 360 ارب روپے کو بڑھا کر 400 ارب روپے کیا جارہا ہے۔