شیخ رشید کی درخواست ضمانت منظور، اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف زرداری پر عمران خان کے قتل کی سازش کے الزام سے متعلق کیس میں گرفتار سابق وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی درخواست ضمانت منظور کرلی جس کے بعد انہیں جیل سے رہا کردیا گیا۔
شیخ رشید پر تھانہ آبپارہ میں مقدمہ درج ہے، شیخ رشید کو 2 فروری کو رات گئے گرفتار کیا گیا تھا اور اس کے بعد پولیس کی ریمانڈ میں دیا گیا اور بعد ازاں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں قید رہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کی درخواست ضمانت پر جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر عدالت نے استفسار کیا کہ شیخ رشید نے الزام کیا لگایا ہے ؟ کسی نیوز چینلز پر بیان ہے؟ شیخ رشید کے وکیل بیرسٹر سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ جی انہوں نے ایک بیان دیا جو نیوز چینلز پر نشر ہوا۔
وکیل نے شیخ رشید کے خلاف الزامات کی تفصیلات عدالت کو بتائیں، شواہد میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ بیان سے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے درمیان کوئی تصادم ہوا۔
اس کے ساتھ سلمان اکرم راجا کے دلائل مکمل ہو گئے جس کے بعد ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ شیخ رشید ایک سینئر سیاستدان ہیں، ان کی گفتگو پارلیمانی ہونی چاہیے، جو حکومت میں ہیں وہ کل اپوزیشن میں ہوں گے۔
اس دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ سب ایک ہی قسم کی گفتگو کرتے ہیں، سب پارلیمانی ہے، جس پر عدالت میں قہقہے لگے۔
جہانگیر جدون نے درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے استدلال کیا کہ شیخ رشید نے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور بلاول بھٹو کو ننگی گالیاں دیں۔
سلمان اکرم راجا نے مؤقف اپنایا کہ یہ کیس ہی نہیں ہے جو ایڈووکیٹ جنرل بیان کر رہے ہیں، اس موقع پر تفتیشی افسر نے کہا کہ شیخ رشید کی بیان کی تفصیلات پیمرا سے حاصل کی گئیں، شیخ رشید نے بیان دیا کہ انہوں نے عمران خان سے یہ معلومات لی۔
تفتیشی افسر نے کہا کہ آصف زرداری کی عمران خان کے خلاف مبینہ سازش کے شواہد شیخ رشید سے نہیں ملے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ اگر تو یہ جرم نہیں دہراتے اور انڈرٹیکنگ دیتے ہیں تو عدالت دیکھ لے، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ہمیں پرائمری اسکول کے نصاب سے ہی تربیت شروع کرنی پڑے گی۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
بعد ازاں محفوظ فیصلہ جاری کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر داخلہ کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت عالیہ کی جانب سے شیخ رشید کی درخواست ضمانت کو منظور کرتے ہوئے انہیں 50 ہزار روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا گیا۔
بعدازاں جمعرات کی شام شیخ رشید کو اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا۔
رہائی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں 15دن سسرال میں رہ کر آ رہا ہوں اور میں گھبرانے والا نہیں، ساڑھے سات سال یہاں سے قید کاٹ کر نکلا تھا اور اب بھی سچ اور حق کے ساتھ ہوں، ہم عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب مریم صاحبہ کہتی ہیں کہ یہ میری حکومت نہیں ہے، یہ شہباز شریف کی حکومت میری نہیں ہے، ہم بھی یہی کہتے تھے کہ ن اور ش الگ ہیں، اب اس ملک کو اللہ کے بعد صرف عدلیہ بچا سکتی ہے اور کوئی نہیں بچا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اپنا آدھا سامان وہیں چھوڑ آیا ہوں، اگر کال ہو کہ پھر واپس جانا ہے تو سب سے پہلے گرفتاری میں دوں گا اور جن لوگوں نے میری گھر ڈکیتی کی اور سامان لوٹا انہیں میں معاف کرتا ہوں لیکن میں ان سے کہتا ہوں کہ میری گھڑیاں، میرا سامان اور میرتے پیسے میرے واپس پہنچا دو ورنہ میں تمہارے خلاف پرچہ کروں گا۔
شیخ رشید کی گرفتاری اور مقدمات
سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کو آصف زرداری پر عمران خان کو قتل کرنے کی سازش سے متعلق بیان پر 2 فروری کو رات گئے گرفتار کیا گیا تھا۔
پیپلز پارٹی کے ایک مقامی رہنما راجا عنایت نے شیخ رشید کے خلاف سابق صدر آصف علی زرداری پر عمران خان کے قتل کی سازش کا الزام لگانے پر شکایت درج کرائی تھی۔
شکایت گزار کی مدعیت میں تھانہ آبپارہ پولیس نے آصف زرداری پر عمران خان کو قتل کرنے کی سازش سے متعلق بیان پر مقدمہ درج کیا تھا، جس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 120-بی، 153 اے اور 505 شامل کی گئی تھیں۔
گرفتاری کے بعد انہیں اسی روز اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں عدالت نے ان کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔
دوسری جانب 3 فروری کو وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے پر شیخ رشید کے خلاف کراچی میں بھی مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔
شیخ رشید کے خلاف کراچی کے موچکو، حب کے لسبیلہ اور مری کے تھانوں میں مقدمات درج کیے گئے تھے جس کے بعد ایف آئی آر کو سیل کردیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں ایک اور مقدمہ ہفتے کے روز تھانہ صدر میں پیپلز پارٹی کے کارکن کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں شیخ رشید پر امن و امان کو خراب کرنے اور جان بوجھ کر اشتعال پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا۔