پاکستان

انتخابی شیڈول کیس: پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن، گورنر سے جواب طلب کر لیا

عدالت نے 18 جنوری کو تحلیل ہونے والی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے شیڈول کے اعلان میں تاخیر کے خلاف درخواستوں پر سماعت 16 فروری تک ملتوی کردی۔

پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور گورنر خیبرپختونخوا کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا حکم دینے سے متعلق درخواستوں کا جواب دینے کے لیے 2 روز کا وقت دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس سید ارشد علی پر مشتمل بینچ نے 18 جنوری کو تحلیل ہونے والی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے شیڈول کے اعلان میں تاخیر کے خلاف 2 درخواستوں کی آئندہ سماعت 16 فروری کو مقرر کی۔

یہ درخواستیں پاکستان تحریک انصاف نے اپنے سیکریٹری جنرل اسد عمر اور پارٹی کی خاتون وکیل مشال اعظم کے توسط سے دائر کی تھیں۔

درخواست گزاروں نے پشاور ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ گورنر خیبر پختونخوا کو اسمبلی کی تحلیل کے 90 روز کے اندر آئین پر عمل کرتے ہوئے انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کی ہدایت کی جائے۔

درخواست گزاروں نے عدالت عالیہ سے گورنر کے اس بیان کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دینے کی بھی استدعا کی کہ انتخابات کا فیصلہ انٹیلی جنس اور دیگر ایجنسیوں کی رپورٹس کی روشنی میں کیا جائے گا۔

دوران سماعت بینچ نے صوبائی ایڈووکیٹ جنرل عامر جاوید سے استفسار کیا کہ انہوں نے گورنر کی جانب سے درخواستوں پر اپنا جواب کیوں نہیں جمع کرایا تو انہوں نے جواب دیا کہ آئین کا آرٹیکل 248 گورنر کو استثنیٰ دیتا ہے، اس لیے وہ کسی بھی عدالت کے سامنے اپنے اختیارات کا استعمال کرنے، اس کے دفتری امور کی انجام دہی اور کارکردگی کے حوالے سے جوابدہ نہیں ہیں۔

انہوں نے استدعا کی کہ درخواستیں قابل سماعت نہیں ہیں، لہذا انہیں مسترد کیا جائے۔

بینچ نے انہیں ہدایت کی کہ وہ درخواستوں کے حوالے سے ا پنے اعتراضات کا تحریری جواب داخل کریں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ وہ گورنر کے پرنسپل سیکریٹری کے حوالے سے درخواستوں کا جواب داخل کریں گے۔

سینئر وکلا محمد معظم بٹ اور شمائل احمد بٹ درخواست گزاروں کی جانب سے پیش ہوئے اور کہا کہ 17 جنوری کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے آئین کے آرٹیکل 112(1) کے تحت صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے لیے سمری گورنر کو ارسال کی تھی جب کہ گورنر نے اگلے روز فوری طور پر اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے 24 جنوری کو خط کے ذریعے گورنر کو مطلع کیا کہ صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے نتیجے میں آئین کے آرٹیکل 224 (2) کے تحت آئندہ 90 روز میں عام انتخابات کرائے جانے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 90 روز کی مدت 18 جنوری کو شروع ہوئی تھی، اس لیے پولنگ 17 اپریل سے قبل ہی ہونی چاہیے۔

وکلا نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کے بجائے گورنر نے 31 جنوری کو الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط میں صوبے میں امن و امان کی خراب صورتحال کا حوالہ دیا تھا اور الیکشن کمیشن سے کہا تھا کہ وہ سیاسی جماعتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے الیکشن شیڈول کا اعلان کرنے کے بارے میں مشاورت کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی اسمبلی کو تحلیل ہوئے تقریباً ایک ماہ گزر چکا لیکن گورنر اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے سے گریزاں ہیں۔

وکیل نے کہا کہ حال ہی میں صدر مملکت نے بھی الیکشن کمیشن سے خیبر پختونخوا اور پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کرانے کی تاریخ طے کرنے کو کہا۔

پی ٹی آئی کی اسی طرح کی ایک درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے 10 فروری کو الیکشن کمیشن کو حکم دیا تھا کہ وہ گورنر سے مشاورت کے بعد پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کرے تاکہ آئین کے مطابق 90 روز کے اندر نتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے۔

سفر آسائش ہے یا ضرورت؟

بھارتی کرکٹر ہاردک پانڈیا نے بولی وڈ اداکارہ سے دوبارہ شادی کرلی

شاہ چارلس کی اہلیہ کیملا تاج پوشی کے دوران متنازع کوہِ نور تاج نہیں پہنیں گی