توہین مذہب کے جرم میں سزا دینے کیلئے قوانین موجود ہیں، وزیر انسانی حقوق
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق میاں ریاض حسین پیرزادہ نے کہا ہے کہ پنجاب کے علاقے ننکانہ صاحب میں توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک شخص کا قتل انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت انسانی حقوق میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے مذہب یا عقیدے کی آزادی سے متعلق آل پارٹیز پارلیمنٹری گروپ (اے پی پی جی) سے ملاقات کے دوران ریاض پیرزادہ نے کہا کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ توہین مذہب کی روک تھام کے لیے قوانین بنائے گئے ہیں اور ایسے جرائم میں ملوث ملزمان کو سخت سزا دی جاتی ہے لیکن ان قوانین کا غلط استعمال مجرموں کے خلاف قانون کے تحت سخت کارروائی کرکے ہی روکا جا سکتا ہے۔
وفاقی وزیر نے وفد کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ پاکستان کے برطانیہ کے ساتھ مضبوط، اسٹریٹیجی کے لحاظ سے اہم اور دیرپا تعلقات ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے ننکانہ صاحب میں پیش آئے گھناؤنے جرم میں ملوث بہت سے لوگوں کو حراست میں لے لیا ہے اور انہیں قانونی ، عدالتی کارروائی کے بعد سزا دی جائے گی۔
وزیر انسانی حقوق نے کہا کہ پاکستان میں ریاستی ادارے اور سیکیورٹی فورسز انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں پوری طرح چوکس ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم سرحد پار دہشت گردی اور مذموم پروپیگنڈے کا شکار ہیں۔
اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ریاست کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں وفد کے رکن کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ ملک میں اقلیتوں کی آزادی اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے مضبوط آئینی نظام اور اسٹرکچر موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی عالمی مانیٹری وفد یا انسانی حقوق کی کسی تنظیم کا دو ملک کا رہ متوقع ہوتا ہے تو کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجاتا ہے اور اس میں دشمن پڑوسی ملکوں کی جاسوس ایجنسیاں پاکستان کو بدنام کرنے کے پروپیگنڈے میں ملوث ہیں۔
وفد کو مزید بتایا گیا کہ انسانی حقوق پر قومی ایکشن پلان خاص طور پر معاشرے کے ترجیحی طبقات کے لیے پالیسی اور قانونی اصلاحات متعارف کرائے گا۔
اپنے بیان میں وفاقی وزیر نے ملک میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی بہتری کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ عالمی انسانی حقوق کے نگراں اداروں نے پاکستان میں ہونے والے ہر المناک واقعہ پر چوکس رہنے کا مظاہرہ کیا لیکن وہ مذہبی اقلیتوں پر ظلم و ستم اور بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم کو نظر انداز کرتا نظر آیا۔