نیب ترامیم کیس: عدالتی ریمارکس سے متعلق خط پر چیف جسٹس کی اٹارنی جنرل کے اقدام کی تعریف
سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) قانون میں ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ سوشل میڈیا پر عدالتی ریمارکس سے متعلق سینیٹ کو خط لکھا ہے جس پر چیف جسٹس نے ان کے اقدام کی تعریف کی۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے کہا کہ سوشل میڈیا پر عدالتی ریمارکس پر ہونی والی تنقید سے متعلق ایک خط لکھا ہے، لہٰذا سوشل میڈیا پر ہونے والی غلط رپورٹنگ پر بات کرنا چاہتا ہوں۔
اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ان سے مکالمہ کیا کہ ہم نے آپ کا خط پڑھا ہے اور آپ کی کاوش کو سراہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ میرا کام نہیں لیکن یہ جانتے ہوئے کہ تنقید کا اگلا ہدف بن سکتا ہوں جو مجھے مناسب لگا میں نے کیا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میڈیا رپورٹنگ سے متعلق گائیڈلائنز دو فیصلوں میں جاری کر چکی ہے، مسئلہ الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا کا نہیں ہے، سوشل میڈیا پر کوئی قوانین لاگو نہیں ہوتے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کو میں فیک نیوز نہیں کہوں گا کیونکہ ایک ایجنڈے کی تحت سوشل میڈیا پر اداروں کو اداروں کے خلاف لڑانے کی کوشش کی جاتی ہے اس لیے عدالت اس معاملے کو دیکھ سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ نے سمجھداری اور ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے، عدالتی کارروائی سے کچھ غلط معلومات منسوب کی گئیں، جو رپورٹ ہوا وہ نہ صرف سیاق و سباق سے ہٹ کر تھا بلکہ جانبدرانہ بھی تھا۔
انہوں نے کہا کہ جو رپورٹ ہوا اس پر تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کر رہا ہوں، میڈیا کے دوستوں کو عدالت کی طرف سے ردعمل نہ آنے کو احترام سے دیکھنا چاہیے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کا 2019 کا فیصلہ میڈیا کنٹرول کی بات کرتا ہے، میں میڈیا کنٹرول پر نہیں، باہمی احترام پر یقین رکھتا ہوں۔
خیال رہے کہ 9 فروری کو سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) قوانین میں ترمیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ ملک میں تمام مسائل کا حل عوام کے فیصلے سے ہی ممکن ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ موجودہ پارلیمنٹ کو دانستہ طور پر نامکمل رکھا گیا ہے، موجودہ پارلیمنٹ سے ہونے والی قانون سازی بھی متنازع ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا تھا کہ عدالت اس سے پہلے بھی ایک بار اپنے فیصلے پر افسوس کا اظہار کر چکی ہے، پاکستان کی تاریخ میں ایک ہی وزیر اعظم آئے تھے جو بہت دیانتدار سمجھے جاتے تھے، ایک دیانتدار وزیراعظم کی حکومت 58 (ٹو) (بی) کے تحت ختم کی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 58 (ٹو) (بی) کالا قانون تھا، عدالت نے 1993 میں قرار دیا تھا کہ حکومت غلط طریقے سے گئی لیکن اب انتخابات ہی کرائے جائیں۔
آج دوران سماعت اٹارنی جنرل پاکستان شہزاد عطا الہٰی نے عدالتی سواالات پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کی تنخواہوں سے متعلق سوال کیا تھا اور وضاحت کی کہ قومی اسمبلی کے ایک رکن کی مجموعی تنخواہ ایک لاکھ 88 ہزار ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی نے اپریل سے کوئی تنخواہ وصول نہیں کی لیکن اراکین نے سفری اخراجات اور لاجز سمیت دیگر مراعات لیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ قومی اسمبلی ان معاملات کو دیکھ رہی ہے۔
عدالتی کارروئی کی براہ راست نشریات کا معاملہ ہمارے پاس زیر التوا ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان سے مکالمہ کیا کہ آج گیارہویں سماعت پر بھی آپ کے دلائل جاری ہیں، اس پر وکیل نے کہا کہ دوسری طرف نے دلائل کے لیے 6 ماہ کا وقت لیا تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا آپ ان کا ریکارڈ توڑنا چاہتے ہیں۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی نے مستعفی ہونے کے بعد استعفوں کی منظوری کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا، پی ٹی آئی نے پھر استعفوں کی منظوری کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا، لہٰذا ایک ہی وقت میں پی ٹی آئی کے استعفوں کی منظوری اور منظور نہ کرنے کی درخواستیں زیر سماعت ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں اکثریت کی رائے سے قانون سازی ہوتی ہے، کبھی کسی قانون کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ یہ قانون ایک ووٹ سے بنا یا زیادہ ووٹوں سے۔
وکیل نے کہا کہ ایک ووٹ کی برتری سے بننے والا قانون بھی قانون ہوتا ہے، سیاسی معاملات میں برطانیہ سمیت ملکوں میں عدالتی کارروائی لائیو کیمروں میں ریکارڈ ہوتی ہے، لائیو اسٹریمنگ سے آفیشل ریکارڈ رہتا ہے اور ابہام کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالتی کارروئی کی براہ راست نشریات کا معاملہ ہمارے پاس زیر التوا ہے، جلد ہی فل کورٹ میں عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کا معاملہ رکھیں گے۔
وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ اگر 51 فیصد لوگ ووٹ ہی نہ ڈالیں تو بھی اسمبلی میں عوامی نمائندگی ہوگی اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ جمہوریت ہے ہی نمبرز گیم۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی سے استعفے کب دیے تھے، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تحریک انصاف کے ایم این ایز نے 11 اپریل کو استعفے دیے تھے.
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کے استعفے قسطوں میں منظور کیے گئے، استعفوں کی تصدیق کے حوالے سے عدالتی فیصلے موجود ہیں۔
وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ استعفے منظور ہوچکے تو منظوری کے خلاف پی ٹی آئی عدالت چلی گئی، لاہور ہائی کورٹ نے 44 استعفوں کی منظوری پر حکم امتناع دیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے استعفوں کی منظوری کا اسپیکر کا حکم معطل نہیں کیا، ہائی کورٹ کے مطابق اسپیکر کا فیصلہ درخواست کے ساتھ لگایا ہی نہیں گیا تھا، اس موقع پر حکومتی وکیل وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تحریک انصاف کے 20 ارکان نے استعفے نہیں دیے تھے وہ اسمبلی کا حصہ ہیں۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ امریکی تاریخ دان نے کہا تھا کہ سیاسی سوال کبھی قانونی سوال نہیں بن سکتا، امریکی تاریخ دان کی بات پاکستان کے حوالے سے درست نہیں لگتی، امریکی سپریم کورٹ بھی کہہ چکی ہے کہ عدالت سیاسی سوالات میں نہیں پڑے گی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں بنیادی حقوق اور آئینی سوالات پر فیصلے ہوتے رہے ہیں، سیاسی سوال قانونی تب بنتا ہے جب سیاسی ادارے کمزور ہو جائیں۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی نے خود ہی آرڈیننس لاکر نیب ترامیم تشکیل دی تھیں، اپنی ہی ڈیزائن کردہ ترامیم چیلنج کرنا بدنیتی ہے، سپریم کورٹ وطن پارٹی اور طاہرالقادری کیس نیت اچھی نہ ہونے پر خارج کر چکی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہر قانون عوامی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، عدالت کیسے تعین کرے گی کہ کونسا قانون زیادہ اہمیت کا حامل ہے اس پر وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ عوامی اہمیت کسی بھی قانون کو چیلنج کرنے کی بنیاد نہیں، عوامی اہمیت کی بنیاد پر قوانین کا جائزہ لیا تو درخواستوں کا سیلاب آئے گا اور کونسے مقدمات عوامی اہمیت کے ہیں یہ آئین میں واضح نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کو پہلے ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا، ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں آتا تو عدالت کے لیے زیادہ مناسب ہوتا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ براہ راست سپریم کورٹ آنے سے ایک فریق کا اپیل کا حق ختم ہوجاتا ہے، بعض اوقات ایک صوبہ کسی قانون کو اچھا جبکہ دوسرا اسے برا کہتا ہے، ایسی صورتحال میں کوئی بھی عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ خود تعین کرتی ہے کہ اس نے اپنا دائرہ اختیار استعمال کرنا ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ماضی میں سپریم کورٹ، ہائی کورٹس میں زیرالتوا مقدمات بھی منگواتی رہی ہے اس پر وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ کا چار رکنی بینچ کہہ چکا ہے کہ مقدمات منگوانے کا اختیار نہیں، سپریم کورٹ صرف مقدمات ایک سے دوسری ہائی کورٹ منتقل کر سکتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کیا آئین کسی رکن کو منتخب ہونے کے بعد اسمبلی مدت مکمل کرنے کا پابند کرتا ہے جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ آئین کے تحت اگر اسمبلی رکن 40 دن تک بغیر اطلاع غیر حاضر رہے تو ڈی سیٹ ہو سکتا ہے، یہ پارلیمنٹ کی صوابدید ہے کہ رکن کو ڈی سیٹ کرے یا نہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ تفصیل دیں کہ آئینی خلاف ورزیوں پر نیب قانون کی شقوں کو سپریم کورٹ نے کب کب کالعدم قرار دیا۔
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت 15 فروری تک ملتوی کردی۔
نیب ترامیم
خیال رہے کہ گزشتہ سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں، لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔
نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔
قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔
مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔