پاکستان

عمران خان آئین شکنی سمجھتے ہیں تو جنرل باجوہ کے خلاف درخواست دیں، شاہد خاقان عباسی

جنرل قمر باجوہ سے متعلق عمران خان جو باتیں کر رہے ہی وہ آئیں شکنی کی ہیں، جس پر آرٹیکل 6 کا قانون موجود ہے، رہنما مسلم لیگ (ن)

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر لگائے جانے والے الزامات آئین کی خلاف ورزی سے متعلق ہیں اور وہ ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت درخواست دیں۔

ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جنرل قمر باجوہ سے متعلق عمران خان جو باتیں کر رہے ہیں وہ آئین شکنی کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئین شکنی پر آرٹیکل 6 کا قانون موجود ہے اگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ کسی نے آئین توڑا ہے تو ان کے خلاف درخواست دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ بھی کہہ چکے ہیں کہ عمران خان کو نمبر پورے کرنے کے لیے تعاون کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جنرل باجوہ کے خلاف فوج کے اندر انکوائری ہونی چاہیے کیونکہ انہوں نے حکومت گرانے کی ذمہ داری تسلیم کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کرانا، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ، یہ مرضی نہیں ہے، جب اسمبلی تحلیل ہو تو 90 دن میں الیکشن ہوں گے اور فوج کا پولنگ اسٹیشنز پر نہ ہونا ایک بہتر بات ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ انتخابات میں اگر تاخیر ہوئی تو الیکشن کمیشن کو جواز دینا پڑے گا، پھر وہ جواز عدالتوں میں چیلنج ہوگا اور آپ کو ثابت کرنا پڑےگا، تاخیر کی گنجائش آئین میں موجود ہے لیکن یہ غیرمعمولی عمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کی مدت میں توسیع حکومت نہیں کرسکتی، صرف الیکشن کمیشن کر سکتا ہے لیکن ایسا ہوا تو پھر عدالتوں میں چیلنج کیا جائے گا۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ عمران خان خود پارلیمانی سیاست سے دور ہوئے ہیں، جب آپ استعفی دے دیں تو آپ اخلاقی طور پر جا چکے ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اتنے الزامات لگاتے ہیں کہ کس کس الزام کو سنجیدہ لیا جائے، امریکا سے لے کر آصف زرداری سب پر الزام لگا چکے ہیں، اگر انہیں نااہل کیا جاتا ہے تو عدالتیں کرسکتی ہیں، حکومت یا الیکشن کمیشن انہیں نااہل نہیں کرسکتا۔

انہوں نے کہا کہ اگر عدالت کے اختیار میں جائیں تو جو انصاف کا معیار نواز شریف پر لگایا گیا ہے، اس انصاف کے معیار کے مطابق خان صاحب 10 سال کے لیے نااہل ہوجاتے ہیں۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے ریمارکس کو غیراہم قرار دیتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ جب تک اسمبلی میں اکثریت موجود ہے ایوان نامکمل نہیں کہلاتا اور حکومت کے پاس اکثریت ہوتو وہ قانون بنا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو استعفے دینے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا، ملک کے صدر اور اسپیکر سب نے مل کر جس دن آئین توڑا تو اب ان کو انتظار کرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کا کیا بیانیہ ہے، ایک دوسرے کو گالیاں دینا۔

پارٹی سے اختلاف رائے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اختلاف رائے کا اظہار پارٹی کے اندر ہونا چاہیے، وہی مناسب فورم ہے، میرے پاس ایک عہدہ تھا 2019 سے جس سے میں نے استعفی دیا تا کہ مریم نواز کھل کر کام کرسکیں۔

انہوں نے کہا کہ مفتاح اسمٰعیل نے پارٹی پر کوئی تنقید نہیں کی بلکہ معاشی نظام پر کی ہے، مصطفی نواز کھوکھر کو اگر پارٹی نے کچھ کہا ہے تو نقصان پارٹی کو ہوگا، کھوکھر کا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاست آج ایک دوسرے کو گالی دینا کا نام ہے، میں اس سیاست سے اتفاق نہیں کرتا، سیاسی مفاد کی جگہ ملکی مفاد کو دیکھنا چاہیے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مریم نواز کا وزیراعظم بننے کا جواب عوام آپ کو دے سکتے ہیں۔

سیاست دانوں کی گرفتاریوں سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ عمران خان کا دعویٰ تھا کہ میں احتساب کر رہا ہوں اور تین معاونین خصوصی رکھے تھے جو پیسے بنا کر ملک سے فرار ہو چکے ہیں اور روز کہتے تھے فلاں کو میں نے جیل بھیجا، فلاں وکٹ گرائی۔

انہوں نے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے سابق چئیرمین روتا تھا کہ میں کچھ نہیں کرر ہا تھا بلکہ عمران خان مجھ سے کرواتا تھا اور یہ ملک کے حقائق ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ مجھے جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو تعاون فراہم کیے جانے کا کوئی علم نہیں ہے، تاریخ یہ بتاتی ہے ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی کو باجوہ صاحب نے ہی عمران خان کے ساتھ لگایا تھا حالانکہ وہ ان سے تعاون کرنا نہیں چاہتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ اداروں پر یقین رکھتا ہوں وہ آئین کے مطابق کام کریں گے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کسی بھی سیاسی شخص کی گرفتاری کے حق میں نہیں ہوں، جو گرفتاریاں ہورہی ہیں اگر وہ قانون کے مطابق نہیں ہیں تو وہ غلط ہے، یہ تو عمران خان کی روایت تھی۔

ان کا کہنا تھا یہ فواد حسن فواد کا کیس سامنے ہے، ان کی ضمانت کی درخواست ملک کے چیف جسٹس نے 10 مہینے تک اپنے دفتر میں رکھی حالانکہ انصاف کرنا ان کا کام تھا، جس عدالت میں ان کا کیس تھا وہاں ڈھائی سال جج نہیں لگا، یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم دوسروں کی زندگیوں سے نہیں کھیل سکتے اور قانون کو گھر کی لونڈی نہیں بنا سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوا ہے اس کو پورا کرنا ہے، آئی ایم ایف کہتا ہے کہ ہر چیز کی قیمت خرید پوری کریں، اگر آپ آئی ایم ایف کی شرائط مانتے ہیں تو وہ معاہدہ رہتا ہے ورنہ نہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نواز شریف کے ڈاکٹر ہی بتا سکتے ہیں وہ کب تک واپس آسکتے ہیں لیکن نواز شریف کے باہر ہونے سے مسلم لیگ (ن)کو نقصان ہوگا۔

آئی سی سی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر جدیجا پر جرمانہ عائد

انسٹاگرام پر بھی پیسوں کے عوض بلیو ٹک متعارف کرائے جانے کا امکان

2018 کی سلیکشن کمیٹی ٹوٹ چکی، آپ کی کہانی ختم ہو گئی ہے، مریم نواز