جنرل باجوہ کے اعترافات نے موجودہ حکومت کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھا دیا ہے، فواد چوہدری
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ جاوید چوہدری کے کالم میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے اعترافات نے موجودہ حکومت کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھا دیا ہے، ہم پہلے دن سے کہہ رہے تھے کہ اس حکومت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور اب سابق آرمی چیف کی باتیں سامنے آنے کے بعد اس حکومت کی رہی سہی کسر بھی ختم ہوگئی ہے۔
فواد چوہدری نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سینئر صحافی جاوید چوہدری نے ایک کالم لکھا ہے کہ جس میں انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے حوالے سے تین چار اہم باتیں لکھی ہیں لیکن اس کالم میں جنرل باجوہ نے جو چار اعترافات کیے ہیں وہ بہت اہم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلی اہم بات جو اس کالم میں جنرل باجوہ نے کہی وہ یہ ہے کہ حکومت کی تبدیلی میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا، یہی بات پی ٹی آئی پہلے سے کہہ رہی تھی۔
تحریک انصاف کے رہنما نے کہا کہ دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ حکومت کی تبدیلی باہر کی حکومتوں کو خوش کرنے کے لیے کی گئی کیونکہ بڑے ملک ناراض ہوگئے تھے اور اگر ہم نہ بدلتے تو پاکستان کا نقصان ہو جاتا، ہم سعودی عرب، ترکیہ، امریکا اور متحدہ عرب امارات سمیت تمام ممالک سے قریبی تعلقات کے حامی ہیں، ہم چین کے ساتھ قریبی تعلقات کے حامی ہیں لیکن یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہمارا دوست ملک ہو یا دوست ملک نہ ہو، وہ ہمیں بتائے کہ پاکستان کے اندر حکومت کس کی ہوگی، پاکستان کے اندر حکومت کا فیصلہ پاکستان کے لوگوں نے کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سابق آرمی چیف کا یہ اعتراف پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ہے اور یہ کہنا کہ باہر کی حکومتیں خوش نہیں تھیں اس لیے ہم نے عمران خان کو تبدیل کردیا یہ بات ناقابل قبول ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اس معاملے کو کیسے آگے لے کر جائیں گے، یہ کہنا کہ پرانی حکومت خوش نہیں تھی تو ہم نے سوچا کہ اس کو تبدیل کردیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جاوید چوہدری صاحب نے جنرل باجوہ کے حوالے سے تیسری اہم بات لکھی ہے کہ ڈیل یہ ہو رہی ہے کہ نواز شریف کے مقدمات ختم ہوجائیں اور نیب سے شوکت ترین کا مقدمہ بھی آرمی چیف نے ختم کروایا، یہی بات عمران خان کہہ رہے تھے کہ نیب اور عدلیہ پر اثر و رسوخ استعمال کیا جارہا تھا اور فیصلے ہو رہے تھے کہ کس نے کیا کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اعتراف جرم بہت اہمیت کا حامل ہے اور اگر جنرل باجوہ یہ کہہ رہے ہیں کہ شوکت ترین کا مقدمہ انہوں نے ختم کروایا تو یہ پاکستان کے عدالتی نظام میں سنگین مداخلت اور بہت بڑا اعتراف ہے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ معیشت ٹھیک نہیں چل رہی تھی تو اس وجہ سے ہمیں مداخلت کرنی پڑ رہی تھی اور رضا باقر نے ان سے کہا کہ معاملات بہت خراب ہو گئے ہیں تو آپ آکر دیکھیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے بتائیے کہ کونسے ملک کا آرمی چیف، اسٹیٹ بینک کے گورنر اور وزیر خزانہ کی سوچ کو ڈیل کرتا یا اسے دیکھتا ہے، آپ معیشت کے ماہر نہیں ہیں اور اس کے بعد پچھلے نو مہینے میں جو معیشت کا حال ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جاوید چوہدری کے کالم میں باجوہ صاحب کی طرف سے جو اعترافات ہوئے ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس نے موجودہ حکومت کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھا دیا ہے، ہم پہلے دن سے کہہ رہے تھے کہ اس حکومت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے لیکن اب سابق آرمی چیف کی طرف سے یہ باتیں سامنے آئی ہیں اس سے اس حکومت کی رہی سہی کسر بھی ختم ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اسی لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے بحران کا حل صرف اور صرف نئے انتخابات میں ہے اور ہم جتنی جلدی نئے انتخابات کی طرف جائیں گے، اتنی ہی جلدی پاکستان کو بحران سے نکال پائیں گے۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر اب کافی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں، شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسمٰعیل اور اب کیپٹن صفدر نے جو باتیں کہی ہیں، ان میں وزن ہے اور ہم سیاسی جماعتوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ پاکستان میں آگے کس طرح سے قانون کی حکمرانی کی بات کریں گی۔
خیال رہے کہ معروف کالم نگار جاوید چوہدری نے گزشتہ روز مقامی روزنامہ میں ’عمران خان کی جنرل باجوہ سے دو ملاقاتیں‘ کے عنوان سے کالم تحریر کیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم کی سابق آرمی چیف سے ہونے والی دو ملاقاتوں کے تذکرے کے ساتھ ساتھ چند اہم انکشافات اور دعوے بھی کیے گئے۔
انہوں نے لکھا کہ عمران خان کی جنرل باجوہ سے پہلی ملاقات 22 اگست کو ہوئی جو بری طرح ناکام ہوئی اور دوسری ملاقات ستمبر میں ہوئی اور صدر مملکت کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود یہ ملاقات بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔
انہوں نے کالم میں دعویٰ کیا کہ جنرل باجوہ نے انہیں بتایا کہ انہوں نے عمران خان کو اسمبلی سے مستعفی ہونے سے روکا تھا اور ان سے کہا تھا کہ ’آپ اسمبلی میں رہیں، آپ کو دوسرا موقع مل جائے گا‘ لیکن عمران خان نے میرا میسج پڑھ کر جواب نہیں دیا اور یوں ان سے رابطہ ختم ہوگیا۔
کالم کے مطابق جنرل باجوہ نے کہا کہ ہم نے عمران خان کی حکومت نہیں گرائی بلکہ ہمارا جرم صرف یہ تھا کہ ہم نے ان کی حکومت بچائی کیوں نہیں، میں اگر اپنا فائدہ دیکھتا تو یہ میرے لیے سب سے سوٹ ایبل تھا لیکن میں نے ملک کے لیے اپنے امیج کی قربانی دی اور مشکل لیکن درست فیصلہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عمران خان کو شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنانے سے بھی روکا لیکن وہ نہیں مانے اور الٹا ہم سے کہہ دیا کہ ان کے خلاف کیسز ختم کروائیں اور یوں جنرل فیض حمید نے شوکت ترین کے نیب سے کیسز ختم کرائے۔