ترکیہ شام زلزلہ: اموات کی تعداد 23 ہزار کے قریب پہنچ گئی، زندہ بچنے والوں کی تلاش تاحال جاری
ترکیہ اور شام میں اس صدی کے تباہ کن زلزلے کو چار دن گزر چکے ہیں اور دونوں ممالک میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ 23 ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق 6 فروری کو 7.8 کی شدت سے آنے والے تباہ کن زلزلے میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جہاں اب تک دونوں ممالک میں تقریباً 23 ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوان نے رسیکیو حکام کو ہدایت دی ہے کہ جتنا جلدی ہو امدادی سرگرمیوں میں تیزی لائی جائے۔
ترکیہ کے ایک علاقے میں ریسکیو حکام نے ملبے سے ایک نومولود (10 دن کے بچے) اور ان کی والدہ کو زندہ نکالا جبکہ مزید لوگوں کو نکالنے کی کوششیں تیزی سے جاری ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ ترکیہ اور شام میں 23 ہزار ہلاکتوں کی تصدیق ہوچکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ترکیہ میں ہلاکتوں کی تعداد 19 ہزار 388 سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ شام میں ہلاکتوں کی تعداد 3 ہزار 377 سے زائد ہے۔
سخت سردی میں لاکھوں افراد بے گھر اور خوراک کی کمی کا شکار ہو گئے ہیں جہاں دونوں ممالک کے رہنماؤں کو زلزلے کے بعد ردعمل پر سوالات اور تنقید کا بھی سامنا ہے۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ شام اور ترکیہ میں اس وقت 8 لاکھ 74 ہزار لوگوں کو ہنگامی خوراک کی ضرورت ہے۔
شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق شام کے صدر نے زلزلے کے بعد متاثرہ علاقوں کا پہلا دورہ کیا اور پھر اپنی اہلیہ اسما کے ساتھ حلب کے ایک ہسپتال کا بھی دورہ کیا۔
ادھر ترک صدر نے صوبے ادیامان کا دورہ کیا جہاں انہوں نے اس بات کوتسلیم کیا کہ حکومت کا ردعمل اتنا تیز نہیں جتنا ہونا چاہیے تھا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ چند علاقوں میں دکانوں کی لوٹ مار بھی ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ ترک صدر رواں برس 14 مئی کو ہونے والے انتخابات میں دوبارہ حصہ لینے کے لیے پرعزم ہیں لیکن اس تباہی کی وجہ سے الیکشن اب ملتوی ہو سکتے ہیں، دوسری جانب ترک صدر کو مخالفین کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔
دونوں ممالک میں متعدد عالمی ادارے امدادی سرگرمیوں کے لیے پہنچے ہیں جہاں ادویات، خوراک، کپڑوں اور دیگر ضروری اشیا کی قلت پائی جارہی ہے۔
قبل ازیں ترکیہ اور شام میں آنے والے شدید زلزلے کے تقریباً 100 گھنٹے بعد جمعے کو بھی امدادی کارکن ملبہ ہٹاتے رہے، ایک صدی کے دوران خطے میں آنے والی بدترین آفات میں سے ایک میں ہلاکتوں کی تعداد 21ہزار تھی۔
خبر ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے امداد کی پہلی ترسیل جمعرات کو شام میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں تک پہنچی لیکن تین روز گزر جانے کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں جسے ماہرین جان بچانے کے لیے ایک اہم وقت سمجھتے ہیں۔
سخت سردی نے دونوں ممالک میں تلاش کی کوششوں میں رکاوٹیں پیدا کردی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ریسکیو ٹیمیں دن رات ایک کرکے متاثرین کو ریسکیو کر رہی ہیں، تاہم تباہی کے 80 گھنٹے بعد جنوبی ترکیہ کے شہر انتاکیا میں 16 سالہ میلڈا اتاس زندہ پائی گئیں۔
7.8 شدت کے زلزلے نے پیر کے روز اس وقت خطے کو لرزا دیا جب لوگ پر سکون نیند سو رہے تھے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم گیبریئسس اور اقوامِ متحدہ کی انسانی ہمدردی کی سربراہ مارٹن گرفتھ سمیت امدادی حکام متاثرہ خطے کے دورے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کی صدر مرجانا سپولجارک نے کہا کہ وہ حلب پہنچ چکی ہیں، کئی برسوں سے شدید لڑائی کا سامنا کرنے والی کمیونٹیز اب زلزلے کی سختی سے دوچار ہیں، جیسے ہی یہ المناک سانحہ سامنے آیا لوگوں کی مایوس کن حالت زار پر توجہ دی جانی چاہیے۔
باغیوں کے زیر اثر علاقوں میں امداد کی ترسیل
باب الحوا کراسنگ کے ایک عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ امدادی قافلے نے باغیوں کے زیر قبضہ شمال مغربی شام میں ترکیہ کی سرحد عبور کی، یہ زلزلے کے بعد اس علاقے میں پہلی ترسیل ہے۔
الحوا کراسنگ شامی حکومتی فورسز کے زیر کنٹرول علاقوں سے گزرے بغیر اقوام متحدہ کی امداد یہاں کے شہریوں تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے۔
ایک دہائی کی خانہ جنگی، شامی۔روسی فضائی بمباری سے یہاں کے ہسپتال پہلے ہی تباہ، معیشت برباد ہوچکی ہے جبکہ بجلی، ایندھن اور پانی کی قلت بھی موجود ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ ترکیہ اور شام کے درمیان سرحد پار انسانی امداد کے نئے پوائنٹس کھولنے کی اجازت دے۔
باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں رہنے والے 40 لاکھ افراد کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے تقریباً ایک دہائی قبل اختیار کردہ امدادی کارروائی کے ایک حصے کے طور پر باب الحوا کراسنگ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
انتہائی سرد موسم
زلزلے کے مرکز کے قریب واقع ترکیہ کے شہر غازی انتیپ میں درجہ حرارت جمعہ کی صبح منفی تین ڈگری سیلسیس (26 ڈگری فارن ہائیٹ) تک گر گیا۔
سردی کے باوجود ہزاروں خاندانوں کو گاڑیوں اور عارضی خیموں میں رات گزارنی پڑی، جن میں سے بہت لوگ خوفزدہ یا ان کے گھروں میں واپس جانے پر پابندی ہے۔
والدین اپنے بچوں کو کمبل میں اٹھائے شہر کی سڑکوں پر چلتے رہے کیونکہ یہ خیمے میں بیٹھنے سے زیادہ گرم تھا۔
جم، مساجد، اسکول اور کچھ اسٹورز رات کو کھل گئے تھے لیکن بستروں کی کمی ہے اور ہزاروں لوگ حرارت حاصل کرنے کے لیے گاڑیاں اسٹارٹ کر کے اس میں راتیں گزارتے ہیں۔
پیر کا زلزلہ 1939 کے بعد ترکیہ میں آنے والا سب سے بڑا زلزلہ تھا، جب مشرقی صوبہ ارزنجان میں 33 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
حکام اور طبی ماہرین نے بتایا کہ پیر کے زلزلے سے ترکیہ میں 17 ہزار 674 اور شام میں 3 ہزار 377 افراد ہلاک ہوئے، جس سے اموات کی تصدیق شدہ مجموعی تعداد 21 ہزار 51 ہوگئی ہے جبکہ ماہرین کو خدشہ ہے کہ تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہے گا۔
حکومت کی تباہی سے نمٹنے کی کوششوں پر شہری برہم
سب سے متاثرہ صوبہ ادیامان کے ایک شہری نے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ زلزلے سے نہیں مرے انہیں سردی میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
متاثرہ علاقے کے دورے کے موقع پر ترک صدر رجب طیب اردوان نے بھی تسلیم کیا تھا کہ اس آفت سے نمٹنے میں حکومت سے ’کوتاہیاں‘ ہوئی ہیں۔
مشکلات کے باوجود ہزاروں مقامی اور غیر ملکی ریسکیو سرچ ٹیموں نے مزید زندہ بچ جانے والوں کی تلاش ترک نہیں کی۔
امداد کے وعدے
ادھر چین اور امریکا سمیت درجنوں ممالک نے زلزلہ متاثرین کی مدد کا وعدہ کیا ہے۔
عالمی بینک نے کہا کہ وہ امداد اور بحالی کی کوششوں میں مدد کے لیے ترکیہ کو ایک ارب 78 کروڑ ڈالر کی امداد دے گا۔
بینک نے کہا کہ ترکیہ میں دو موجودہ منصوبوں سے 78 کروڑ ڈالر کی فوری امداد کی پیش کش کی جائے گی جبکہ متاثرہ افراد کی مدد کے لیے مزید ایک ارب ڈالر کے اقدامات تیار کیے جارہے ہیں۔
دوسری جانب فچ ریٹنگز نے کہا کہ انسانی اموات کی تعداد کے علاوہ زلزلے کی اقتصادی لاگت 2 ارب ڈالر سے تجاوز کر کر کے 4 ارب ڈالر یا اس سے زیادہ تک پہنچ سکتی ہے۔