ترکیہ، شام میں تباہ کن زلزلہ: ہلاکتوں کی تعداد 19 ہزار سے تجاوز کرگئی
ترکیہ اور شام میں 2 روز قبل آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد شدید سرد موسم نے زندہ بچ جانے والوں اور امدادی سرگرمیوں کے لیے صورتحال مزید پیچیدہ بنادی ہے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 19 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق تین روز قبل ترکیہ اور شام میں آنے والے تابہ کن زلزلے کے بعد دونوں ممالک میں ہلاکتوں کی تعداد 19 ہزار سے تجاوز کر گئی جبکہ سردی، بھوک اور مایوسی نے لاکھوں افراد کو بے گھر بنادیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایک سرکاری اہلکار نے کہا کہ زلزلے کی تباہی نے رواں برس 14 مئی کو ہونے والے انتخابات کے انعقاد کے لیے انتہائی سنگین مشکلات پیدا کر دی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ترکیہ میں ہلاکتوں کی تعداد 16 ہزار 546 ہوچکی ہے جبکہ شام میں تباہ کن زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد 3 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ترکیہ میں تقریباً 6500 عمارتیں منہدم ہوئیں ہیں اور سیکڑوں عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔
ملکی صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ آج ترکیہ میں تصدیق شدہ ہلاکتوں کی تعداد 16 ہزار 546 ہو گئی۔
ادھر پہلے ہی تقریباً 12 سال سے خانہ جنگی کی تباہی کا شکار شام میں حکومت اور باغیوں کے زیر قبضہ شمال مغرب میں بھی ہلاکتوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔
ایک ریسکیو سروس کے مطابق شام میں ابھی تک 3 ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
دونوں ممالک میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد اب 1999 میں آنے والے تباہ کن زلزلے سے بھی تجاوز کرچکی ہیں جس میں ہلاکتوں کی 17 ہزار سے زیادہ تھی۔
رپورٹ کے مطابق ترک حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے مغرب میں اڈانا سے مشرقی حصے دیار باقر تک تقریباً 450 کلومیٹر کے علاقے میں تقریباً ایک کروڑ 35 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں، تاہم شام میں زلزلے کے مرکز سے 250 کلومیٹر دور جنوب میں حما تک لوگ جاں بحق ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شام میں امدادی سرگرمیاں تنازعہ کی وجہ سے پیچیدہ ہیں جس نے ملک کو تقسیم کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے بھیجا گیا امدادی سامان باب الحوا کراسنگ پر شام میں داخل ہوا جہاں تقریباً 40 لاکھ افراد مقیم ہیں جن میں سے بہت سے جنگ سے بے گھر ہوئے تھے اور پہلے ہی امداد پر انحصار کر رہے ہیں۔
قبل ازیں خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق 7.8 شدت کے زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ امدادی سرگرمیاں لگ بھگ 72 گھنٹوں سے جاری ہیں اور قدرتی آفات کے ماہرین کے مطابق جانیں بچانے کا سب سے زیادہ امکان اس دورانیے کے اندر ہی ہوتا ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے زلزلے کے ردعمل میں اقدامات کے حوالے سے اپنی حکومت کی کارکردگی پر ہونے والی تنقید کے بعد کوتاہیوں کو تسلیم کرلیا ہے، تباہ کن زلزلے میں زندہ بچ جانے والے اپنی مدد آپ کے تحت خوراک اور پناہ گاہوں کی تلاش کے لیے مجبور ہیں۔
اس دوران بعض ایسے واقعات بھی سامنے آئے جہاں ملبے میں دبے بے بس افراد نے مدد کے لیے ریسکیو کو پکارا اور آخر کار ملبے تلے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ترکیہ کے جنوبی صوبے ہیٹے میں ایک کنڈرگارٹن اسکول کے استاد سمیر کوبان نے کہا کہ ’میرا بھتیجا، میری سالی اور اس کی بہن ابھی تک ملبے تلے دبے ہیں، وہ وہاں پھنس چکے ہیں اور وہاں زندگی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم ان تک پہنچ نہیں پارہے، ہم ان سے بات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہمیں ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں مل رہا، ہم مدد کے منتظر ہیں، اب 48 گھنٹے گزر چکے ہیں‘۔
تباہ کن زلزلے کے بعد ملبوں میں دبے زندہ بچ جانے والوں کو ریسکیو اہلکاروں کی جانب سے نکالنے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوان اور ان کی حکومت پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے جس کے بعد انہوں نے زلزلے سے شدید متاثر ہونے والے کچھ علاقوں کا دورہ کیا اور ریسکیو آپریشن میں مسائل کا اعتراف بھی کیا۔
رجب طیب اردوان نے کہا کہ ’ہاں بالکل، کچھ کوتاہیاں ہیں، حالات سب کے سامنے ہیں، اس طرح کی تباہی کے لیے پہلے سے تیار ہونا ممکن نہیں ہوتا‘۔
’اے ایف پی‘ سے وابستہ صحافیوں اور انٹرنیٹ کو مانیٹر کرنے والے ادارے ’نیٹ بلاک‘ کا کہنا ہے کہ ترکیہ کے موبائل نیٹ ورکس پر ’ٹوئٹر‘ نہیں چل رہا۔
ترک پولیس نے 18 افراد کو ’اشتعال انگیز‘ سوشل میڈیا پوسٹس پر حراست میں بھی لیا ہے جن میں حکومت کے ردعمل پر تنقید کی گئی تھی۔
حکام اور طبی ماہرین نے بتایا کہ زلزلے کے سبب اب تک ترکیہ میں 12 ہزار 391 اور شام میں لگ بھگ 2 ہزار 992 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جس سے ہلاکتوں کی کُل تعداد 15 ہزار 383 ہوگئی، ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس تعداد میں اضافہ ہوگا۔
عالمی مدد کی اپیل
بڑے پیمانے پر نقصان اور بعض علاقوں میں مدد کی کمی کی وجہ سے زندہ بچ جانے والوں نے کہا کہ وہ تباہ کن زلزلے کے ردعمل میں تنہا محسوس کر رہے ہیں۔
باغیوں کے زیر قبضہ شامی قصبے جندیرس میں حسن نامی شہری نے بتایا کہ ’جو عمارتیں نہیں گریں انہیں بھی شدید نقصان پہنچا ہے، ملبے کے نیچے اس سے اوپر موجود لوگوں سے زیادہ تعداد موجود ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہر منہدم عمارت کے نیچے تقریباً 400 سے 500 لوگ پھنسے ہوئے ہیں جبکہ صرف 10 لوگ انہیں نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کوئی مشینری بھی موجود نہیں ہے’۔
شام کے باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں ملبے تلے دبے لوگوں کو بچانے کی کوششوں کی قیادت کرنے والی تنظیم ’وائٹ ہیلمٹ‘ نے محدود وقت کے پیشِ نظر عالمی مدد کی اپیل کی ہے۔
وہ زلزلے کے بعد سے جنگ زدہ ملک شام کے شمال مغربی علاقوں میں (جو حکومت کے کنٹرول سے باہر ہیں) درجنوں عمارتوں کے ملبے کے نیچے سے زندہ بچ جانے والوں کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ایک سرکردہ عہدیدار نے شمال مغرب میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں تک امدادی رسائی کو آسان بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ امدادی ذخائر جلد ختم ہو جائیں گے۔
اقوام متحدہ کے شامی کوآرڈینیٹر المصطفیٰ بینالملیح نے بتایا کہ ’سیاست کو ایک طرف رکھیں اور ہمیں انسانیت کی بنیاد پر اپنا کام کرنے دیں‘۔