پولیس آپریشن میں مصروف ہے، چار پانچ ماہ تک الیکشن کرانا مشکل ہو گا، آئی جی پنجاب
آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے انتخابات کے دوران دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر پرامن انتخابی عمل کے لیے اضافی نفری تعیناتی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب پولیس مختلف علاقوں میں آپریشن میں مصروف ہے جو چارسے پانچ ماہ میں مکمل ہوں گے اور لہٰذا صوبے میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو پولیس آپریشن مکمل ہونے تک کرانا ایک مشکل کام ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ ضلع میانوالی میں پولیس پر حملہ کیا گیا ہے جبکہ جنوبی پنجاب کے کچہ کے علاقوں میں اور پنجاب کے دیگراضلاع میں پولیس کا آپریشن جاری ہے جو چارسے پانچ ماہ میں مکمل ہو گا لہٰذا صوبے میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو پولیس آپریشن مکمل ہونے تک کرانا ایک مشکل کام ہوگا۔
الیکشن کمیشن کا اہم اجلاس آج چیف الیکشن کمشنر جناب سکندر سلطان راجا کی زیر سربراہی منعقد ہوا جس میں الیکشن کمیشن کے اراکین کے علاوہ سیکریٹری الیکشن کمیشن، چیف سیکریٹری پنجاب، آئی جی پنجاب، سیکریٹری خزانہ اور سیکریٹری لوکل گورنمنٹ پنجاب اور الیکشن کمیشن کے سینئر افسران نے شرکت کی۔
چیف الیکشن کمشنر نے انتخابات کی شفافیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے دوران غیرجانبدار افسران کی تعیناتی انتہائی ضروری ہے لہٰذا صوبائی حکومت آئین وقانون اور ضابطہ اخلاق کی پاسداری یقینی بناتے ہوئے الیکشن کا انعقاد آزادانہ، منصفانہ اور پُرامن ماحول میں منعقد کرائے۔
اس موقع پر سیکریٹری الیکشن کمیشن نے صوبہ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے انتظامات پر بریفنگ دی۔
دوران اجلاس چیف سیکریٹری پنجاب نے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ الیکشن کمیشن کی ہدایات اور آئین وقانون کی پاسداری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے الیکشن کے شفاف انعقاد کو یقینی بنایا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات، سیکیورٹی پلان کی تیاری اور سی سی ٹی وی کیمروں کی تمام حساس پولنگ اسٹیشنوں پرتنصیب کا کام شروع کر دیا ہے جبکہ انتخابات کے دوران ہر ضلع میں کنٹرول روم بھی قائم کیا جائے گا۔
چیف سیکریٹری نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ صوبے میں دہشت گردی کا شدید خطرہ ہے، اس کے علاوہ انتخابات کے دوران ماہ رمضان آرہا ہے جس میں انتظامی افسران کو پرائس کنٹرول اور مسجدوں میں نمازیوں کے لیے حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امن وامان قائم رکھنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ انتخابات کے دوران ریلیوں اور جلسوں کی سیکیورٹی کا انتظام کرنا ہوتا ہے ۔
چیف سیکریٹری پنجاب نے رواں سال مارچ میں ہونے والی مردم شماری کا بھی تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جن انتظامی افراد، پولیس افسران اور اساتذہ کی ڈیوٹیاں انتخابات میں لگائی جاتی ہیں، وہ مردم شماری کا قومی فریضہ بھی سرانجام دے رہے ہوں گے جبکہ اسی دوران بچوں کے امتحانات اور پولیو مہم بھی ہو گی لہٰذا انتخابات کے لیے اسٹاف کی دستیابی مشکل ہوگی۔
انہوں نے انتخابات کے انعقاد کی راہ میں حائل مزید مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسی دوران ہی گند م کی خریداری کا بھی سیزن ہے اور صوبائی حکومت کے افسران کی اس کام کے لیے بھی ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں۔
صوبائی حکومت کو مالی خسارہ کا ذکر کرتے ہوئے چیف سیکریٹری پنجاب نے کہا کہ مالی خسارے کے سبب الیکشن کمیشن ترجیحی بنیادیوں پر قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک دن میں کروائے، اگر یہ ممکن نہ ہو تو موجودہ حالات میں قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک دن میں کروائے جائیں کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو انتخابات پر اخراجات تقریباً دوگنا ہو جائیں گے اور ایسی صورتحال میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی فول پروف سیکیورٹی فراہم نہیں کر سکیں گے۔
انتخابات کی سیکیورٹی پر آنے والے اخراجات کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان انتخابات میں امن وامان کو برقرار رکھنے کے لیے تقریباً 42ارب روپے درکار ہوں گے۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ صوبے میں دہشت گردی کے خطرات اور حملے بڑھ رہے ہیں، دسمبر 2022 سے اب تک دہشت گردی کے 213 واقعات ہونے سے روکے گئے جن کی ہمیں پیشگی اطلاع تھی اور پنجاب میں تقریباً تمام اضلاع میں دہشت گرد واقعات پر ایجنسی رپورٹس ہیں۔
آئی جی نے دہشت گردی سے متعلق متعدد رپورٹیں جمع کراتے ہوئے بتایا کہ بھکر، میانوالی اور ڈیرہ غازی خان میں مختلف دہشت گرد گروپس موجود ہیں، اسی طرح لاہور پولیس لائن اور میانوالی میں بہت بڑی دہشت گرد کارروئی کو روکا گیا ہے، 20سے 30افراد پر مشتمل یہ گروپس باقاعدہ تشکیل دیے جاتے ہیں جو افغانستان سے آتے ہیں اور دہشت گردی کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ صوبے میں پُرامن انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی ضرورت کے مطابق 4لاکھ 12ہزار 854 نفری درکار ہے جبکہ پنجاب پولیس کے پاس صرف 1لاکھ 15ہزارکی فورس ہے اور صوبے کی پولیس کو مزید 3لاکھ اضافی نفری کی ضرورت ہے لہٰذا اس کمی کو پورا کرنے کے لیے پاک فوج اور رینجر کی خدمات درکار ہوں گی۔
آئی جی نے پرامن انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کے لیے دوران انتخابات پاک فوج، رینجر کی اسٹیٹک ڈپلائمنٹ کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے بتایا کہ ضلع میانوالی میں پولیس پر حملہ کیا گیا ہے جبکہ جنوبی پنجاب کے کچہ کے علاقوں میں اور پنجاب کے دیگراضلاع میں پولیس کا آپریشن جاری ہے جو چارسے پانچ ماہ میں مکمل ہو گا لہٰذا صوبے میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو پولیس آپریشن مکمل ہونے تک کرانا ایک مشکل کام ہوگا۔
الیکشن کمیشن نے چیف سیکرٹری اور آئی جی کی بریفنگ کو سراہتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کو صوبائی حکومت کی مشکلات کا ادراک ہے لیکن الیکشن کا انعقاد الیکشن کمیشن کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن تمام وسائل کو بروئے کار لائے گا اور اس ضمن الیکشن کمیشن اپنا علیحدہ اجلاس کرے گا جس میں عوام کی سیکیورٹی اور الیکشن کے پُرامن انعقاد کو ملحوظ خاطر رکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز خیبر پختونخوا میں انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں منعقد ہونے والے الیکشن کمیشن کے اجلاس کے دوران آئی جی خیبر پختونخوا نے بھی انتخابی عمل کے دوران دہشت گردی کے خطرے کی نشاندہی کی تھی۔
آئی جی خیبر پختونخوا پولیس معظم جاہ انصاری نے صوبے میں انتخابات کے لیے پاک فوج اور فرنٹیئر کور کی مدد کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ انتخابات کے دوران دہشت گردی کی کارروائی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آئندہ انتخابات مکمل طور پر پُر امن ہوں گے۔
دوسری جانب آج ہی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن ’الیکشن ایکٹ 2017‘ کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کرے۔