جب آنول راستے کا سانپ بن جائے!
سائرن بجاتی ایمبولینس، اسٹریچر دھکیلتے لوگ، اپنے ہی لہو میں نہائی بے جان پڑی عورت!
یہ منظر کسی بھی ڈاکٹر کے لیے انوکھا نہیں۔
لیکن اس دن کچھ اور بھی تھا۔ مریض کے منہ میں بےہوشی کی نالی تھی اور وہ کسی پرائیویٹ اسپتال کے آپریشن تھیٹر سے لائی جارہی تھی۔
پوچھنا تو تھا ہی کہ ہوا کیا؟
’آنول نیچے تھی اس لیے سیزیرین کیا لیکن اب آنول والی جگہ سے خون نہیں رک رہا۔‘ ساتھ آئی ایک جونیئر ڈاکٹر نے ہانپتے کانپتے جواب دیا۔
آہ ہا!۔۔۔ کیا کریں ان پرائیویٹ اسپتالوں کا جو اپنی دکان کی کسمپرسی جانتے ہوئے بھی بہت کچھ ایسا کرجاتے ہیں جو نہیں کرنا چاہیے۔
مریض کو سیدھا آپریشن تھیٹر شفٹ کروایا۔ جلدی سے میز پر ڈالا، بلڈ پریشر بہت نیچے تھا۔ انیستھیٹسٹ نے دونوں طرف او نیگیٹو بلڈ شروع کیا۔ پیٹ سے کپڑا ہٹا کر دیکھا، بچہ دانی تھیلا بنی بہت سی پٹیوں میں لپٹی ہوئی تھی لیکن سب خون میں بھیگ چکی تھیں۔ سب ایک ایک کرکے باہر نکالیں۔ بچے دانی کے نچلے حصے سے آنول نکالی تو جاچکی تھی لیکن وہاں سے خون کا اخراج ابھی بھی جاری تھا۔ کچھ ٹانکوں کے نشان بھی نظر آرہے تھے۔ مریض کی رنگت کاغذ کی طرح سفید، مانو خون کا ایک قطرہ تک نہیں۔
انیستھیٹسٹ تھوڑی تھوڑی دیر سر ہلاتے ہوئے، ’آہ ہا‘ کا نعرہ بلند کر دیتے۔ کچھ دیر میں کہہ ہی دیا، ’جو کرنا ہے جلدی کرلیں حالت نازک ہے۔‘
سیزیرین کرنے والی ڈاکٹر نے خون روکنے کے لیے ٹانکے تو لگائے تھے لیکن خون کا اخراج بہت زیادہ تھا۔ بچے دانی کو خون پہنچانے والی شریانیں بھی باندھی جاچکی تھیں لیکن مریضہ کا خون بہت ضائع ہوچکا تھا، بلڈ پریشر مسلسل نیچے گر رہا تھا۔ اب ایک ہی صورت بچی تھی۔
’ہم بچے دانی نکالنے جارہے ہیں،‘ ہم نے اعلان کیا۔
’میم، کم از کم 6 بوتلیں لال خون اور 6 بوتلیں سفید خون کی منگوالیں،‘ انیستھیٹسٹ کی آواز آئی، ’ہیموگلوبن 5 ہے‘۔
’اُف خدایا! ہیموگلوبن 5۔۔۔ لگتا ہے سارا خون تو اس اسپتال میں ہی بہہ گیا۔ ایسے کیس پرائیویٹ والے چھیڑتے ہی کیوں ہیں اگر انتظام نہیں ہوتا؟‘ ہم چلائے۔
’میم جی، پیسہ۔۔۔‘
’اُف خدایا! اور اس عورت کے 5 بچے۔۔۔ کچھ ہوگیا تو ان کا کیا ہوگا؟‘
’سمجھ نہیں آتا، اتنے بچے کیوں چاہئیں؟ ماں کی زندگی داؤ پر لگاکر۔۔۔‘
ہمارا پارا چڑھ چکا تھا۔
اللہ کا نام لیا اور بچے دانی نکالنے کا آغاز کیا۔ آنول نیچے ہونے کی صورت میں جو خون رکنے کا نام نہیں لیتا اس کا منبع بچے دانی کو خون پہنچانے والی شریان اور ویجائنا کی شریان ہوتی ہیں اس لیے اگر بچے دانی والی شریان باندھ بھی دیں تو ویجائنا والی شریان سے خون آتا رہتا ہے۔ جان بچانے کا واحد حل بچے دانی نکالنا ہی ہوتا ہے، اس کے بغیر ویجائنا والی شریان تک پہنچنا مشکل ہے۔
جب تک بچے دانی نکالی، 8، 10 بوتلیں خون دیا جاچکا تھا۔ بلڈ پریشر کچھ بہتر تھا لیکن اب انیستھیٹسٹ کے چہرے پر کچھ اور ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔
’لگتا ہے مریضہ ڈی آئی سی میں جا رہی ہے۔‘
’اف خدایا! نہیں۔۔۔ اللہ نہ کرے۔۔۔۔‘ آوازوں کا ایک شور۔
ڈی آئی سی ایک ایسا عفریت ہے جو ڈاکٹر کے ہاتھ سے اپنا شکار چھین کرلے جاتا ہے۔ مریض کا خون اتنا پتلا ہوجاتا ہے کہ جہاں سوئی لگائی، لگا بہنے خون۔
ڈی آئی سی میں جانے کی سب سے بڑی وجہ خون کا ضائع ہونا، طویل سرجری اور آنول کا نیچے ہونا ہے۔ایسی آنول کو پلیسنٹا پریویا (placenta previa) کہا جاتا ہے، پلیسنٹا پریویا میجر اورپلیسنٹا پریویا مائنر۔
حمل کے آغاز میں آنول رحم یا بچے دانی کے نچلے حصے میں ہوسکتی ہے جو 9 ویں مہینے میں جاکر اوپر چلی جاتی ہے کیونکہ رحم کا حجم بڑھتا رہتا ہے۔ اس لیے 9 ویں مہینے کے آغاز میں الٹراساؤنڈ کروانا لازم ہے جو آنول کے مقام کی ٹھیک ٹھیک نشان دہی کرے۔
میجر آنول، رحم کا منہ یعنی سروکس پوری طرح بند کردیتی ہے اور ایسی صورت میں بچہ کبھی بھی طبعی طور پر پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس کا سیزیرین ہی حل ہے۔
آنول مائنر، گو کہ رحم کے منہ کو پوری طرح سے بند نہیں کرتی لیکن پھر بھی زچگی مشکل ہوتی ہے اور زچہ کی زندگی خطرے میں ہوتی ہے اگر ڈاکٹر قابل نہ ہو تو۔
آنول میجر کا سیزیرین بڑے اسپتال اور بڑی ڈاکٹر کے ہاتھوں ہونا چاہیے اس لیے کہ اگر خون نہ رکے تو وہاں کے انتظامات اور ڈاکٹر کا تجربہ زچہ کو بچا سکے۔
آپ سوچ سکتے ہیں کہ اگر آنول میجر اس قدر خطرناک ہے تو چھوٹے اسپتال اور کم تجربہ کار ڈاکٹر کیوں ایسے کیس لیتے ہیں؟
جواب ایک ہی ہے، لالچ، صورتحال کی سنگینی سے لاعلمی اور حکومت کی طرف سے کسی بھی گائیڈلائن کا نہ ہونا۔ ہم سے تو یہ ملک اچھے کہ ڈاکٹر اور اسپتال کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہوتی ہے اگر کوئی زچہ ڈاکٹر یا اسپتال کی غلطی سے موت کی سرحد عبور کرلے۔ اگر ڈاکٹر کی جیب میں پیسے اچھے آتے ہیں تو پوچھ گچھ بھی اتنی ہی ہوتی ہے۔
بچے دانی نکل گئی، لیکن اب مریضہ کا خون پتلا ہوچکا تھا۔ پرائیویٹ اسپتال نے موت کے منہ میں دھکیل کر ہی بھیجا تھا۔
’ہم اسے آئی سی یو لےکر جارہے ہیں،‘ انیستھیٹسٹ نے اعلان کیا۔
ہم تھکے تھکے دستانے اتارتے ہوئے ایک طرف بیٹھ گئے۔ کچھ اس طرح کا عالم تھا کہ
بھیگی ہوئی اک شام کی دہلیز پہ بیٹھے
ہم دل کے سلگنے کا سبب سوچ رہے ہیں
لیکن سبب تو معلوم تھا سلگنے کا۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی پیشے کے اعتبار سے کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ہیں۔ آپ اردو بلاگ نگاری اور پنجابی زبان میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ آپ کی دو کتابیں بعنوان 'مجھے فیمینسٹ نہ کہو' اور 'کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ' بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آپ نے گائنی فیمنزم کا خیال پیش کیا ہے۔ آپ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو اس وقت تک بااختیار نہیں بنایا جاسکتا جب تک وہ معاشرتی ممنوعات کو توڑتے ہوئے اپنے جسم کے بارے میں کھل کر بات نہ کرسکیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔