پاکستان

’40 فیصد خواتین اپنی زندگی میں تشدد کا نشانہ بنیں‘

صوبائی قواعد تاحال زیر التوا ہیں، گھریلو تشدد کی روک تھام، تحفظ ایکٹ سندھ 2013 کے تحت پہلی سزا ملنے میں 6 سال لگے، چیئرپرسن این سی ایچ آر

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) نے گھریلو تشدد کے رپورٹ ہونے والے واقعات میں مسلسل اضافے کے خلاف پالیسی سازی اور قانونی معاونت کے لیے اہم شراکت داروں کے درمیان ممکنہ تعاون پر تبادلہ خیال کے لیے مشاورتی سیمینار کا انعقاد کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیمینار کے شرکا نے نشاندہی کی کہ صرف 2021 میں پاکستان میں صنفی بنیاد پر تشدد کے 14 ہزار 189 کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔

سیمینار کی سربراہی این سی ایچ آر کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا نے کی، اجلاس میں سول سوسائٹی کی تنظیموں، اقوام متحدہ اور عالمی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔

شرکا نے گھریلو تشدد کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مسئلے کو ہر سطح پر حل کرنے کے لیے منظم کوششوں پر زور دیا۔

مسئلے سے متعلق دی گئی بریفنگ میں شرکا کو بتایا گیا کہ خواتین کے خلاف ہونے والا گھریلو تشدد خاندان کے کسی فرد یا شوہر کی جانب سے ایسے فعل کو قرار دیا گیا جس میں جسمانی نقصان یا نفسیاتی تکلیف پہنچائی گئی ہو۔

مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ 40 فیصد خواتین کو اپنی زندگی میں جسمانی یا جذباتی تشدد کا سامنا کرنا پڑا، طلاق یافتہ، بیوہ اور علیحدہ ہونے والی خواتین کو شادی شدہ خواتین کے مقابلے زیادہ تشدد کا سامنا کرنا پڑا جب کہ گھریلو تشدد صرف ازدواجی تعلقات تک محدود نہیں تھا۔

پاکستان کے لیے آخری ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے (ڈی ایچ ایس) میں انکشاف کیا گیا کہ 15 سے 49 سال کی عمر کی 39 فیصد خواتین اپنی زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں انٹی میٹ پارٹنر وائلنس (آئی پی وی) کا نشانہ بنیں۔

قانونی فریم ورک کے حوالے سے شرکا کو بتایا گیا کہ پنجاب پروٹیکشن آف ویمن اگینسٹ وائلنس ایکٹ 2016، ڈومیسٹک وائلنس پریونشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ سندھ 2013 اور ڈومیسٹک وائلنس پریونشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ بلوچستان 2014 سمیت 3 قوانین موجود ہیں جب کہ ڈومیسٹک وائلنس اینڈ پروٹیکشن ایکٹ 2020 زیر التوا ہے۔

رابعہ جویری آغا نے کہا کہ صوبائی رولز کے قواعد ابھی زیر التوا ہیں، سندھ میں گھریلو تشدد کی روک تھام اور تحفظ ایکٹ سندھ 2013 کے تحت پہلی سزا ملنے میں 6 سال لگے۔

انہوں نے مزید کہا کہ گھریلو تشدد پر قابو پانے میں بنیادی مشکلات اس کو سماجی سطح پر تشدد نہ سمجھنا، ایف آئی آرز کے اندراج میں مشکلات، خواتین کی قانونی معلومات میں کمی، عدالتی نظام کا خوف اور متاثرین کی مالی آزادی کا فقدان ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان مسائل و مشکلات کے علاوہ گھریلو تشدد کی صورت میں پناہ کے لیے پناہ گاہوں کی کمی، خواتین پولیس اہلکاروں کی کم تعداد بھی خواتین کو فیصلہ لینے سے روکنے کا باعث بنتی ہے۔

کمیشن کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ این سی ایچ آر نے گھریلو تشدد پر جامع پالیسی تیار کرلی ہے اور پنجاب میں خواتین کے شادی کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہیلپ لائن (1413) کا آغاز کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ این سی ایچ آر کے پاس شکایات کو دور کرنے کا طریقہ کار موجود ہے اور وہ سندھ اور بلوچستان میں گھریلو تشدد کے صوبائی قوانین اور ان پر عمل درآمد کرنے کا فالو اَپ کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کمیشن گھریلو تشدد کے خلاف مقامی ملکی قوانین اور اسلامی فقہ پر مبنی مہم چلا رہا ہے۔

ایک ساتھ جلوہ گر ہونے کیلئے خاص فلم کا انتظار تھا، شاہ رخ اور سلمان کا ’پٹھان‘ پر ردعمل

نجم سیٹھی کا پاک-افغان ٹی 20 سیریز کا اعلان

سکھر: گداگر خاتون پر تشدد کرنے والے پولیس افسر کی گرفتاری کیلئے ٹیم تشکیل