پاکستان

پرویز مشرف کی وفات پر سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کا ملاجلا ردعمل

سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے انتقال پر سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کے ساتھ ساتھ سرحد پار سے بھی مختلف شخصیات نے انتقال پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔

سابق صدر مملکت اور فوجی آمر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف آج طویل علالت کے بعد متحدہ عرب امارات میں انتقال کر گئے اور ان کے انتقال پر سیاستدانوں، تجزیہ کاروں اور صحافیوں نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

ان کے انتقال کی خبر کی تصدیق کے بعد سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کے ساتھ ساتھ سرحد پار سے بھی مختلف شخصیات نے ٹوئٹر پر ان کے انتقال پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔

تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر پیغام میں کہا کہ پرویز مشرف انتقال بہت بڑے انسان تھے لیکن ان کے دوست چھوٹے ثابت ہوئے، پاکستان فرسٹ ہمیشہ ان کی سوچ اور نظریہ تھا، خدا غریق رحمت کرے۔

تاہم تحریک انصاف کے ایک اور رہنما حماد اظہر نے مختلف رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مشرف ایک فوجی آمر اور طاقت کے نشے میں چور انسان تھے، انہوں نے کسی احتساب کے بغیر غلطیاں کیں جس کی قیمت پاکستان اب تک چکا رہا ہے۔

حماد اظہر نے مزید کہا کہ مشرف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی موجودہ حکومت سے زیادہ جمہوری تھے اور ان سے زیادہ انسانیت تھی۔

پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سابق صدر کے انتقال پر کسی قسم کے تبصرے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف انتقال کر چکے ہیں، اب یہ ان کے اور خدا کے درمیان کا معاملہ ہے۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ سابق آمر کی تدفین کے عمل کو سادہ، نجی اور باوقار رکھا جائے، ان کے جسد خاکی کو قومی جھنڈے میں لپیٹ کر تدفین نہیں کری چاہیے، آئین، عوام اور پارلیمنٹ کی کوئی توہین نہیں چاہے، پھر چاہے وہ آج کمزور اور بے بس ہی کیوں نہ ہوں۔

فرحت اللہ بابر نے کا کہ آج ایک خیال ذہن میں چھپا ہوا ہے اور دماغ سے نکلنے سے انکاری ہے، کچھ مر جاتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے مر جاتے ہیں لیکن کچھ مر تو جاتے ہیں لیکن ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، شہید بے نظیر انہی میں سے ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے کہا کہ میں مشرف کی تعریف نہیں کر سکتا تو مرنے کے بعد ان پر تنقید نہ ہی کروں تو بہتر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اکبر بگٹی اور محترمہ بینظیر بھٹو کا قتل تاریخ میں ان سے جڑا رہے گا، اگر وہ اپنی زندگی میں ان دو داغوں سے اپنا دامن صاف کر لیتے تو بہت اچھا ہوتا۔

صحافی مظہر عباس نے پرویز مشرف کے انتقال کو ایک عہد کا اختتام قرار دیا۔

صحافی سلمان مسعود نے کہا کہ جنرل مشرف کے انتقال کی خبر ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب ملک میں سیاسی عدم استحکام عروج پر ہے، سابق فوجی سربراہ جنرل باجوہ کی سیاست میں مداخلت اور عمران خان کی سیاسی جماعت سے ٹکراؤ کے بعد فوجی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے اور سیاست میں فوج کے کردار کے حوالے سے سوالات کھڑے ہوئے ہیں۔

بھارتی صحافی مالنی پرتھاسراتھی نے پرویز مشرف کو ایک مضبوط شخص قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہاں تک کہ جب وہ فوجی طاقت کا استعمال کررہے تھے تو وہ چاہتے تھے کہ ہدنوستان کی جانب سے سراہا جائے، مجھے ان کا انٹرویو کرنے والی پہلا بھارتی صحافی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

پاکستان کے دیگر تجزیہ کاروں اور صحافیوں کے برعکس معروف وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مشرف کے لیے دعا کرتے ہوئے ان کی زندگی کے مثبت پہلوؤں کا ذکر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پولیس اصلاحات، آزاد میڈیا، بلدیاتی حکومتوں کی حوصلہ افزائی، فن، ثقافت اور تعلیم کو فروغ دینا اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو بااختیار بنانا مشرف کی میراث کے مثبت پہلو ہیں اور انہوں نے پاکستان کے لیے خوشحالی اور ترقی کی راہیں کھولیں۔

انہوں نے سنگین غداری کیس میں مشرف پر عائد فرد جرم کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کو پھانسی کی سزا دینا اور ان کی لاش کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا حکم دینے پر مجھے شدید غصہ آیا تھا، میں نے ان کا دفاع کیا اور ہائی کورٹ کی جانب سے سنائے گئے اس فیصلے کو غیرقانونی قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

کشمیری رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے پرویز مشرف کے انتقال پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کے اہلخانہ سے بھی اظہار تعزیت کیا۔

بھارتی سیاستدان اور مصنف ششی تھرو نے بھی مشرف کے انتقال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ مشرف ایک زمانے میں بھارت کے دشمن تھے لیکن وہ 2002-2007 تک قیام امن کے لیے حقیقی طاقت بن گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں ان دنوں اقوام متحدہ میں ان سے سالانہ بنیادوں پر ملتا تھا اور ان کی اسٹریٹیجک سوچ میں بہت واضح اور اسمارٹ تھے۔