برطانیہ: تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے پر حکومت کو ہیلتھ ورکرز کی سب سے بڑی ہڑتال کا سامنا
برطانیہ میں تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کے خلاف ہیلتھ ورکرز کی جانب سے اب تک کی سب سے بڑی ہڑتال جاری ہے جس کی وجہ سے صحت کے نظام میں شدید خلل پیدا ہوا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق نرسیں اور ایمبولینس ورکرز گزشتہ سال سے باری باری احتجاجی مظاہرے کرتے رہے ہیں لیکن گزشتہ ہفتے سے ہونے والا احتجاج برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کی 75 سالہ تاریخ میں سب سے بڑا ہے۔
برطانیہ میں بڑھتی تاریخی مہنگائی کی وجہ سے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے ورکروں کی جانب سے احتجاج اور ہڑتال کا سلسلہ جاری ہے جہاں پیر کو ہزاروں ایمبولینس ملازمین انگلینڈ اور ویلز میں ایک بار پھر ہڑتال پر چلے گئے تھے۔
برطانیہ حکومت کے ساتھ تنخواہوں کے معاملے پر بڑھتے ہوئے تنازع کی وجہ سے ہیلتھ ورکرز کی جانب سے اب تک کی سب سے بڑی ہڑتال کی جارہی جس میں ہزاروں نرسیں اور ایمبولینس ورکرز سڑکوں پر نکل آئے ہیں جس سے صحت کے پہلے سے ہی مشکلات کے نظام میں مزید خلل پیدا ہوگیا ہے۔
انگلینڈ کے ٹاپ ڈاکٹر اسٹیفن پوئس نے کہا کہ رواں ہفتے ہونے والے احتجاج میں فزیو تھراپسٹس کا واک آؤٹ بھی شامل ہوگا جو کہ اب تک کا سب سے خلل پیدا کرنے والا احتجاج ہے۔
خیال رہے کہ برطانیہ میں ہیلتھ ورکرز تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں جو کہ چار دہائیوں میں بدترین افراط زر کی عکاسی ہے جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ اضافہ ناقابل برداشت ہو گا اور اس عمل سے قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا جس کے نتیجے میں شرح سود اور قرض کی ادائیگیوں میں مزید اضافہ ہو گا۔
ایمبولینس سروس سے وابستہ ملازمین نے گزشتہ سال 21 دسمبر کو ہڑتال کے اس سلسلے کا آغاز کیا تھا جب کہ فروری کے مہینے میں بھی مزید ہڑتالوں کی تاریخیں طے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ہیلتھ ورکرز کے تقریباً 5 لاکھ افراد جن میں سے زیادہ تر پبلک سیکٹر سے ہیں وہ گزشتہ برس سے ہڑتالیں کر رہے ہیں جس سے وزیر اعظم پر تنازعات کو حل کرنے کے لیے دباؤ پڑ رہا ہے۔
یونائیٹ یونین کی رہنما شیرون گراہم نے بتایا کہ وہ چاہتی ہیں کہ وزیراعٖظم مذاکرات کی میز پر آئیں، انہوں نے حکومت پر ایمبولینس ورکرز کے بارے میں جھوٹ بولنے کا بھی الزام عائد کیا اور کہا کہ یہ حکومت لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہی ہے۔
خیال رہے کہ اب تک کی سب سے بڑی ہڑتال کی وجہ سے نیشنل ہیلتھ سروسز شدید دباؤ کا شکار ہے جہاں آپریشن کے لیے لاکھوں مریض انتظار میں ہیں اور ہر ماہ ہزاروں افراد ایمرجنی سروسز حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔
ادھر رائل کالج آف نرسنگ کا کہنا ہے کہ ایک دہائی سے کم تنخواہ نے ہزاروں نرسوں کو پیشہ چھوڑنے پر مجبور کردیا ہے جہاں گزشتہ سال 25 ہزار نرسز نے ملازمتیں چھوڑ دی ہیں اور عملے کی شدید قلت سے مریضوں کو تکلیف کا سامنا ہے۔
ہیلتھ ورکرز نے ابتدائی طور پر مہنگائی کے باعث تنخواہوں میں پانچ فیصد اضافہ کرنے کا کہا تھا مگر حکومت کی طرف سے تاحال ان کے مطالبے پر عمل نہیں کیا گیا جکہ دونوں طرف سے متعد بار مذاکرات بھی ہوچکے ہیں۔
دریں اثنا جی ایم بی اور یونائیٹ ٹریڈ یونینز کی نمائندگی کرنے والے ایمبولینس ورکرز بھی اپنی تنخواہ کے تنازعہ پر کل ہڑتال کرنے جارہے ہیں جبکہ ویلز میں نرسوں اور کچھ ایمبولینس کارکنوں نے پیر کو ہوانے والی ہڑتال ختم کر دی ہے کیونکہ وہ ویلش حکومت کی جانب سے تنخواہ کی پیشکشوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
وزیراعظم رشی سوناک نے گزشتہ ہفتے ایک ٹاک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ نرسوں کی تنخواہوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ نیشنل ہیلتھ سرسوز کو دیگر شعبوں میں بھی مالی امداد فراہم کر رہی ہیں۔