’گھر کی ڈھولکی‘ اور سادہ شادیوں کے دن اب گزر چکے ہیں’
ستمبر 2022ء میں 23 سالہ آئرہ کی منگنی ہوئی تو وہ بہت خوش تھی۔ لیکن پھر اسے معلوم ہوا کہ اس کی شادی کی تاریخ دسمبر کے مہینے میں طے ہوئی ہے۔ دیسی شادیوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو اتنا وقت پلک جھپکتے میں ہی گزرجاتا ہے۔ وہ چند سال قبل اپنی بہن کی شادی کے انتظامات بھی کرچکی تھی اس وجہ سے اسے امید تھی کہ وہ اپنی شادی کے انتظامات بھی وقت پر کرلے گی لیکن یہ کام اس کی سوچ سے زیادہ مشکل تھا۔
اب موڈ بورڈز، میٹنگز اور نمونے دیکھنے کی باری تھی۔ آئرہ کے لیے اس شادی کو ایک شاہی تقریب ہونا تھا، کیٹ مڈلٹن جیسی شاہی شادی نہیں بلکہ ہماری اپنی مغل تاریخ جیسی شاہی شادی۔ اس شادی میں ہر چیز کو کسی پہیلی کے مختلف حصوں کی طرح ایک تال میل میں ہونا تھا۔ سورج ڈھلتے ہونے والی نکاح کی تقریب کو مائیوں کی تقریب میں تبدیل ہونا تھا جو اگلی صبح تک چلتی، ظاہر ہے اس دوران مختلف تقاریب کے لیے مختلف کپڑوں کا انتظام بھی ہوتا۔ ساتھ مہندی پر رقص ایسا ہونا تھا کہ کسی بھی بولی وڈ فلم کو ٹکر دے سکے اور اس کے بعد ایک بہترین رخصتی ہوتی۔
آئرہ اس کام میں اکیلی نہیں تھی۔ ’دسمبرستان‘ سال کا سب سے اہم وقت ہوتا ہے۔ بچے، بوڑھے، طالب علم، سیاح سب ہی اس طرح شادیوں میں شرکت کے لیے جمع ہوتے ہیں جیسے ان کی زندگیوں کا دارو مدار ہی اس پر ہو۔ یہ شادی سیزن جو پہلے صرف دسمبر تک ہی محدود تھا اب تقریباً پورے موسم سرما تک پھیل گیا ہے۔ ایک معروف ڈیزائنر نے آئرہ کو بتایا کہ انہیں صرف دسمبر اور رواں سال جنوری کے لیے 400 عروسی جوڑے تیار کرنے ہیں۔
ہنگامی کام
شادی میں صرف 3 ماہ باقی تھے، اکثر لوگ شادی سیزن کے اختتام تک دستیاب نہیں تھے اور ابھی کئی موڈ بورڈز باقی تھے، ایسے میں آئرہ نے اپنی سہیلیوں کی مدد لی۔ اس کی دونوں بہنیں امریکا میں تھیں اور وہ شادی سے ایک ہفتہ قبل ہی آسکتی تھیں۔ یوں کپڑوں کے انتخاب، رنگوں کے تعین اور کچھ سرپرائز کے لیے واٹس ایپ گروپ تشکیل پائے۔ پھر بھی بہت کچھ باقی تھا اور آئرہ ان کاموں میں مدد کے لیے اپنی سہیلیوں پر منحصر تھی۔
آئرہ کو یاد آیا کہ ایک خاص ڈانس پریکٹس میں وہ معمول سے زیادہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئی تھی۔ درزی متعین وقت سے چند گھنٹے بعد کپڑے دینے آیا تھا۔ یعنی کہ وہ اس وقت آیا جب آئرہ کے زیادہ تر دوست مہندی کے رقص کی آخری ریہرسل کے لیے جمع ہوئے تھے۔ درزی نے یہ خبر بھی دی کہ آئرہ کا مہندی کا لباس وقت پر تیار نہیں ہوسکتا ہے، یوں ایک اور پریشانی کھڑی ہوگئی۔
جس دوران آئرہ اس مسئلے سے نمٹ رہی تھی اس دوران اس کی بہن، جو کہ ایک دن پہلے ہی امریکا سے آئی تھیں اور تھکان کا شکار تھیں، آئرہ کے لیے پھولوں کے زیورات کے ڈیزائن طے کررہی تھیں۔ آئرہ خود بتاتی ہے کہ اس کے لیے کسی چیز کا اہتمام کرنا بہت مشکل کام ہے۔
آئرہ کے دوستوں نے اس کے لیے ایک سرپرائز برائڈل شاور رکھا تھا جس میں کئی طرح کے کھیل اور بہت کچھ تھا لیکن اس کے شروع ہونے میں امید سے کچھ زیادہ ہی وقت لگ گیا۔
آئرہ نے ای او ایس کو بتایا ’میری بہن کو مجھے اس بات پر راضی کرنے میں ایک گھنٹا لگا کہ ہم ایک ’فیملی فوٹو شوٹ‘ کررہے ہیں، دراصل مجھے تیار کرنے کی ذمہ داری اس کی تھی اور میں بار بار سوال کیے جارہی تھی اور اس سے بچنے کے لیے بہانے بنائے جارہی تھی۔ لیکن جب ہم وہاں پہنچے تو مجھے احساس ہوا کہ میرے دوستوں نے میرے لیے برائڈل شاور کا اہتمام کیا ہے‘۔
خاندان کی شادی
شادی سے قبل کے کچھ مہینے صرف آئرہ کے لیے تھے۔ اگرچہ آئرہ ہمیشہ سے جانتی تھی کہ وہ ایک خاص قسم کی شادی چاہتی ہے، لیکن جب تیاریاں شروع ہوئیں تو اچانک بہت سارے سوالیہ نشانات سامنے آگئے۔ آئرہ نے محسوس کیا کہ اس کی تمام منصوبہ بندی میں صرف وہ شامل ہے، لیکن دیسی شادی کبھی بھی ایک شخص کے گرد مرکوز نہیں ہوتی۔ اس کے بجائے اس کے خاندان کے ہر فرد اور اس کے دوستوں کے اپنے اپنے خیالات تھے کہ وہ اس کی شادی میں کیا کرنا چاہتے ہیں۔
اپنے پیاروں کو ’نہ‘ کہنا مشکل ہوتا ہے۔ ساری زندگی اپنے پیاروں کی شادیوں میں شرکت کرنے کے بعد، وہ اپنی شادی دوسروں سے مختلف ہونے کی امید کیسے کرسکتی تھی؟
لیکن دسمبرستان کی تھکادینے والی تقاریب میں مضبوط ترین لوگ بھی ہار مان لیتے ہیں۔ اس شادی میں آئرہ کے دوست سر درد کا شکار ہوئے، کئی کپڑے خراب ہوئے، ایونٹ پلانر نے کچھ گڑبڑ کی اور کئی غیر مربوط اعلانات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سب کے بعد آئرہ بتاتی ہے کہ کسی اتنی بڑی چیز کا اچانک ختم ہونا کتنا غیر حقیقی سا لگتا ہے۔
آئرہ نے بتایا کہ ’میرے ذہن میں ہمشہ سے ایک تصور تھا کہ میری شادی کیسی ہوگی۔
’اب جب میں ان ساری تفصیلات پر غور کرتی ہوں، تصاویر کو دیکھتی ہوں تو یقین نہیں آتا ہے کہ میری شادی بھی اب ہوچکی ہے۔ ہم زندگی بھر شادیوں کو دیکھتے ہیں اور اپنی شادی کی تیاریوں کے بارے میں سوچتے ہیں، کم از کم میں نے تو ایسا کیا تھا اور یہ ہوبھی گیا۔ اب جبکہ تمام ہلہ گلہ ختم ہوگیا ہے تو مجھے یہ خاموشی اس بات کو سراہنے پر مجبور کرتی ہے‘۔
جو بھی اس شادی میں شریک ہوا اسے ایسا لگتا ہے کہ دلہن کو وہ سب کچھ مل گیا جو وہ اپنی شادی میں چاہتی تھی۔ اگرچہ آئرہ کو بہت زیادہ خوشی ہوئی لیکن وہ باآسانی آپ کو وہ تمام چھوٹی چھوٹی چیزیں بتا سکتی ہے جو وہ اپنی شادی میں کرنا چاہتی تھی لیکن نہیں کرسکی۔
اس بات پر توجہ مرکوز کرنا آسان ہے کہ ایونٹ پلانر نے کیا نہیں کیا، وہ دوست جو شرکت نہیں کرسکے اور وہ معمولی چیزیں جو نہیں ہوسکیں۔ جب وہ اپنی شادی کو یاد کرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے میڈیکل اسکول کے آخری سال کے امتحانات کی تیاری کرتی ہے، تو وہ سوچتی ہے کہ جو کچھ نہیں ہوا اس پر توجہ دینا اتنا آسان کیوں ہے اگرچہ وہ تسلیم کرتی ہے کہ شادی میں بہت کچھ درست ہوا تھا۔
آئرہ کی شادی میں بہت زیادہ موسیقی اور رقص شامل تھا۔ بہترین پریکٹس سے لے کر جس کے لیے کوریوگرافر کی ضرورت نہیں تھی، آئرہ کے ڈانس تک، سب کچھ اس کے لیے تھا۔ لیکن ایک مسئلہ بھی تھا۔
اس قسم کے تبصرے مسلسل ہورہے تھے کہ اسے اپنی شادی پر ڈانس نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ مہمانوں کو اچھا نہیں لگے گا۔ اگرچہ آئرہ کو اپنے فیصلے پر اعتماد تھا لیکن پھر بھی یہ تبصرے اس پر اثر انداز ہوئے۔
آئرہ نے اپنے پسندیدہ ڈانس کیے لیکن یہ دباؤ اس بات کی یاددہانی تھا کہ شادیوں میں کتنی توقعات اور رجحانات کا خیال رکھنا پڑتا ہے تاہم جو لوگ اس سے آزاد ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ان کے لیے واقعی کچھ جادوئی ہوسکتا ہے۔
ویڈنگ ٹیک اوور
ہر شادی، بشمول عائرہ کی شادی، اس جوڑے کے لیے منفرد ہوتی ہے جو اس کی تیاری کرتا ہے، لیکن ان تمام مماثلتوں پر نظر ڈالنا بھی دلچسپ ہے جو ہم ان دنوں دیکھ رہے ہیں۔ آئرہ واحد دلہن نہیں ہے جس نے ایسا محسوس کیا ہے کہ اسے شادی کی منصوبہ بندی پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے باقی سب کچھ ایک طرف کرنا پڑا ہے۔
شادی کے اس سیزن میں ’انسٹاگرام ویڈنگز‘ نے اس بات کی وضاحت کرنا شروع کر دی ہے کہ ہم کون ہیں اور خود کے لیے اور ایک دوسرے کے لیے کیا حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ بات ہم سب پر بہت واضح ہے کہ ’گھر کی ڈھولکی‘ اور سادہ شادیوں کے دن اب گزر چکے ہیں اور چاہے یہ کورونا کے بعد کا رجحان ہو، سوشل میڈیا کا اثر جو ہرچیز کو بہت بڑا بنا رہا ہے یا مکمل طور پر کچھ اور، ایسا لگتا ہے کہ ہر کوئی یہی سوچ رہا ہے کہ شادی کا سیزن اتنا اہم کیوں ہوگیا ہے۔
میں جہاں بھی جاتی ہوں وہاں لوگوں کو یہی باتیں کرتے سنتی ہوں کہ وہ شادیوں میں جاجا کر تھک چکے ہیں لیکن شادیاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ تو آخر شادیوں میں ایسا کیا ہے کہ ہم ان کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں؟ آخر ہم میں سے اکثر لوگ کو کیوں شادیاں اچھی بھی لگتی ہیں اور بری بھی؟
ماریہ* لاہور میں ایک ایونٹ کمپنی کی مالک ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’شادی کی تقریبات ہمارے معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں کیونکہ شادی تو سب نے کرنی ہے۔ ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ یہ کیسے کرنی ہے‘۔
ان کے مطابق شادیاں سماجی اور معاشی حوالے سے ہمارے معاشرے میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ ان میں شرکت کے لیے دنیا بھر میں رہنے والے لوگ وطن واپس آتے ہیں، ان سے نئے تعلقات بنتے ہیں اور شادی کی تقریبات سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔
علینا بھی اس وقت اپنی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور ان کی شادی کے حوالے سے تقریبات مارچ کے آخر تک جاری رہیں گی۔ وہ اس وقت بہت مصرف ہیں، ان کا اکثر وقت گاڑی میں سفر کرتے ہوئے گزرتا ہے اور جب کبھی وہ اپنا فون دیکھتی ہیں تو انہیں شادیوں کی مزید تصاویر نظر آتی ہیں۔
ان کی توجہ اپنے دوستوں اور رشتے داروں پر ہے اور وہ مہمانوں کے انتخاب میں بہت احتیاط کررہی ہیں تاکہ وہ اپنے پیاروں کے ساتھ اپنی شادی انجوائے کرسکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ظاہر ہے کہ ایک بڑی تقریب بھی ہوگی کیونکہ میرے والدین نے مجھے یاد دلوایا ہے کہ یہ ان کی بیٹی کی شادی بھی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ انہوں نے اس بارے میں جو کچھ سوچ رکھا ہے وہ واقعی ہو‘۔
جب وہ شادی کے ملبوسات کی آزمائش سے واپس آئیں تو وہ یہ سوچ رہی تھیں کہ آخر کیوں وہ کچھ مخصوص رجحانات کی جانب راغب ہورہی ہیں۔ وہ اس الجھن میں مبتلا ہیں کہ وہ جو چاہتی ہیں اور انہیں جو چیزیں نظر آرہی ہیں وہ مختلف ہیں۔ اس الجھن کی وجہ سے وہ اس سوچ میں مبتلا ہیں کہ کیا وہ اپنی خواہش کے مطابق اپنی شادی کی تقریب کا لطف اٹھاسکیں گی۔
غیر معمولی انتخاب
علینا خود کو اسٹیج تک محدود نہیں رکھیں گی۔ انہوں شادی کے حوالے سے کئی تقاریب کی منصوبہ بندی کی ہوئی ہے تاکہ وہ اپنی شادی میں ایک جگہ بیٹھے رہنے کے بجائے ہر چیز میں شریک ہوں۔ وہ چاہتی ہیں کہ سجاوٹ پر بےتحاشہ پیسے خرچ کرنے کے بجائے وہ اپنے مہمانوں کو خوش رکھیں۔
انہیں سب سے زیادہ انتظار تو ’گیمز ڈے‘ کا ہے جس میں وہ اور ان کے مہمان عام کپڑوں میں آئیں گے اور مختلف کھیلوں میں حصہ لیں گے جن سے معلوم ہوگا کہ کون اس جوڑے کو زیادہ بہتر جانتا ہے۔
انہیں اس بات کا احساس ہے کہ کس طرح دو ماہ میں چیزیں تبدیل ہوسکتی ہیں اور وہ کہتی ہیں اگر انہیں کچھ تبدیلیاں کرنی پڑجائیں تو انہیں ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم نے اس بارے میں بہت بات کی ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، لیکن شادی ایک طرح کا جشن ہوتا ہے اور اس میں جوڑے کو خوش ہونا چاہیے اور میری ساری توجہ بھی اسی چیز پر ہے۔ شادی کی تقریب کا کوئی ایک انداز نہیں ہوتا‘۔
کیمرے کی دوسری جانب
راحت رفیق ’آر ورلڈ فوٹوگرافی‘ کے بانی ہیں، ان سے سوال کیا گیا کہ وہ کس وجہ سے شادی کی تقریبات کی جانب آئے تو ان کا جواب بہت سادہ تھا کہ ’لوگ‘۔
راحت رفیق تقریباً ایک دہائی سے آر ورلڈ چلا رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ فیشن فوٹوگرافی سمیت دیگر طرز کی فوٹو گرافی میں بھی طبع آزمائی کرچکے ہیں لیکن وہ ہمیشہ شادیوں کی فوٹوگرافی پر واپس آئے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’شادیاں لوگوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ میں یہ کہوں گا کہ اس کام نے مجھے چنا ہے۔ مجھے لوگوں سے ملنا اچھا لگتا ہے اور میں شادیوں میں نئے لوگوں سے ملتا ہوں اور نئے خاندانوں کا مشاہدہ کرتا ہوں‘۔
روزانہ شادیوں کی فوٹوگرافی میں مصروف رہنے کے باوجود وہ کچھ وقفہ لینے اور سوچ بچار کرنے کا وقت نکال لیتے ہیں۔
جس وقت انہوں نے یہ کام شروع کیا تھا اس وقت وہ اپنے سرپرست کوہی مری کی رہنمائی میں کام کرتے تھے اور ابتدائی طور پر سب کچھ بہت گلیمرائز لگتا تھا۔ لیکن جب انہوں نے پہلی بار خود شادی کور کی تب ہی انہیں احساس ہوا کہ ہر طرح کے لوگوں کے لیے شادیوں کو کور کرنا کتنا زیادہ پیچیدہ ہوسکتا ہے۔
راحت رفیق ایسے فرد ہیں جو کیمرے کے پیچھے سے لوگوں کا مشاہدہ کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں اکثر لوگوں کو اپنے مشاہدات نہیں بتاتا کیونکہ میں غلطی سے کسی کو بےسکون نہیں کرنا چاہتا‘۔ آر ورلڈ شروع کرنے کے بعد سے وہ کئی یادگار شادیوں میں فوٹو گرافی کرچکے ہیں۔
ان میں سے ایک شادی ایک فرانسیسی-پاکستانی خاندان کی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’دادا، دادی فرانس کے کسی چھوٹے سے گاؤں میں رہتے تھے، ان کی عمر تقریباً 80 برس ہوگی۔ وہ پہلے اپنے گاؤں سے پیرس آئے، وہاں سے استنبول گئے اور پھر کراچی آئے، میرے لیے یہ اس خاندان کی اہم بات تھی‘۔
تمام خاندان ایک طرح کے نہیں ہوتے اور راحت رفیق شادیوں کو 3 اقسام میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلی قسم وہ ہے جو دولہے یا دلہن پر مرکوز ہوتی ہے جس میں گھر والوں کا بہت کم کردار ہوتا ہے کیونکہ جوڑا یا ان میں سے کوئی ایک ساری توجہ خود پر رکھتا ہے۔
دوسری قسم کی شادی وہ ہوتی ہے جس میں گھر کے ہر فرد کا کردار ہوتا ہے اور اکثر اوقات تو دولہا یا دلہن گھر والوں کے کہے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھاتے۔ شادیوں میں عموماً ہمارے بہترین اور بدترین سماجی میل جول سامنے آتے ہیں اور ان میں سے اکثر کا آغاز گھر سے ہوتا ہے۔
تیسری قسم کی شادیاں ان کے لیے سب سے زیادہ دلچسپ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنے خاندان کی خاص نسل سے محبت رکھتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ دادا سہرا بندی کررہے ہیں اور نانا رخصتی کررہے ہیں یا نکاح پڑھا رہے ہیں کیونکہ خاندان اسی طرح جڑا ہوا تھا۔ لیکن ان خاندانوں کے حوالے سے میں اب تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ اس کا کیا مطلب ہے‘۔
وہ اب شادیوں میں تاخیر سے آنے کے ’فیشن‘ کو بھی نوٹ کررہے ہیں جو اس وجہ سے ہورہا ہے کہ لوگ اب وقت کی قدر نہیں کرتے۔ انہوں نے جن شادیوں میں شرکت کی ہے اس کے بعد ’ویڈنگ اسٹینڈرڈ ٹائم‘ ایک مذاق بن گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’نظم و ضبط ہی سب کچھ ہے، اگر آپ اپنی شادی کی منصوبہ بندی کررہے ہیں تو آغاز اسی کے ساتھ کریں۔ اگر آپ نے 7 بج کر 45 منٹ کا وقت دیا ہے تو 7 بج کر 45 منٹ پر آغاز کردیں چاہے اس وقت جتنے لوگ بھی موجود ہوں۔ ایسا ایک بار ہوگا، دو بار ہوگا اور تیسری بار لوگ وقت پر آئیں گے‘۔
فوٹوگرافی کرنے کے دوران راحت رفیق کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ فوٹوگرافی کے آغاز سے لےکر تصاویر دینے تک اپنے صارفین کو بہترین تجربہ فراہم کریں۔ لیکن ان گزشتہ برسوں میں انہوں نے شادی کے اثرات کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ سب سے زیادہ انہوں نے لوگوں کو تناؤ سے دوچار ہوتے دیکھا ہے۔
وہ مستقبل کے دولہا، دلہنوں کو تجویز دیتے ہیں کہ ’لوگ بہت زیادہ گھبراتے ہیں اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں اپنی شادی کو بھی انجوئے کرنا ہے۔ نتیجے کے طور پر ان کی تصاویر خراب ہوجاتی ہیں، انہوں نے جو منصوبہ بندی ہوتی ہے اس میں خلل پڑتا ہے اور پھر افسوس ہوتا ہے‘۔
زورید رضا ایک ایونٹ پلانر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے ویڈنگ پلاننگ کا کام جس وقت شروع کیا تھا اس وقت لوگ سوشل میڈیا پوسٹ کے بجائے میگزین کٹ آؤٹس پر انحصار کرتے تھے۔ ان کے مطابق گزشتہ چند دہائیوں میں بہت زیادہ تبدیلیاں آگئیں ہیں۔س
ان کا کہنا ہے کہ ’ پہلے بس ایک اسٹیج اور کچھ پھول کافی ہوتے تھے۔ اب آپ کو صرف وال ڈیزائن کے لیے کئی لوگوں کی خدمات حاصل کرنی پڑتی ہیں۔ اب اس صنعت میں ہزاروں لوگ آگئے ہیں اور ایسا سوشل میڈیا کی وجہ سے ہوا ہے جس نے اس صنعت کو بہت وسعت دے دی ہے۔ میں نے جب اس شعبے میں قدم رکھا تھا اس وقت یہ سب نہیں ہوتا تھا۔ تب صرف ٹینٹ اور کھانے کا انتطام کرنا ہوتا تھا، پھر ہم صوفہ سیٹ بھی بنانے لگے اور اس کے بعد داخلی دروازوں پر وال پینل لگانے لگے۔
تناؤ
ماریہ کی ایونٹ کمپنی میں بھی کچھ یہی جذبات ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ شادی کی تقریبات میں سے جذبات ختم ہوگئے ہیں اور اس کی جگہ تناؤ نے لےلی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کورونا کے دوران لوگوں میں تناؤ کم تھا۔ مجھے کئی لوگ ایسے ملے جو اس بات پر خوش تھے کہ انہیں بس چند لوگوں کی ہی میزبانی کرنی پڑے گی اور یوں وہ خود زیادہ لطف اندوز ہوسکیں گے‘۔
سوچ میں آنے والی یہ تبدیلی بتاتی ہے کہ شادی میں کیا ہونا چاہیے۔ جس جوڑے کی شادی ہورہی ہو اس کے لیے ان کی شادی دراصل ان کی خوشی کی علامت ہونی چاہیے چاہے وہ کتنی بڑی یا کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو۔
پاکستانی شادیوں کی تیاری کے لیے واقعی بہت لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب زارا کے اکلوتے دیور کی منگنی ہوئی تو انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ شادی کی ساری تیاریاں انہوں نے ہی کرنی ہیں۔ چونکہ ان کے گھروالوں نے زارا اور ان کے شوہر کی شادی پر ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا تھا اس وجہ سے وہ اپنے چھوٹے بیٹے کے لیے بھی ویسی ہی تقریب کرنا چاہتے تھے اور ہر کوئی اس میں حصہ لینا چاہتا تھا۔ اس وقت زارا 6 ماہ کی حاملہ تھیں اور اس وجہ سے شادی کی تیاریاں کرنا بہت مشکل تھا۔
وہ کہتی ہیں ’ظاہر ہے کہ میں نے کسی بھی تقریب میں ہیلز نہیں پہنی تھیں لیکن مجھے خوشی ہے کہ میں اپنے قد کے بارے میں مطمئن تھی۔ میں اپنے لباس کے حوالے پہلے ہی بہت زیادہ فکرمند تھی اور اگر میں اپنے قد کے بارے میں بھی فکرمند ہوتی تو صورتحال مزید خراب ہوجاتی‘۔
ان کی شادی دسمبر 2021ء میں ہی ہوئی تھی اور وہ ایک فیشن ایکسپرٹ بھی تھیں اس وجہ سے شادی سے متعلق ہر چیز کے لیے انہیں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ شادی کے ہر مرحلے کی بہت احتیاط سے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت تھی اور آج کے ڈیجیٹل دور میں ہر چیز انسٹاگرام کے مطابق چاہیے تھی۔
زارا کہتی ہیں کہ ’جب فوٹوگرافر جوڑوں کی تصویر پوسٹ کرتے ہیں تو اس میں ڈریس ڈزائنر سے لے کر ، میک اپ اور ہیئر آرٹسٹ اور یہاں تک کہ زیورات کے ڈیزائنر تک ہر کسی کو ٹیگ کیا جاتا ہے‘۔
اگرچہ اس طرح آپ کو شادی کی تیاریوں کے لیے کوئی نیا خیال ضرور مل سکتا ہے لیکن اس سے مخصوص برانڈز کے ساتھ وابستہ ہونے کا ایک خاص دباؤ بھی پیدا ہوتا ہے اور زارا اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ اس کے نتیجے میں آپ شادی کی منصوبہ بندی کے منفرد تجربے کے لطف سے محروم رہ سکتے ہیں۔
یہ شادی خاص طور پر پُرجوش مہمانوں کی وجہ سے منفرد تھی۔ رخصتی کے بعد جب دولہا دلہن گھر پہنچے تو ان کی گاڑی کو دولہے کی والدہ کے قریبی دوستوں نے باہر ہی روک لیا اور گاڑی سے باہر آنے دینے کے عوض بالکل دیسی انداز میں جوڑے سے رقم کا تقاضہ کیا۔
وہ دلہن کی طرف والے دروازے کے پاس کھڑے رہے لیکن پھر ’مذاکرات‘ کے دوران انہیں احساس ہوا کہ دلہن تو وہاں ہے ہی نہیں۔ تمام شور شرابے کے دوران دلہن تو عقبی نشست سے اگلی نشست پر آکر ڈرائیونگ سیٹ کی جانب سے باہر نکل چکی تھی۔ ویسے دیکھا جائے تو عروسی جوڑے میں ایسا کرنا بھی اپنے آپ میں ایک بڑا کام ہے۔
ہفتہ بھر جاری رہنے والی شادی کی تقریبات جب ولیمے پر ختم ہوئیں تو زارا نے خود کو اپنی والدہ اور بہن کے ساتھ پایا جنہوں نے ان حالات میں ان کی دیکھ بھال اپنے ذمے لی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ’کچھ ایسا ہوا کہ وہ دونوں مجھے ایک ہی وقت میں کھلانے لگیں اور ابھی میں پہلا لقمہ ہی ختم نہیں کرپاتی تھی کہ دوسرا لقمہ دے دیا جاتا تھا، یہاں تک کہ میں تنگ آگئی اور اٹھ کر چلی گئی‘۔ یہ پوری شادی کے دوران ان کو ملنے والی خصوصی توجہ کا اظہار تھا۔
اگرچہ زارا کی اپنی شادی اس شادی سے ایک سال قبل ہی ہوئی تھی لیکن پھر بھی ان دونوں شادیوں کے حوالے سے زارا کا تجربہ بہت مختلف رہا تھا۔ اس نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ انہوں نے اپنی شادی میں کیا غلط کیا؟
ان کا کہنا تھا کہ ’میں اپنی مہندی میں یہ سوچ کر پریشان تھی کہ ناجانے میں کیسی لگوں گی، لوگ کیا کہیں گے، گھر والے کیا سوچیں گے۔ میں نے اپنی شادی پر ڈانس بھی کیا تھا لیکن پھر بھی اتنا لطف نہیں لی سکی جتنا چاہتی تھی‘۔
اسی وجہ سے وہ دلہنوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ جو انہوں نے کیا وہ ایسا نہ کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’وہ لباس اور ڈیزائن منتخب کریں جو آرامدہ ہوں اور جن میں آپ پراعتماد محسوس کریں۔ ٹرینڈز کے پیچھے مت بھاگیں اور اپنی شادی کو یادگار بنانے کی کوشش کریں‘۔
دیسی شادیوں کی بھی اپنی ہی کوئی بات ہوتی جس میں زندگی کے ہر شعبے کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ ہم اسے خاندان کے جشن کے طور پر دیکھ سکتے ہیں لیکن جس دباؤ سے گزرنا پڑتا ہے وہ اکثر ان رشتوں کو آزماتا ہے۔ باہر سے دیکھنے پر ایسا لگتا ہے کہ شادی کا تعلق صرف سوشل میڈیا پر دکھائے جانے والے جوڑے کے ساتھ ہے، درحقیقت وہ تو شادی کے پورے سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔
اس صنعت کے اندر اب مختلف برانڈز ابھر رہے ہیں۔ ہر ایک برانڈ ایسے کام میں خصوصیت رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے جسے شاید پہلے کبھی ایسے کام کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا جسے آؤٹ سورس کرنے کی ضرورت ہو۔ کھانے، پھولوں اور ٹینٹوں کی ترتیب، فوٹو گرافی وغیرہ کے لیے وینڈر منیجمنٹ جیب پر اضافی بوجھ تو بنتا ہی ہے لیکن ساتھ ہی انہیں کچھ ’جمالیاتی‘ تقاضوں کو پورا کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو انسٹاگرام کے رجحانات کے مطابق ہو۔ تاہم، اس عمل کے دوران بہت کچھ ضائع ہو جاتا ہے۔
پہلی بات یہ کہ تمام جوڑے بالکل ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ انسٹاگرام کے اگلے رجحان تک نئے پن کا عنصر کہیں گم ہوگیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اعلیٰ طبقے کی شادیوں میں ان نئے جمالیاتی تقاضوں سے اس قسم کی باتوں میں اضافہ ہوا ہے کہ کس طرح کوئی شادی ان تقاصوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی۔ آخری اور شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ شادیوں کو بہترین دکھانے کا عمل اکثر اس میں شامل لوگوں کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ اس سے بہت سے سوال پیدا ہوتے ہیں کہ انہوں نے کسی چیز کو خاص بنانے پر اس حد تک کیوں زور دیا کہ وہ خود اس میں حصہ لینا بھول گئے۔
چونکہ شادی کا سیزن ہر سال مزید طویل ہوتا جارہا ہے اس وجہ سے شاید اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ ہمیں یہ وقت کسے دینا چاہیے۔
*شناخت محفوظ رکھنےکے لیے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔
یہ مضمون 22 جنوری 2023ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
لکھاری صحافی ہیں اور پرسپیکٹیو میگزین کی بانی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔