ایشیا میں موٹاپے اور ذیابطیس کی بڑھتی شرح کو کیسے روکا جائے؟
مغربی ممالک میں کم ہوتی طلب کے باعث اشیائے خور و نوش کی ملٹی نیشنل کمپنیاں اب افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا کے لوگوں کو پیکڈ فوڈ کے نئے صارفین کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ یوں عالمی سطح پر ذیابطیس سے متعلق دیگر سنگین بیماریوں میں شدت آسکتی ہے۔
مختلف ممالک کی حکومتیں مضرِصحت خوراک سمیت ان عوامل کے خلاف سخت اقدامات لے رہی ہیں جو ممکنہ طور پر موٹاپے کا باعث بن سکتے ہیں۔ سنگاپور میں 2050ء تک ممکنہ طور پر 10 لاکھ شہریوں کے ذیابطیس کا شکار ہونے کا امکان ہے۔ اس وجہ سے سنگاپور نے اب ملک میں سوڈا بنانے والی کمپنیوں کو شکر کی مقدار کم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
موٹاپا اور دیگر روزمرہ کی بیماریاں اب ممالک کے لیے ایک ’خاموش‘ طویل مدتی چیلنج بنتی جارہی ہیں کیونکہ یوں حکومتوں کو لوگوں کی بیماری کے باعث صحت اور پیداوار کے شعبے میں بھاری نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں۔
لیکن صرف جزوی قانون سازی سے صحت عامہ کے شعبے میں بہتری نہیں آئے گی بلکہ حکومتوں کو تعلیم و آگاہی اور صحت مند خوراک تک ان کی رسائی کو آسان بناکر قومی سطح پر لوگوں کی طرزِ زندگی میں تبدیلی لانی چاہیے۔
کیا موٹاپا صرف امیروں کی بیماری ہے؟
ایشیا میں زراعت کے شعبے سے منسلک دیہی آبادی کی بڑی تعداد شہری علاقوں کی طرف ہجرت کررہی ہے جہاں یہ لوگ پیداواری اور خدمات کے شعبے میں ملازمت سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔ وقت کی قلت اور زیادہ کیلوری والی خوراک کی باآسانی دستیابی کے باعث دیہی مہاجرین کی شہر میں آکر کھانے کی عادات تبدیل ہورہی ہیں۔
حال ہی میں 98 ہزار چینی شہریوں پر کی گئی ایک تحقیق شائع ہوئی ہے جس میں بحث کی گئی ہے کہ موٹاپے کو امیری سے جوڑنا بہت سطحی سی بات ہے۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ’غذائی رجحانات‘ میں موجود جغرافیائی تغیرات، صحت عامہ میں موجود فرق کو بیان کرتے ہیں۔
ایشیا-پیسیفک خطے میں ہر 5 میں سے 2 افراد کا یا تو وزن زیادہ ہے یا پھر وہ موٹاپے کا شکار ہیں۔ یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔ عالمی ادارہِ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ذیابطیس کا شکار عالمی آبادی کا تقریباً نصف حصہ ایشیائی ممالک میں مقیم ہے۔
موٹاپے کے باعث ایشیا-پیسفک خطے میں ممالک کے قومی خزانے کو سالانہ 166 ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔ جنوب-وسطی ایشیا کے ممالک میں موٹاپے اور اس سے منسلک بیماریوں کے باعث حکومتوں کو صحت کی سہولیات اور پیداوار میں نقصان کی مد میں بھاری لاگت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ انڈونیشیا ہر سال 2 سے 4 ارب ڈالر، ملیشیا 1 سے 2 ارب ڈالر اور سنگاپور 40 کروڑ ڈالر کے نقصانات کا سامنا کرتا ہے۔
بھارت اور چین جیسے کثیر آبادی والے ممالک جہاں غذائیت کی کمی طویل عرصے سے ایک مسئلہ رہی ہے، وہاں بھی موٹاپے کی شرح میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن کی 2015ء کی ایک تحقیق کے مطابق 1980ء سے 2015ء کے درمیان بھارت کے مردوں میں موٹاپے کی شرح میں 4 گنا اضافہ ہوا ہے۔ چین میں موٹاپے کا شکار افراد کی تعداد 11 کروڑ ہے جبکہ 2040ء تک یہ تعداد 15 کروڑ تک پہنچنے کا امکان ہے۔ دیکھا جائے تو 1980ء سے 2015ء کے دوران ان ممالک میں موٹاپے کی شرح میں 15 گنا اضافہ ہوا ہے۔
2005ء اور 2015ء کے دوران دل کے امراض، اسٹروک اور ذیابطیس کے باعث چین کی قومی آمدنی کو ہونے والے سالانہ نقصان میں 7 گنا جبکہ بھارت کی قومی آمدنی کو ہونے والے سالانہ نقصان میں 6 گنا اضافہ ہوا۔
بچوں کی صحت کے متعلق اعداد و شمار تو مزید خوفناک تصویر پیش کررہے ہیں۔ بھارت میں شہری علاقوں میں مڈل اسکول میں داخل ہونے کی عمر کی کل آبادی کا ایک چوتھائی حصہ موٹاپے کا شکار ہے جبکہ 66 فیصد بچے ذیابطیس کے خطرے سے دوچار ہیں۔ دوسری جانب دنیا میں موٹاپے کا شکار بچوں کی سب سے زیادہ تعداد چین میں ہے۔
موٹاپے کے اس بڑھتے ہوئے رجحان میں بہت سے عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں۔ ان عوامل میں جسمانی ورزش کی کمی، نوجوانوں میں کمپیوٹر گیمنگ اور اس جیسی سرگرمیوں میں بڑھتی ہوئی دلچسپی اور جامعات کے داخلہ امتحانات کی پڑھائی پر زیادہ وقت لگانا شامل ہیں۔
موٹاپے کی شرح کو کم کرنے کے لیے ٹیکس کا نفاذ
ایشیائی ممالک کی حکومتوں کے پاس موٹاپے کا مقابلہ کرنے کے لیے متعدد حکمتِ عملیاں ہیں۔ امریکا اور یورپی ممالک کی حکومتوں نے کولڈ ڈرنکس اور میٹھے مشروبات پر ٹیکس عائد کیا ہے۔ اس ٹیکس کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ان مشروبات میں موجود زیادہ کیلوریز کے باعث اس کے استعمال سے موٹاپے کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔ شکر پر ٹیکس نافذ کرنے والی بڑی مقامی حکومتوں میں کُک کاؤنٹی، الینوائے (شکاگو) اور فلاڈیلفیا شامل ہیں، جبکہ سان فرانسسکو اور سیئٹل نے بھی 2018ء میں اسی طرح کے ٹیکس عائد کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔
ریاست کیلی فورنیا کا شہر برکلے جہاں زیادہ آمدنی والے اور تعلیم یافتہ لوگ رہائش پذیر ہیں وہ پہلا امریکی شہر تھا جہاں نومبر 2014ء میں ہی میٹھے مشروبات پر ٹیکس عائد کردیا گیا تھا۔ جریدے پی ایل او ایس میڈیسن کی تحقیق کے مطابق ٹیکس کے نفاذ کے ایک سال کے دوران برکلے میں ان مشروبات کی فروخت میں 10 فیصد کمی دیکھنے میں آئی جبکہ اس ٹیکس سے محصولات میں 14 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا۔
یہ شہر ان محصولات کو بچوں کی غذائیت اور کمیونٹی ہیلتھ پروگراموں کی صورت میں استعمال کرتا تھا۔ اگرچہ برکلے ایک غیرمعمولی مثال ہے لیکن عوام میں موٹاپے کو کم کرنے کے لیے اس شہر کی حکمتِ عملی اور محصولات کے درست استعمال سے ایشیائی ممالک کے شہر بھی رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ترقی یافتہ مغربی ممالک میں سوڈا کے استعمال میں کمی آئی ہے جبکہ ایشیا میں اس کی مارکیٹ میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
شکر کے استعمال کے خلاف اعلانِ جنگ
ملائیشیا کو قومی سطح پر موٹاپے کی شرح میں سنگین اضافے کا سامنا ہے۔ یہ ملک ان مشروبات پر ٹیکس لگانے کے حوالے سے میکسیکو کی حکمتِ عملی کو اپنا رہا ہے۔ برونائی نے اپریل 2017ء میں میٹھے مشروبات پر ٹیکس متعارف کروایا اور فلپائن کی سینیٹ میں بھی اب شکر سے بنے مشروبات پر ایکسائز ٹیکس لگانے کے حوالے سے بحث جاری ہے۔ تھائی لینڈ میں ستمبر 2017ء میں شکر سے بنے مشروبات پر ٹیکس لیوی عائد کی تھی اور آئندہ 6 سالوں کے دوران اس میں اضافہ کیا جائے گا۔
ایشیائی ممالک کی حکومتوں نے موٹاپے کی شرح کو کم کرنے کے لیے دیگر اقدامات بھی اٹھائے ہیں۔ بھارت میں کیے جانے والے سروے میں سامنے آیا تھا کہ بھارتی فوج کے ایک تہائی سپاہیوں کا وزن زیادہ ہے جس کی بنا پر بھارت نے اپنے ملک میں تمام سپاہیوں کے لیے موٹاپے کی سالانہ تشخیص کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب چینی حکومت نے بھی سپاہیوں میں بڑھتے ہوئے شکر کے استعمال کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بھارتی ریاست مہاراشٹر نے چوں میں بڑھتے ہوئے موٹاپے کے باعث اسکولوں کی کینٹین میں ’جنک فوڈ‘ کی فروخت پر پابندی لگادی ہے۔ ہانگ کانگ بھی اسکولوں میں فروخت ہونے والے تیار شدہ کھانوں پر حکومتی تصدیق کا لیبل لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
کیا ان پالیسیوں کا اطلاق ممکن ہے؟
دنیا کے مختلف شہروں میں میٹھے مشروبات پر ٹیکس عائد کرنے کے حوالے سے سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے لیکن اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس کے صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ نہیں۔ ٹیکس لگانے کے رجحان کے پیچھے چند وجوہات ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی تحقیق کے مطابق میٹھے مشروبات پر 20 فیصد ٹیکس لگانے سے زائد وزن اور موٹاپے کی شرح میں 3 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کمی کا سب سے زیادہ اثر دیہی علاقوں میں مقیم نوجوان مردوں میں دیکھا گیا۔
تحقیق کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو انسانی صحت پر عمر بھر پڑنے والے صحت کے اثرات سے متعلق طویل المدتی مطالعات کی ضرورت ہے اور مکمل تحقیق کے ذریعے ہم اشیا کے استعمال سے صحت پر پڑنے والے اثرات کا ٹیکس کی شرح میں ہونے والے اضافے کے ساتھ تعلق جان سکتے ہیں۔ اس کے لیے ابتدائی قدم معلومات جمع کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے ایک مثال بھارت کا نیوٹریشن اٹلس ہے جو موٹاپے سمیت صحت عامہ کے مختلف مسائل پر ریاستوں کا موازنہ پیش کرتا ہے۔
ایک اور خدشہ سماجی-اقتصادی مساوات کے حوالے سے ہے اور وہ یہ کہ سستی اور مضرِ صحت کھانے کی مصنوعات پر ٹیکس سے کم آمدنی والے طبقے کو نقصان پہنچے گا۔ مثال کے طور پر 2011ء میں ڈینمارک نے ’فیٹ ٹیکس‘ کی پالیسی کا اطلاق کیا جس کے نتیجے میں چکنائی والی تمام مصنوعات پر ٹیکس لگا دیا گیا۔ لیکن ایک سال بعد ہی صارفین پر پڑنے والے بوجھ کی وجہ سے اس ٹیکس کو ختم کردیا گیا اور چینی پر لگنے والے ممکنہ ٹیکس کا منصوبہ بھی ترک کردیا گیا۔
اگلا چیلنج پالیسیوں کا محدود کنٹرول ہے۔ صارفین یا تو ٹیکس والی مصنوعات ترک کرکے دوسری مصنوعات کا استعمال شروع کردیتے ہیں جن میں چینی اسی مقدار میں موجود ہوتی ہے لیکن ان پر ٹیکس نہیں ہوتا یا پھر وہ ان ٹیکسوں سے بچنے کا کوئی راستہ نکال لیتے ہیں۔ اس کی مثال ہم نے ڈینمارک میں دیکھی جہاں صارفین سستی مصنوعات کے لیے سرحد پار کرکے جرمنی کا رخ کررہے تھے۔
مصنوعات پر ٹیکس عائد کرنے سے شاید وقتی طور پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ تو ہوجائے لیکن اس سے عوام کی بنیادی صحت اور ترقیاتی مقاصد نظرانداز ہوں گے۔ مثال کے طور پر معیاری اور صاف پانی کی فراہمی نہ ہونے کے باعث بہت سے ایشیائی ممالک میں شکر سے بنے مضرِصحت مشروبات کا کوئی متبادل ہی دستیاب نہیں ہے۔
میٹھے مشروبات پر ٹیکس جیسا اقدام صحت مند طرزِ زندگی کے لیے وسیع تر اقدامات میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ بھارت میں 2016ء میں موٹاپے کے حوالے سے ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ ہمیں ایک پالیسی کو تمام افراد پر زبردستی لاگو کرنے کے بجائے سماجی و ثقافتی بنیادوں پر مختلف پالیسیاں ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
برکلے کو مثال بناتے ہوئے حکومتوں کو چاہیے کہ سوڈا ٹیکس کو غذائیت اور صحت کے پروگراموں کے لیے استعمال کریں اور اسکول کے نصاب میں چینی کے نقصانات سے متعلق معلومات کو شامل کریں۔ اس حوالے سے جو بھی منصوبہ بندی کی جائے اس میں مقامی حالات، بہتر آگاہی اور صحت مند متبادل کی فراہمی کو مدِ نظر رکھنا چاہیے۔ ایشیا میں بڑھتے ہوئے موٹاپے کے پائیدار حل کے لیے یہ بنیادی اقدامات ثابت ہوں گے۔
یہ مضمون 29 جنوری 2023ء کو ڈان ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
آسط کے بسواس نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور میں وزٹنگ پروفیسر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔کرس ہارٹلی امریکا کی کارنیل یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔