نقطہ نظر

سستی اور ماحول دوست ایٹمی توانائی پاکستان کے لیے کیوں ضروری ہے؟

ایٹمی بجلی کے ایندھن کی قیمت مستحکم رہتی ہے لیکن کوئلے، آر ایل این جی اور تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اتار چڑھاؤ دیکھا گیا ہے۔

پاکستان میں ان دنوں توانائی کا شعبہ حکومت کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے تو عوام اور صنعتوں کے لیے اذیت کا سبب۔ ملک میں مہنگی توانائی، خصوصاً بجلی کے بڑھتے بلوں کی وجہ سے عوام بہت پریشان ہیں جبکہ دوسری طرف حکومت جس قیمت پر بجلی پیدا کررہی ہے، اس قیمت پر فروخت کرنے میں ناکام ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں بجلی کی اوسط قیمت 40 روپے فی یونٹ ہے لیکن گھریلو صارفین سے 29 روپے فی یونٹ وصول کیا جارہا ہے۔ اس کی وجہ سے توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ بڑھتا جارہا ہے۔ یہ قرضہ 4 ہزار 100 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اس میں بجلی کے شعبے میں گردشی قرض 2 ہزار 500 ارب اور گیس کے شعبے میں ایک ہزار 600 ارب شامل ہے۔

آئی ايم ايف کی جانب سے حکومت پر نقصانات کم کرنے کے لیے بجلی پر سبسڈی کم کرنے اور ٹیرف بڑھانے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی کی قیمت 7 سے 10 روپے بڑھانے کے ساتھ رواں مالی سال میں 675 ارب روپے کی سبسڈی ختم کی جائے گی۔ اسی طرح گیس کی بھی فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت میں 75 فیصد تک اضافے کا امکان ہے۔

توانائی کے شعبے اور خصوصاً بجلی کے شعبے میں مہنگے داموں بجلی کی خریداری کے منصوبے تنقید کی زد میں رہے ہیں جبکہ کوئلے سے بجلی کی پیداوار کے نتیجے میں ملکی ماحولیات پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ایٹمی ایندھن سے بجلی کی پیداوار عوام کو دیگر ذرائع کے مقابلے میں سستی بجلی فراہم کرنے کے علاوہ ماحول دوست تونائی کے حصول میں بھی معاون ہوتی ہے۔

وزیرِاعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے کراچی نیوکلیئر پاور جنریشن اسٹیشن میں قائم کے 3 پاور پلانٹ کا باضابطہ افتتاح کردیا ہے۔ کراچی کے ساحل پر قائم کے 2 اور کے 3 پاور پلانٹس کی مجموعی پیداواری صلاحیت 2200 میگاواٹ ہے اور یہ پاکستان میں لگے سب سے بڑے جنریٹرز ہیں۔

ملک کو ماحولیاتی مسائل، ایندھن کے مہنگا ہونے اور کیپسٹی چارجز کی ادائیگی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اسی وجہ سے اپنے خطاب میں وزیرِاعظم میاں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کو سستی اور ماحول دوست توانائی کی اشد ضرورت ہے اور پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر ملک اب ایٹمی توانائی کے استعمال کو بڑھا رہے ہیں۔

عالمی سطح پر دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ دنیا بھر میں بجلی کی پیداوار 28 ہزار 466 ارب گیگاواٹ ہے۔ اس میں سے گیس سے 22.9 فیصد، تیل سے 2.5 فیصد، پن بجلی سے 15 فیصد، کوئلے سے 36 فیصد اور ایٹمی توانائی سے 9.8 فیصد بجلی پیدا کی جاتی ہے۔

ایٹمی بجلی پر سب سے زیادہ انحصار فرانس کا ہے جو 69 فیصد ایٹمی توانائی استعمال کررہا ہے۔ اس وقت دنیا کے 33 ممالک میں 444 ایٹمی بجلی گھر کام کررہے ہیں جن کی مجموعی پیداوار 394 گیگا واٹ ہے۔ یہ دنیا کی مجموعی بجلی پیداوار کا 10.4 فیصد ہے۔ اس وقت دنیا میں 57 ایٹمی بجلی گھر زیرِ تعمیر ہیں جن میں سے چین میں 18، بھارت میں 8 اور روس میں 4 تعمیر کیے جارہے ہیں۔

پاکستان میں بجلی کی پیداوار کا جائزہ لیا جائے تو نیپرا کی رپورٹ کے مطابق ملک میں 144 ارب گیگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ جس میں گیس سے 34.6 فیصد، ہائیڈرو سے27 فیصد، تیل سے 7.7 فیصد، کوئلے سے 19.5 فیصد اور ایٹمی توانائی سے 7.7 فیصد بجلی پیدا کی جاتی ہے۔

پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی اے ای سی) کے مطابق چشمہ اور کراچی کے مقام پر مجموعی طور پر 3 ہزار 625 میگاواٹ ایٹمی توانائی کے یونٹ لگے ہیں جبکہ سال 2030ء تک مزید چشمہ 5، مظفرگڑھ 1 اور 2 لگانے کا منصوبہ ہے۔ اس کے بعد ایٹمی توانائی سے بجلی کی مجموعی پیداوار 8 ہزار 800 میگاواٹ ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ سال 2042ء تک 21 ہزار اور 2050ء تک 40 ہزار میگاواٹ پیداوار کا منصوبہ ہے۔

ایٹمی توانائی کے حوالے سے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن ایک فعال ادارہ ہے۔ ممبر پاور محمد سعید الرحمٰن سے کراچی میں ایک ملاقات ہوئی جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے لیے ایٹمی توانائی بہت اہم ہے۔ یہ سستی ہونے کے ساتھ ساتھ ماحول دوست بھی ہے‘۔

بجلی کے سستا ہونے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’چشمہ ،کراچی اور مظفر گڑھ میں ایٹمی بجلی کے یونٹس لگانے کی منصوبہ بندی ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان نے 1970ء میں ایٹمی توانائی کے استعمال سے بجلی کی پیداوار شروع کی اور کینپ 1 کا پلانٹ کینیڈا کے تعاون سے لگایا گیا مگر عالمی دباؤ پر کینیڈا نے پاور پلانٹ کا ایندھن دینے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد پاکستان نے اس پاور پلانٹ کا ایندھن خود تیار کیا اور کامیابی سے اس پلانٹ کو 50 سال تک چلایا ہے‘۔

ایٹمی توانائی انتہائی سستی ہوتی ہے اور اس کے ایندھن کے لیے کوئی خاص سپلائی چین بھی نہیں بنانی پڑتی۔ کسی بھی ایٹمی پاور پلانٹ میں اس کے 18 ماہ کے استعمال کا ایندھن موجود رہتا ہے اور ایک بڑے کمرے میں کئی سال کا ایندھن محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ ایٹمی ایندھن کا ایک انچ سے بھی کم حجم کا ٹکڑا ایک ٹن کوئلے، 471 لیٹر سیال ایندھن اور 481 کیوبک میٹر گیس کے مساوی توانائی پیدا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایٹمی ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی سستی ہوتی ہے۔

پاکستان میں کام کرنے والے چشمہ 1 ایٹمی پاور پلانٹ سے بجلی کا ایک یونٹ 6.61 روپے، چشمہ 2 سے 11.86 روپے، چشمہ 3 سے 17.09 روپے، چشمہ 4 سے 16.95 روپے اور کینپ 2 اور 3 سے 14.05 روپے میں بجلی کا ایک یونٹ ملتا ہے۔

کے 2 اور کے 3 پاور پلانٹس پر تقریباً 9 ارب ڈالر کی لاگت آئی ہے مگر اس سے پیدا ہونے والی فی یونٹ بجلی کی قیمت میں ایندھن کا حصہ 1.2 روپے ہے۔ پلانٹ کے روزمرہ کاموں کو جاری رکھنے اور دیکھ بھال کے لیے 1.3 روپے، پلانٹ کو ڈی کمیشن کرنے کے لیے 4 پیسے، مقامی قرض کی واپسی کے لیے 68 پیسے، غیر ملکی قرض کی واپسی کے لیے 8.2 روپے اور سرمایہ کاری پر منافع دینے کے لیے 2.44 روپے شامل ہوتے ہیں۔

ایٹمی بجلی کے ایندھن کی قیمت مستحکم رہتی ہے لیکن کوئلے، آر ایل این جی اور تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اتار چڑھاؤ دیکھا گیا ہے۔ اس سے بجلی ناقابلِ برداشت حد تک مہنگی ہوئی ہے۔ محمد سعید الرحمٰن کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے بیرونی اور مقامی قرضوں کی ادائیگی کی جائے گی ویسے ویسے ایٹمی بجلی یونٹس کی بجلی مزید سستی ہوتی جائے گی۔

محمد سعید الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’ایٹمی توانائی کے حوالے سے اٹامک انرجی کمیشن نے اپنا مکمل لائحہ عمل تیار کیا ہے اور اس کے پلانٹس حکومتی خزانے پر بوجھ نہیں ہیں۔ ان بجلی گھروں سے ہونے والی اگر 80 فیصد آمدنی کمیشن کو واپس دے دی جائے تو وہ نہ صرف اپنے تمام منصوبوں کی دیکھ بھال کرسکتا ہے بلکہ مستقبل کے منصوبوں کی فنانسنگ بھی کرسکتا ہے، یوں حکومت پر کسی قسم کا بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔

’اسی طرح کمیشن نے 1400 میگاواٹ کے چشمہ 5 کا منصوبہ بھی بنایا ہے۔ چشمہ 5 کی کُل لاگت 3 ارب 70 کروڑ ڈالر ہے۔ اس کے 80 فیصد قرضے کا انتظام چین کی تعمیراتی کمپنی کرے گی۔ کے 1 اور 2 سے سالانہ 2 ارب ڈالر زرِمبادلہ کی بچت ہوگی، اسی طرح چشمہ 5 سے مزید ایک ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔ تاہم حکومتی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے یہ منصوبہ ایک سال تاخیر کا شکار ہوچکا ہے۔ چشمہ 5 کے علاوہ مظفرگڑھ میں ایم 1 2023ء اور ایم 2 2024ء میں شروع کرنا ہے۔‘

ایٹمی توانائی کاربن کے اخراج کو بھی نمایاں طور پر کم کرتی ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے مطابق ایک ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے پر گیس ٹربائن 30 لاکھ ٹن، تیل سے 50 لاکھ ٹن اور کوئلے سے 60 لاکھ ٹن گرین ہاؤس گیسز کا اخراج ہوتا ہے۔ دوسری جانب ایٹمی توانائی میں یہ اخراج صفر ہوتا ہے۔ چشمہ پر لگے بجلی گھر سالانہ 61 لاکھ ٹن کاربن کے اخراج کو روکتے ہیں۔

ایٹمی بجلی گھروں میں ایندھن کو لوڈ کرنے کا دورانیہ 18 ماہ کا ہوتا ہے اور اس وقت لگے ہوئے پاور پلانٹس بغیر کسی بندش کے 100 سے لے کر 280 دن تک مستقل کام کرتے ہیں۔

اگر صلاحیت کی بات کی جائے تو ایٹمی پاور پلانٹس 90 فیصد تک اپنی گنجائش کے مطابق بجلی فراہم کرتے ہیں جبکہ کوئلے سے چلنے والے پلانٹ 66.9 فیصد، تیل اور گیس سے چلنے والے 34 فیصد اور پن بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ 45.1 فیصد کی گنجائش پر کام کرتے ہیں۔

حفاظتی نقطہ نظر سے بھی کے 2 اور کے 3 ایٹمی ری ایکٹرز کو عالمی سطح پر دستیاب جدید ترین ٹیکنالوجی سے تعمیر کیا گیا ہے۔ ان کی ڈیزائن لائف 60 سال ہے جس کو بڑھا کر 80 سال کیا جاسکتا ہے۔

جاپان میں سونامی کے بعد فوکوشیما ایٹمی ری ایکٹر کے حادثے کے بعد کے 2 اور کے 3 کو جنریشن تھری کے معیارات پر تعمیر کیا گیا ہے اور اس میں فوکوشیما حادثے سے حاصل ہونے والے نتائج کے بعد بننے والے پروٹوکولز پر عمل کیا گیا ہے۔ ان دونوں ری ایکٹرز کا اسٹرکچر 0.3 گریویٹی (جی) کا زلزلہ جھیل سکتا ہے۔ جبکہ کینپ 0.11 جی پر تعمیر ہوا تھا اور اس وقت دنیا میں ایٹمی پاور پلانٹس کی تعمیر کو 0.2 جی پر کیا جاتا ہے۔ سونامی سے بچاؤ کے لیے بھی ان پاور پلانٹس کو سطح سمندر سے 12 میٹر کی بلندی پر تعمیر کیا گیا ہے اور اگر کوئی طیارہ بھی اس ری ایکٹر سے ٹکرا جائے تو اس کا دوہرا شیل اسے کسی نقصان سے محفوظ رکھتا ہے۔

فوکوشیما حادثے کے بعد اب اس پلانٹ کو کسی بھی حادثے کی صورت میں کور کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے پاور جنریٹرز کے ذریعے پانی کی فراہمی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس ری ایکٹر کے کور کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ایک خودکار نظام بنایا گیا ہے۔ اس طرح دنیا میں اب تک ایٹمی ری ایکٹر اور ایٹمی توانائی کے پُرامن استعمال کے لیے دستیاب تمام تر حفاظتی اقدامات کو اٹھایا گیا ہے۔

یوں تو بجلی کی فراہمی کے لیے اٹامک انرجی کمیشن کا معاہدہ براہِ راست این ٹی ڈی سی سے ہے اور اگر ان یونٹس سے بجلی کراچی کو فراہم کرنا مقصود ہو تو پہلے یہ بجلی 100 کلومیٹر سے زائد کا سفر طے کرکے کراچی کے ساحل سے این ٹی ڈی سی کے انٹر کنکشن جام شورو پہنچتی ہے جہاں یہ بجلی کراچی کو ملتی ہے۔ اس قدر لمبی ٹرانسمیشن لائن کی وجہ سے این ٹی ڈی سی کے لائن لاسز بھی ہوتے ہیں۔

اب کے الیکٹرک نے نیپرا اور این ٹی ڈی سی کی اجازت سے کینپ کے ساتھ 500 کے وی اے کا گرڈ قائم کرنے کا عمل شروع کردیا ہے جس پر 4 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی لاگت آئے گی۔ اس منصوبے کی بدولت کے الیکٹرک نیشنل گرڈ سے 500 سے 800 میگاواٹ بجلی حاصل کرسکے گی اور اس کی تعمیر سے بجلی کی ترسیل کا نظام بھی جدید خطوط پر استوار ہوجائے گا۔

کراچی میں واقع پاور پلانٹ سے براہ راست شہر کو بجلی فراہمی کے بارے میں ممبر پاور محمد سعید الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’کے الیکٹرک کینپ 1 سے براہِ راست بجلی خریدتا رہا ہے اور اس کی ادائیگی بروقت کرتا رہا ہے۔ اگر کے الیکٹرک چاہے تو مستقبل کے منصوبوں کے 4 اور کے 5 سے براہِ راست بجلی کی خریداری کا معاہدہ اٹامک انرجی کمیشن کے ساتھ کرسکتا ہے‘۔

پاکستان کو اپنے ماحولیات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ محفوظ، قابلِ بھروسہ اور سستی بجلی کے لیے ایٹمی توانائی کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا اور بجلی کے پیداواری انرجی مکس کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ ملکی ترقی کا پہیہ درآمدی ایندہن کے بغیر بھی چل سکے۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔