پاکستان

پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے افغان حکومت کے تعاون کا خواہاں

دہشت گردی پاکستان اور افغانستان کے لیے مشترکہ خطرہ ہے، توقع ہے افغانستان عالمی برادری سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری کرے گا، دفتر خارجہ
|

دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی عفریت سے نمٹنے کے لیے افغانستان کی عبوری حکومت سے تعاون کی توقع رکھتا ہے اور امید ظاہر کی کہ پڑوسی ملک اس سلسلے میں عالمی برداری سے کیے گئے اپنے وعدوں کی پاسداری کرے گا۔

دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کو پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ کے بیان دیکھے ہیں، پاکستان افغانستان کی عبوری حکومت سے تعاون کی توقع رکھتا ہے تاکہ دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹا جاسکے اور امید ظاہر کی کہ وہ اس سلسلے میں عالمی برداری سے کیے گئے اپنے وعدوں کی پاسداری کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے معصوم جانوں کے ضیاع کا معاملہ بہت سنجیدگی سے لیا ہے اور امید کرتے ہیں کہ ہمارے پڑوسی بھی ایسا ہی کریں کیونکہ دہشت گردی پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے مشترکہ خطرہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے جو معصوم شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف حملوں میں ملوث ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ ہم شہریوں کے تحفظ اور دہشت گردی کی عفریت کی جڑوں کو ملک سے اکھاڑ کر پھینکنے کے لیے پرعزم ہیں، ہم کسی پر الزامات عائد کرنے یا انگلیاں اٹھانے پر یقین نہیں رکھتے البتہ ہم یہ توقع بھی کرتے ہیں کہ کوئی بھی ملک پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دے گا۔

انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ افغانستان کی حکومت ٹھوس اقدامات اٹھاتے ہوئے عالمی برادری اور پاکستان سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کرے۔

اس سے قبل گزشتہ روز افغانستان کے عبوری وزیر داخلہ امیر خان متقی نے پشاور کی مسجد میں ہونے والے دھماکے میں ملوث دہشت گردوں کی جانب سے افغانستان کی سرزمین استعمال کیے جانے کے الزامات کو مسترد کردیا تھا۔

یاد رہے کہ پشاور کے علاقے پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش بم دھماکے میں 100 سے زائد افراد شہید ہو گئے تھے جس میں اکثریت پولیس افسران اور اہلکاروں کی تھی۔

وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق دارالحکومت کابل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امیر خان متقی نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ دوسروں کو ذمے دار ٹھہرانے کے بجائے اس طرح کی دہشت گرد سرگرمیوں کی مکمل تحقیقات کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام ملک کو درپیش سیکیورٹی چیلنجز کا مقامی سطح پر حل تلاش کریں اور دو مسلمان ممالک کے درمیان دشمنی کے بیج بونے سے باز رہیں۔

انہوں نے پاکستان کو دھماکے کی جامع اور مکمل تحقیقات کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا خطہ جنگوں اور دھماکوں کا عادی رہا ہے لیکن ہم نے گزشتہ 20 سال میں ایک بھی ایسا اکیلا خودکش بمبار نہیں دیکھا جس کے دھماکے سے مسجد کی چھت گر گئی ہو اور سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہوں۔

امیر خان متقی نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ افغانستان پر انگلیاں نہ اٹھائی جائیں، اگر افغانستان دہشت گردی کا مرکز ہوتا تو اس سے چین، ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان اور ایران بھی متاثر ہوتے لیکن آج ان ممالک کے ساتھ ساتھ افغانستان بھی محفوظ ملک ہے۔

’پاکستان، فلسطینی عوام کی جائز جدوجہد کی غیر متزلزل حمایت جاری رکھے گا‘

دفتر خارجہ کی ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان فلسطینی عوام کے حق خودارادیت سمیت ان کے حقوق کے مکمل حصول کے لیے ان کی جائز اور منصفانہ جدوجہد کی بھرپور اور غیر متزلزل حمایت جاری رکھے گا۔

پریس بریفنگ کے دوران ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اقوام متحدہ اور او آئی سی کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق 1967 سے پہلے کی سرحدوں اور القدس الشریف کو فلسطین کا دارالحکومت بنانے کے ساتھ ساتھ ایک قابل عمل، خود مختار فلسطینی ریاست کے مطالبے کی حمایت کرتا ہے۔

ترجمان نے فلسطین کے مختلف شہروں میں نہتے شہریوں کی شہادت کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیلی قابض افواج کی غیر قانونی دراندازیوں اور ظالمانہ اقدامات کو بند کرنے کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ فلسطینی عوام کے انسانی حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے۔

ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان نے ڈنمارک میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے گھناؤنے اور انتہائی جارحانہ فعل کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے، ہم نے اپنی تشویش ڈنمارک کے حکام تک پہنچا دی ہے، ہم اس طرح کی کارروائیوں کو نسل پرستی، زینوفوبک اور اسلاموفوبک سمجھتے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان کو دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا پر تشویش ہے کیونکہ مذہبی منافرت پھیلانے اور مسلم اقلیتوں کے خلاف تشدد پر اکسانے کے لیے اظہار رائے کی آزادی کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔

انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اس طرح کے اقدامات سے پاکستان سمیت مسلمانوں کو پہنچنے والے نقصانات کا خیال رکھے اور اس طرح کی نفرت انگیز اور اسلاموفوبک کارروائیوں کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔