سفر آسائش ہے یا ضرورت؟
اطالوی شاعر جیو ایون نے زور دیا ہے کہ سفر نہ کرنے سے انسانی سوچ محدود ہوجاتی ہے اور خیالات کو پنپنے کا موقع نہیں مل پاتا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو سفر کرنا چاہیے کیونکہ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو نہ ان کے خیالات پختہ ہوں گے اور نہ ہی نظریات میں تبدیلی آئی گی۔ یوں ان کے خواب بھی کمزور ہوں گے۔
حالیہ چند برسوں میں پاکستان میں سیاحت کی استطاعت رکھنے والے لوگوں کے لیے یہ ایک اہم سرگرمی بن چکی ہے۔ بہت سے لوگ اپنی سالانہ آمدنی میں بچت اسی مقصد کے لیے کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے عیال یا دوستوں کے ساتھ قدرتی مقامات پر سیر یا ایڈونچر پر مبنی سرگرمیوں سے لطف اندوز ہوسکیں۔
بعض اوقات سیاحت کے لیے لوگ مشرقِ وسطیٰ، تھائی لینڈ یا ترکی جیسے قریبی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ یہ تمام سیاحتی دورے تفریح کے لیے، رشتہ داروں سے ملنے کے لیے یا پھر شاپنگ کی غرض سے کیے جاتے ہیں۔ تاہم اس دوران پاکستانی سیاحوں کی تعداد میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن شوق کے لیے سفر کرنے والے لوگوں کی تعداد اب بھی بہت کم ہے۔
’سیاح وہ دیکھتا ہے جو وہ دیکھنے آتا ہے جبکہ مسافر کی نظر مختلف ہوتی ہے۔‘ جیو ایون کی نظر میں سیاح، مسافر کے زمرے میں نہیں آتے۔ سیاحوں نے اپنی منزل اور گھومنے کے لیے مقامات کا منصوبہ پہلے ہی بنا رکھا ہوتا ہے۔ سیاحت ایک تفریحی سرگرمی ہے جبکہ سفر ایک الگ مقصد کے تحت کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں ایسے بہت کم لوگ ملیں گے جو سیکھنے، اپنی سوچ کو وسعت دینے اور نئے تجربات حاصل کرنے کے لیے سفر کرتے ہیں۔ اس بات سے شاید کم ہی لوگ اختلاف کریں گے کہ ہمارا معاشرہ اپنے آباؤاجداد کی تہذیب و روایات کے علاوہ دیگر ثقافتوں کو سیکھنے یا ان کے بارے میں جاننے میں دلچسپی نہیں دکھاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہم مختلف قومیت کے لوگوں سے ملنے، ثقافتوں کا تجزیہ کرنے، مختلف پکوانوں کا تجربہ کرنے اور مختلف زبانیں سننے کی غرض سے دنیا گھومنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ہم نے اپنی ذات کو اتنی اہمیت دینا شروع کردی ہے کہ یہ دنیا کی نئی روایات سیکھنے کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔
دوسری طرف سفر کرنے سے ہمیں دنیا کی وسعت کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کا کتنا بڑا حصہ ایسا ہے جو ہم نے نہیں دیکھا۔ جب ہم اپنے آپ کو ایک بڑے نظام کا چھوٹا سا حصہ تصور کرنے لگتے ہیں تب ہمارے اندر عاجزی پیدا ہوتی ہے اور ہماری سوچ تبدیل ہوتی ہے۔
بہت سے ممالک میں طلبہ اپنی جزوقتی نوکریوں یا وظیفوں سے ہونے والی آمدن سے بچت کرتے ہیں تاکہ یونیورسٹی یا کالج کی تعطیلات کے دوران یا پھر پڑھائی سے ایک سال کا وقفہ لےکر وہ دنیا کی سیر کر سکیں۔ آپ نے ایسا بہت ہی کم سنا ہوگا کہ پاکستان میں طلبہ سفر کرنے کے لیے ایسا کرتے ہوں۔ ایسا صرف محدود آمدن کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ پاکستان میں آج بھی سفر کرنے کو مکمل طور پر تفریح سمجھا جاتا ہے۔
یہ ایک آسائش ہے جس کی استطاعت صرف وہی رکھتا ہے جس کے پاس پیسے ہوں اور وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ گھومنا پسند کرتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ سیاحت کے لیے اپنی نوکریاں لگنے کا انتظار کرتے ہیں تا کہ وہ اس آسائش کا خرچہ اٹھانے کے قابل ہوسکیں۔ جب تک ان کے پاس سفر کرنے کے لیے رقم جمع ہوتی ہے، اس وقت تک وہ اپنی زندگی کے جس مشکل دور سے گزر چکے ہوتے ہیں اس نے ان کی سماجی برتاؤ، سوچنے، سننے یا مشاہدے کی صلاحیتوں کو محدود کردیا ہوتا ہے۔
ایک ایسا شخص جس نے اپنی زندگی کا کچھ حصہ سفر کرنے میں اور دیگر ثقافتوں اور اقدار کو سجھنے میں گزارا ہو اس کی سوچ اور خیالات اس شخص سے زیادہ وسیع ہوتے ہیں جس نے اپنی ساری زندگی چار دیواری میں بند رہ کر گزاری ہو۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ مختلف مقامات کے بارے میں مطالعہ کرتے ہیں جس سے وہ اس جگہ کی تصوراتی سیر کرلیتے ہیں۔ لیکن یہ کبھی بھی جسمانی حرکت اور اس تجربے کا متبادل نہیں ہوسکتے جو انسان خود سفر کرکے حاصل کرتا ہے۔
موجودہ دور میں سفر کا شوق صرف نوجوانوں اور مغربی لوگوں کو ہی نہیں ہے بلکہ ہمیں ہوائی جہازوں اور ٹرینوں میں ایسے بہت سے بزرگ افراد ملیں گے جو ریٹائر ہونے کے بعد اپنی زندگی میں نیا تجربہ حاصل کرنے کے لیے دنیا کی سیر کو نکل پڑتے ہیں۔ تو سفر کرنے سے نوجوان اور بزرگ دونوں ہی یکساں تجربات حاصل کرتے ہیں۔ گزشتہ ادوار میں سفرنامے لکھنے والے نامور افراد کا تعلق مشرق سے ہی تھا۔
لیکن ضروری نہیں ہے کہ جو ہم کتابوں یا سفرناموں میں پڑھیں وہ ہمیشہ درست ہو۔ اس کے ذریعے اکثر ہمارے ذہنوں میں لوگ غلط معلومات ڈالنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ ایک دفعہ اگر ہم اسی جگہ کی سیر کرلیں تو ہمارا تجربہ مکمل تبدیل ہوسکتا ہے۔ جو ہم دوسروں سے سنتے اور ان کے سفرنامے پڑھتے ہیں اس سے ہمارے ذہنوں میں اس جگہ کے حوالے سے ایک جانبدارانہ تصور پیدا ہوجاتا ہے۔ جب ہم خود سیر کرکے دیکھتے یا سنتے ہیں تب ہمارے دل و دماغ میں اس جگہ کے حوالے سے نئے خیالات جنم لیتے ہیں۔
مارک ٹوین کے مطابق سفر کرنے سے تعصب اور تنگ نظری میں کمی آتی ہے اور یوں دوسروں کے طرز زندگی کے بارے میں ہمدردانہ نظریے کو فروغ ملتا ہے۔ سفر کرنے سے انسان کی اپنی شخصیت کے بھی کچھ پہلو پروان چڑھتے ہیں اور اس سے انسان کی ایسی شخصیت باہر آتی ہے جو معاشرے کے تنگ ماحول کے باعث اس کے اندر ہی کہیں قید تھی۔
1921ء میں ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے والے فرانسیسی ادیب، اناتول فرانس نے کہا تھا کہ انسان اور فطرت کے درمیان اصل ہم آہنگی سفر کرنے سے دوبارہ قائم ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اپنے اصل سے دوبارہ جڑنے کے لیے، ہمیں اپنی معمول کی زندگیوں سے وقفہ لےکر سفر کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ مضمون 31 جنوری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری فری لانس کالم نگار ہیں اور مذہب میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔