آئی ایم ایف پیکج کوئی حل نہیں، اصلاحات کی ضرورت ہے، معاشی ماہرین
ان حالات میں جب کہ پاکستان کا معطل قرض پروگرام بحال کرنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ کی ٹیم کے حکام کے ساتھ مذاکرات متوقع ہیں، معاشی ماہرین نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف حکام کے دورے سے وقتی ریلیف کی امید ضرور پیدا ہوئی ہے لیکن معاشی مسائل سے چھٹکارا پانے اور بیمار معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے مزید سخت اصلاحات کی ضرورت ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سابق سربراہان نے معاشی عدم استحکام کی وجوہات بتائیں اور اس صورتحال سے نکلنے کا راستہ بھی تجویز کیا۔
سابق قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک مرتضیٰ سید نے کہا کہ آئی ایم ایف ٹیم کی آمد امید کی کرن ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ سے بچنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
انگریزی روزنامے میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مرتضیٰ سید نے کہا کہ مارچ 2021 میں پاکستان قرض پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا اور کووڈ 19 سے نمٹنے کے باعث اسے عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
انہوں نے لکھا کہ شرح نمو میں زبردست اضافہ ہوا تھا جب کہ سرکاری قرضے جی ڈی پی کے 6.5 فیصد کم ہوگیا تھا، کرنٹ اکاؤنٹ متوازن تھا اور زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 50 فیصد اضافے کے بعد 17 ارب ڈالر ہو گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان کامیابیوں کے باوجود پاکستان کا ترقی کا ماڈل کھپت اور درآمدات پر مبنی ہے، ترقی کے اس ماڈل میں ٹیکس اور برآمدات جی ڈی پی کا بہت معمولی حصہ ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مشکلات کا آغاز 2022 میں توسیعی بجٹ سے ہوا جسے اس یقین کے ساتھ کیا گیا تھا کہ شرح نمو سے پاکستان کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان گزشتہ سال کے اوائل میں آئی ایم ایف سے رابطہ کر سکتا تھا جب زرمبادلہ کے ذخائر کافی مستحکم پوزیشن میں تھے۔
سابق گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا کہ آئی ایم ایف جیسے عالمی قرض دہندگان کو ابھرتی معیشتوں کو قرض کے مسائل سے نکالنے میں مدد کے لیے خود مختار قرض کے فنانسنگ فریم ورک کو آگے بڑھانا چاہیے۔
اس وقت ’الواریز اینڈ مارسل‘ میں خود مختار مشاورتی خدمات کے گلوبل ہیڈ رضا باقر نے کہا کہ سری لنکا اب بھی سنگین معاشی حالات سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرض ریلیف ملنے کا منتظر ہے۔
انہوں نے سی این بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان جیسی ابھرتی مارکیٹوں کا معاشی آؤٹ لک حالیہ دنوں میں نظر آنے والے مثبت رجحان کے باوجود گزشتہ دو برسوں کے دوران تیزی سے خراب ہوا، اس کی اہم وجہ حکومتی قرضوں میں تیز رفتار اضافہ ہے۔
سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے کہا کہ اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کی خواہشات کی وجہ سے پاکستانی معیشت کا اعصابی نظام مفلوج ہو چکا۔
شبر زیدی نے 15 سال کے لیے مالی ایمرجنسی کی تجویز پیش کی جس کے دوران ’پاکستان نواز اور غریب نواز‘ مستقل پلان تشکیل دیا جائے۔
انہوں نے چین، ترکیہ، سری لنکا، انڈونیشیا، ملائیشیا اور دیگر ممالک کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدوں کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
انہوں نے ریٹیلرز اور ہول سیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور ہر گھر اور پلاٹ کی ملکیت کی نشاندہی کرنے، زرعی زمین کی تمام لیز واپس لینے کا مشورہ دیا۔
انہوں نے بھارت کے ساتھ اوپن ٹریڈ، ترکمانستان-افغان-پاکستان-بھارت گیس پائپ لائن پر کام شروع کرنے کی تجویز بھی دی۔