نقطہ نظر

چیٹ جی پی ٹی: کس کے گھر جائے گا یہ سیلابِ بلا میرے بعد؟

اس بلاگ میں آپ نے مصنوعی ذہانت کے صرف ایک پہلو کی جھلک دیکھی ہے، ورنہ یہ اپنے آپ میں ایک وسیع اور حیرت انگیز دنیا ہے۔

یہ بلاگ ’چیٹ جنریٹیو پری ٹرینڈ ٹرانسفارمر‘ المعروف ’چیٹ جی پی ٹی‘ کے بارے میں ہے، جس کے تذکرے آج دنیا بھر میں زبان زدِ عام ہیں۔

کہنے کو تو یہ ایک چیٹ بَوٹ (Chat bot) ہے جسے انسانوں کے ساتھ، انسانوں کی طرح (لکھ کر) بات کرنے اور ان کے سوالوں کے جوابات دینے کے لیے بنایا گیا ہے لیکن یہ کوئی عام چیٹ بَوٹ ہرگز نہیں کیونکہ اس کے پاس معلومات کا بہت ہی وسیع ذخیرہ (بہت بڑا ڈیٹا سیٹ) ہے جو اسے تقریباً کسی بھی طرح کے سوال کا جواب دینے کے قابل بناتا ہے۔ اس کی تفصیل پر ہم بعد میں آئیں گے۔

خیر! چیٹ جی پی ٹی کے چرچے جس طرح سے چار دانگ عالم میں ہیں، انہیں دیکھ کر یہ بنگال کا جادو محسوس ہوتا ہے جو ساری دنیا کے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

من چلے اس سے عجیب و غریب (اور ناگفتنی قسم کے) سوالات کرکے اپنا دل پشوری کررہے ہیں تو سنجیدہ لوگ اس سے اپنی معلومات میں اضافے کے لیے مدد اور رہنمائی لے رہے ہیں۔

پھر وہ بھی ہیں جو چیٹ جی پی ٹی سے وابستہ خدشات پر بات کررہے ہیں: کسی کا کہنا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کی وجہ سے لاکھوں صحافی بے روزگار ہوجائیں گے، کوئی کہتا ہے کہ یہ ذہین سافٹ ویئر، اساتذہ کو بھی بے روزگار کردے گا اور کسی کا پیرایۂ بیان قدرے عمومی نوعیت کا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی، درجنوں اقسام کی انسانی ملازمتوں کا خاتمہ کردے گا… غرض جتنے منہ، اتنی باتیں۔ کچھ تو لوگ کہیں گے، لوگوں کا کام ہے کہنا۔

ان تمام باتوں کے باوجود، نہ تو چیٹ بَوٹس کوئی نئی چیز ہیں اور نہ ہی آج ’مصنوعی ذہانت‘ (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کوئی نیا میدان رہ گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ خودکار مشینیں بنانے کی کوششیں کم از کم ڈھائی ہزار سال پر پہلے شروع ہوچکی تھیں اور 20ویں صدی میں کمپیوٹر کی ایجاد سے، انہی کوششوں کے طفیل، مصنوعی ذہانت نے جنم لیا ہے۔

1950ء میں برطانوی ریاضی دان ایلن ٹیورنگ نے ایک ایسے امتحان (ٹیورنگ ٹیسٹ) کا تصور پیش کیا جس میں ایک کمپیوٹر پروگرام اپنی اصلیت چھپاتے ہوئے یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ انسان ہے۔ اب اگر کوئی انسان، اس کمپیوٹر پروگرام کی بات چیت سے یہ پہچان نہ سکے کہ اس سے بات کرنے والا کوئی انسان ہے یا مشین، تو اس پروگرام کو ٹیورنگ ٹیسٹ میں ’کامیاب‘ قرار دیا جائے گا، بصورتِ دیگر وہ کمپیوٹر پروگرام ’ناکام‘ قرار دیا جائے گا۔

یہی وہ موقع تھا جب دنیا ’مصنوعی ذہانت‘ سے روشناس ہوئی اور تب سے لے کر آج تک کمپیوٹر سائنس میں مصنوعی ذہانت پر سنجیدہ تحقیق بتدریج آگے بڑھتی گئی۔

اگرچہ آج بھی کسی ایک کمپیوٹر پروگرام کے لیے ہر طرح کا ٹیورنگ ٹیسٹ پاس کرنا ممکن نہیں، لیکن مختلف شعبوں میں ’خصوصی مہارت‘ کے حامل کمپیوٹر پروگرامز کی کارکردگی، انسانوں سے کہیں بہتر ہوچکی ہے اور وہ ’مدد‘ سے آگے بڑھ کر، انسانوں کی ’رہنمائی‘ کرنے لگے ہیں۔

یقین نہیں آیا؟ تو پھر ’گوگل میپ‘ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ جب بھی اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے گوگل مَیپ کا استعمال کرتے ہیں، تو دراصل آپ مصنوعی ذہانت سے ’رہنمائی‘ حاصل کررہے ہوتے ہیں۔

جب آپ کوئی جدید ورڈ پروسیسر (ٹائپنگ کا سافٹ ویئر) استعمال کرتے ہیں اور وہ خودکار طور پر آپ کے الفاظ اور جملے مکمل کرنے کی تجاویز دے رہا ہوتا ہے تو اس وقت بھی درحقیقت مصنوعی ذہانت ہی آپ کی رہنمائی کررہی ہوتی ہے۔

آپ جب بھی ایک جدید سرچ انجن کے ذریعے انٹرنیٹ پر کچھ تلاش کرتے ہیں تو وہ نہ صرف آپ کی مطلوبہ چیز سے متعلق نتائج دکھاتا ہے بلکہ اگر آپ کے لکھے ہوئے الفاظ میں کوئی غلطی ہو تو وہ اس کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ کیا یہ مصنوعی ذہانت نہیں؟

یاد دلاتے چلیں کہ اسمارٹ فون بھی دراصل ایک کمپیوٹر ہی ہے جو اپنے وجود میں مصنوعی ذہانت کے درجنوں پہلو سموئے ہوئے ہے (جن میں سے بیشتر کو ہم استعمال ضرور کرتے ہیں لیکن محسوس نہیں کرپاتے)۔

یہ تو صرف چند مثالیں تھیں ورنہ مصنوعی ذہانت ہماری زندگی کے تقریباً ہر حصے میں سرایت کرچکی ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ آج کمپیوٹر سائنس کے میدان میں جس غیرمعمولی ترقی سے ہم فیضیاب اور لطف اندوز ہورہے ہیں، اس میں مصنوعی ذہانت کا کردار سب سے اہم ہے۔

چیٹ جی پی ٹی اسی ترقی کی ایک تازہ اور مشہور مثال ہے… لیکن اس سے بہتر اور جدید تر مثالوں کے لیے بھی تیار رہیے کیونکہ پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست!

یادش بخیر، آج سے 21 سال پہلے جب ہم نے ماہنامہ ’گلوبل سائنس‘ کے شمارہ جولائی 2001ء میں ’کمپیوٹر بھی شاعر، لکھاری اور مصور ہوگیا‘ کے عنوان سے پروفیسر ڈاکٹر تفسیر احمد کا مضمون شائع کیا تھا (جنہوں نے اس زمانے میں نیا نیا ایم سی ایس کیا تھا اور صرف ’تفسیر احمد‘ کہلاتے تھے) تو بعض دوستوں نے ’بہت لمبی چھوڑ دی ہے‘ کہہ کر اس کا مذاق اُڑایا تھا۔

یہ کوئی عجیب و غریب بات نہیں کیونکہ ہم ایک صارف معاشرے میں رہتے ہیں جو خود سے کچھ نیا بنانے سے زیادہ دوسروں کی بنائی ہوئی، بلکہ ’بنی بنائی‘ چیزیں استعمال کرنے کا عادی ہے۔ ایک صارف معاشرہ اسی طرح سے ایک نئی اور غیر معمولی ایجاد کو سمجھنے اور جاننے کے بجائے، پہلے اسے ردّ کرتا ہے اور پھر بتدریج اسے قبول کرتا چلا جاتا ہے:

  • پہلا مرحلہ، بے یقینی: ’یہ ناممکن ہے!‘
  • دوسرا مرحلہ، حیرت: ’یہ کیسے ہوگیا؟‘
  • تیسرا مرحلہ، عادت: ’بھلا اس میں کونسی بڑی بات ہے!‘ اور
  • چوتھا مرحلہ، محتاجی: ’اس کے بغیر ہمارا گزارا کیسے ہوگا؟‘

بایوٹیکنالوجی سے نینوٹیکنالوجی تک اور کمپیوٹر سے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) تک، لگ بھگ ہر ایجاد و اختراع نے ہمارے معاشرے میں اسی انداز سے مراحل طے کیے ہیں۔

چیٹ جی پی ٹی پر بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کمپیوٹر پروگرامنگ ظاہری طور پر چاہے کیسی بھی ہو، لیکن اس میں 3 چیزوں کی اہمیت سب سے زیادہ ہے: اِن پُٹ، پروسیسنگ، آؤٹ پُٹ۔

جو کچھ بھی آپ کمپیوٹر پروگرام یعنی سافٹ ویئر کو بتاتے ہیں (چاہے وہ لکھ کر ہو، بول کر ہو یا پھر کچھ دکھا کر ہو)، وہ ’اِن پُٹ‘ ہوتا ہے۔

سافٹ ویئر اس اِن پُٹ پر جتنی بھی اور جیسی بھی کارروائی کرتا ہے، وہ ’پروسیسنگ‘ کے دائرے میں آتی ہے۔ پروسیسنگ کا عمل بہت سادہ بھی ہوسکتا ہے اور انتہائی پیچیدہ بھی، جس کا انحصار اس کام کی نوعیت پر ہوتا ہے جو اس سافٹ ویئر سے لیا جانا ہوتا ہے۔ پروسیسنگ بہتر بنانے کے لیے کسی سافٹ ویئر میں پہلے سے کچھ معلومات (ڈیٹا) کا بھی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔

کارروائی مکمل کرنے کے بعد کمپیوٹر پروگرام جو نتیجہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہے، وہ اس کا آؤٹ پُٹ ہوتا ہے۔

اس مختصر سی وضاحت کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ کمپیوٹر کو جیسا اِن پُٹ دیا جائے گا، اس سے ویسا ہی آؤٹ پُٹ ملے گا۔

آسان اور دلچسپ پیرائے میں یہی بات ’گاربیج اِن، گاربیج آؤٹ‘ (کچرا دو گے تو کچرا ملے گا) کے الفاظ میں کہی جاتی ہے، جس سے ظاہر ہے کہ کمپیوٹر ’اپنی طرف سے‘ کچھ نیا تخلیق نہیں کرتا بلکہ دی گئی ہدایات (اِن پُٹ) اور دستیاب معلومات (ذخیرہ شدہ ڈیٹا) استعمال کرتے ہوئے اپنا کام (پروسیسنگ) کرتا ہے اور نتیجہ (آؤٹ پُٹ) آپ کے سامنے پیش کردیتا ہے۔

سافٹ ویئر کا انداز بدل سکتا ہے، اس کا اظہار (انٹرفیس) تبدیل ہوسکتا ہے، اس میں پروسیسنگ بھی بہت پیچیدہ ہوسکتی ہے لیکن عملاً وہ ان 3 چیزوں سے ہٹ کر کچھ نہیں کرسکتا۔

بلاگ کی ابتدا میں بتایا جاچکا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی ایک ایسا سافٹ ویئر (چیٹ بَوٹ) ہے جسے ’بہت بڑا ڈیٹا سیٹ (یعنی بہت زیادہ معلومات) استعمال کرتے ہوئے، انسانوں کے ساتھ، انسانوں کی طرح (لکھ کر) بات کرنے کے لیے خصوصی تربیت دی گئی ہے۔‘

اگر آپ انٹرنیٹ استعمال کرنے کے ’عادی‘ ہیں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض ویب سائٹس پر پہنچتے ہی وہاں ایک چھوٹے سے خانے میں ایک پیغام دکھائی دیتا ہے: ’میں کیسے آپ کی مدد کرسکتا/ کرسکتی ہوں؟‘ اس کے نیچے ایک خالی ٹیکسٹ باکس میں جب آپ اپنا سوال ٹائپ کرتے ہیں تو فوراً ہی ایک جواب نمودار ہوجاتا ہے (لیکن ضروری نہیں کہ وہ جواب درست ہو اور پوچھے گئے سوال کی مطابقت میں بھی ہو)۔ صارفین سے اس طرح بات کرنے والے خودکار کمپیوٹر پروگرامز کو ’چیٹ بَوٹس‘ (Chat bots) کہا جاتا ہے۔

چیٹ بَوٹس بذاتِ خود کوئی نئی چیز نہیں۔ دنیا کا پہلا چیٹ بوٹ ’ایلیزا‘ 1966ء میں ایم آئی ٹی کے پروفیسر جوزف ویزنبام نے ایجاد کیا تھا۔ یعنی اوّلین چیٹ بوٹ کو آج 57 سال ہوچکے ہیں۔ (آپس کی بات ہے، سرچ انجنز بھی اندرونی طور پر چیٹ بَوٹس سے کچھ خاص مختلف نہیں ہوتے۔) چیٹ بَوٹ کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر ہم چیٹ جی پی ٹی پر بات آگے بڑھائیں گے۔

فرض کیجیے کہ ایک ای کامرس ویب سائٹ پر درجنوں اقسام کی مصنوعات (پروڈکٹس) دستیاب ہیں اور وہ اپنے گاہکوں (کسٹمرز) کی تیز رفتار اور خودکار رہنمائی کے لیے ایک ’کسٹمر سپورٹ چیٹ بَوٹ‘ بنوانا چاہتی ہے۔

اب چیٹ بَوٹ بنانے والے کمپیوٹر پروگرامرز (یا سافٹ ویئر انجینئرز) کو اس ویب سائٹ پر دستیاب تمام مصنوعات کی تفصیلات اور متعلقہ ویب پیجز کے لنکس فراہم کیے جائیں گے جنہیں وہ چیٹ بَوٹ کے معلوماتی ذخیرے (ڈیٹابیس) میں اس طرح محفوظ کریں گے کہ انہیں تلاش کیا جاسکے۔

مثلاً ہر پروڈکٹ کے ساتھ اس کی ’کیٹیگری‘ (قسم) کے علاوہ اس پروڈکٹ کا برانڈ نیم (یعنی جس نام سے وہ فروخت ہوتی ہے)، اسے بنانے والی کمپنی کا نام، پروڈکٹ کی مختلف مقداریں اور قیمتیں، متعلقہ ویب پیج (یا ویب پیجز) کے لنکس اور صارفین کی جانب سے پسندیدگی کی درجہ بندی (اسٹار ریٹنگ) وغیرہ جیسی معلومات محفوظ کی جائیں گی۔

ایک پروڈکٹ کو تلاش کرنے والا کوئی صارف کس کس طرح سے اور کیسے کیسے سوالات کرسکتا ہے؟ اس کے لیے ہر پروڈکٹ سے تعلق رکھنے والے خاص الفاظ (کی ورڈز) اس چیٹ بَوٹ کے ڈیٹابیس میں محفوظ کردیے جائیں گے۔

سوال میں کیا پوچھا گیا ہے؟ اس بات کا تعین کسی بھی سوال میں موجود کی ورڈز کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ ان کی ورڈز کو استعمال کرتے ہوئے وہ چیٹ بَوٹ اس ویب سائٹ پر دستیاب متعلقہ مصنوعات کے بارے میں معلومات جمع کرے گا اور انہیں ترتیب دیتے ہوئے اپنا جواب صارف کے سامنے پیش کردے گا۔

مثلاً ایک کسٹمر لکھتا ہے: ’سب سے معیاری اور سستا گھی کونسا ہے؟‘یہاں ’سب سے معیاری‘، ’سستا‘ اور ’گھی‘ وہ 3 خاص الفاظ (کی ورڈز) ہیں جو اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں چیٹ بَوٹ کی رہنمائی کررہے ہیں۔ لہٰذا، وہ اپنے ڈیٹابیس میں ان مصنوعات کی معلومات جمع کرے گا جن کی اسٹار ریٹنگ زیادہ ہو، جنہیں ’گھی‘ کی کیٹیگری میں رکھا گیا ہو اور جن کی قیمت اسی کیٹیگری (گھی) میں موجود دوسری مصنوعات سے کم ہو۔

سوال کی مناسبت سے تمام معلومات اور لنکس وغیرہ کو یکجا کرکے وہ چیٹ بَوٹ اپنا جواب اس طرح سے (انسانوں جیسی زبان میں) لکھے گا کہ جیسے وہ خود کسٹمر سپورٹ کا کوئی نمائندہ ہو اور پھر کسٹمر کے سامنے وہ جواب پیش کردے گا۔

ایک اچھا چیٹ بَوٹ صرف کی ورڈز ہی کو نہیں دیکھے گا بلکہ وہ سوال میں ان کی ترتیب بھی مدِنظر رکھے گا اور جواب بھی اسی انداز میں دے گا۔ اب چونکہ یہاں ’سب سے معیاری‘ پہلے آیا ہے، لہٰذا چیٹ بَوٹ اپنے جواب میں ’گھی‘ کی کیٹیگری سے تعلق رکھنے والی ان مصنوعات کو پہلے رکھے گا کہ جن کی اسٹار ریٹنگ سب سے زیادہ ہو۔

اگر ’گھی‘ کی کیٹیگری میں ’سستا‘ کی ورڈ رکھنے والی مصنوعات میں ریٹنگ بھی اچھی ہوگی تو وہ انہیں اپنے جواب کے شروع میں رکھے گا اور اگر ایسا نہیں، تو پھر وہ انہیں بعد میں رکھ دے گا۔ (بہت ممکن ہے کہ کم معیار کا گھی بنانے والی کمپنیوں نے فروخت بڑھانے کے لیے قیمت کم رکھی ہو، لیکن خریداروں نے گھی کا معیار بہتر نہ پایا ہو۔)

یہاں کسٹمر کا سوال ’اِن پُٹ‘ ہے، سوال میں کی ورڈز کو شناخت کرنے سے لے کر جواب ترتیب دینے تک کے مراحل ’پروسیسنگ‘ کے تحت آتے ہیں، جبکہ کسٹمر کے سامنے جواب پیش کرنے کا مرحلہ ’آؤٹ پُٹ‘ ہوگا۔

اب اگر آپ اس چیٹ بَوٹ سے پاکستان کے سیاسی حالات سے متعلق کچھ پوچھیں گے تو بہت ممکن ہے کہ وہ جواب ہی نہ دے سکے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جواب میں وہ ویب سائٹ پر دستیاب مختلف مصنوعات کی ایک بے ہنگم فہرست آپ کے سامنے پیش کردے۔ ارے! وہ بے چارہ تو ایک کسٹمر سپورٹ چیٹ بَوٹ ہے، اس سے ہٹ کر وہ کوئی اور جواب دے بھی نہیں سکتا۔

اب سمجھ میں آیا کہ ہم نے ’گاربیج اِن، گاربیج آؤٹ‘ والی بات کیوں کی تھی؟

اب تک اتنا تو واضح ہوچکا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی واقعی میں ایک چیٹ بَوٹ ہے، البتہ اس کی صلاحیتیں بلاشبہ غیرمعمولی ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ اسے وکی پیڈیا سے لے کر ہزاروں نیوز سائٹس اور ریسرچ جرنلز تک سے لی گئی معلومات (ڈیٹا) پر تربیت دی گئی ہے۔ یقین مانیے کہ اگر وہ تمام معلومات مختصراً بھی یہاں بیان کردیں تو آپ اکتاہٹ کے مارے یہ بلاگ پڑھنا ہی چھوڑ دیں گے۔

سرِدست صرف اتنا جان لیجیے کہ چیٹ جی پی ٹی کو سیکڑوں ٹیرابائٹس (یعنی لاکھوں گیگابائٹس) کے ڈیٹا پر تربیت دی گئی ہے جو دنیا کی 95 زبانوں میں انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ بی بی سی فوکس میگزین کے مطابق، یہ ڈیٹا 300 ارب الفاظ پر مشتمل تھا۔ یعنی اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ ایک کتاب میں اوسطاً ایک لاکھ الفاظ ہوتے ہیں، تو چیٹ جی پی ٹی کی تربیت میں تیس لاکھ کتابوں جتنا تحریری مواد استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے ہٹ کر، چیٹ جی پی ٹی کو 50 ہزار انگریزی الفاظ بھی سکھائے گئے ہیں اور اس کی تربیت میں انگریزی زبان کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔

لیکن چیٹ جی پی ٹی کی مہارت (یا اس کی ’چرب زبانی‘) کا دار و مدار صرف اس کے وسیع ذخیرہ الفاظ (ڈیٹاسیٹ) پر نہیں بلکہ اس طریقے پر بھی ہے کہ جس کے تحت اسے تربیت دی گئی ہے۔

مصنوعی ذہانت (اے آئی) میں انسانی زبانیں سمجھنے، لکھنے اور بولنے کی کوششوں کو مجموعی طور پر ’نیچرل لینگویج پروسیسنگ‘ (این ایل پی) کہا جاتا ہے۔ اسی تسلسل میں دوسری اہم چیز ’ڈِیپ لرننگ‘ (گہرا اکتساب) ہے جو بذاتِ خود ’مشین لرننگ‘ (مشینی اکتساب) کی ایک قسم ہے۔ یہ مصنوعی ذہانت ایسے طریقوں کا مجموعہ ہے جن کی مدد سے کوئی سافٹ ویئر بتدریج ’سیکھتا‘ ہے اور اپنی کارکردگی کو خوب سے خوب تر بناتا چلا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ کمپیوٹر میں انسان کی طرح سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ وہ صرف اپنی معلومات (ڈیٹا) کے ذخیرے میں موجود مختلف (اور بظاہر ایک دوسرے سے غیر متعلق) چیزوں (مثلاً الفاظ اور جملوں) کا آپس میں تعلق قائم کرتا ہے۔ لہٰذا، ضروری نہیں کہ یہ تعلق درست بھی ہو۔ اگر اس مرحلے پر جیتے جاگتے انسانوں سے مدد اور رہنمائی لی جائے تو سافٹ ویئر کے سیکھنے کا عمل بہتر ہوسکتا ہے۔ اس ’انسانی رہنمائی‘ کے بعد وہ خودکار انداز سے اپنے سیکھنے کا عمل مزید بہتر بناسکتا ہے۔

چیٹ جی پی ٹی کی کہانی بھی یہی ہے: انسانوں کی طرح ’لکھ کر‘ بات کرنے کے قابل بنانے کے لیے انسانوں نے اسے ابتدائی طور پر مختلف معلومات کے ذریعے تربیت دی، اس قابل بنایا کہ وہ کسی سوال میں موجود کی ورڈز کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی معلومات کے مختلف حصوں کو آپس میں یکجا کرے، مختلف جوابات مرتب کرے اور ان میں سے موزوں ترین جواب منتخب کرکے اسے بطور آؤٹ پُٹ پیش کردے۔

تربیت مکمل ہوجانے کے بعد اسے خودکار انداز سے مزید سیکھنے اور خود کو بہتر بنانے کے مرحلے سے گزارا گیا، جس میں انواع و اقسام کی معلومات (ڈیٹا) استعمال کی گئیں اور یوں چیٹ جی پی ٹی ایک ’ہر فن مولا‘ قسم کا ’حاضر جواب‘ چیٹ بَوٹ بن گیا جو آج ساری دنیا کو حیران کررہا ہے۔

واضح کرتے چلیں کہ تکنیکی اعتبار سے چیٹ جی پی ٹی کی تیاری ایک بہت ہی پیچیدہ عمل رہی ہے جسے ہم نے ہر ممکن حد تک آسان الفاظ میں بیان کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔

یہ چیٹ بَوٹ چاہے کتنا ہی چرب زبان اور حاضر جواب کیوں نہ ہو، لیکن جتنی معلومات پر بھی اسے تربیت دی گئی ہے وہ 2021ء تک کی ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ فی الحال اس کا انٹرنیٹ سے کوئی رابطہ نہیں بلکہ یہ صرف اپنا ڈیٹابیس کھنگال کر ہی سوالوں کے جوابات دیتا ہے۔ اس لیے اگر آپ اس سے 2021ء کے بعد سے متعلق کچھ جاننا چاہیں گے تو شاید یہ کچھ بہتر جواب نہ دے سکے۔

ستمبر 2020ء میں برطانوی اخبار دی گارجیئن نے ’جی پی ٹی 3‘ (چیٹ جی پی ٹی کے پیشرو چیٹ بَوٹ) سے تجرباتی طور پر ایک کالم (تاثراتی مضمون) لکھوایا تھا۔ یہ مضمون مکمل طور پر جی پی ٹی 3 کا لکھا ہوا تھا جس میں اس نے دلائل کے ذریعے قارئین کو قائل کیا تھا کہ انسانوں کو مصنوعی ذہانت کی جدید ترقی سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ (چیٹ جی پی ٹی میں اس سے بھی جدید ورژن ’جی پی ٹی 3.5‘ استعمال کیا گیا ہے۔)

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ (اے پی) بھی گزشتہ چند سال سے خبروں کی تلاش اور تلخیص کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کررہا ہے۔یہی نہیں، بلکہ اب تو چیٹ جی پی ٹی ایک تحقیقی مقالے (ریسرچ پیپر) کا شریک مصنف (کو آتھر) بھی بن چکا ہے۔

ان سب کے علاوہ، چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے چھوٹے موٹے کمپیوٹر پروگرامز کا کوڈ بھی لکھا جاسکتا ہے اور یہ اسائنمنٹس لکھنے میں طالب علموں کی مدد بھی کرسکتا ہے۔

تو کیا ان سب باتوں کا مطلب یہ ہے کہ صحافی، مقالہ نگار، کمپیوٹر پروگرامرز اور اساتذہ بھی بے روزگار ہوجائیں گے؟

’چھوٹے موٹے کام جنہیں انجام دینے کے لیے مختلف جگہوں سے معلومات (ڈیٹا) جمع کرکے ایک مخصوص انداز سے ترتیب دینے کی ضرورت ہو، ان کاموں میں تو شاید کچھ سال بعد ہی مصنوعی ذہانت، انسانوں کو ملازمت سے محروم کردے گی‘۔

ڈاکٹر تفسیر احمد نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا، ’لیکن ہر وہ کام جہاں اوریجنل (طبع زاد) یعنی ’کچھ نیا‘ تخلیق کرنا ہو، وہاں انسانوں کی ضرورت بہرحال موجود رہے گی‘۔

یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے طفیل ’کاپی پیسٹ جرنلزم‘ کی چھٹی ہوجائے گی لیکن اپنی تخلیقی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے، نت نئے خیالات پیش کرنے والوں کے لیے اس سے کچھ خاص مسئلہ نہیں ہوگا۔ لہٰذا ’اصلی صحافیوں اور قلم کاروں‘ کے کام اور ملازمت کو مصنوعی ذہانت سے فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ کمپیوٹر پروگرامرز، سائنسی ماہرین اور اساتذہ کا بھی ہے، یعنی گھبرانا نہیں ہے!

جناب مشتاق احمد یوسفی کی شاہکار تصنیف ’آبِ گُم‘ میں مرکزی کردار بشارت فاروقی کی ساس صاحبہ جب بہت زیادہ گھبرا جاتیں تو وہ تشویش کے عالم میں اپنے شوہر سے پوچھتیں: ’اب کیا ہوئے گا؟‘ پہلے پہل تو سُسر صاحب فرماتے: ’دیکھتے ہیں!‘ لیکن جیل کی ہوا کھانے کے بعد ان کا انداز بدل گیا اور جواباً ’دیکھا جائے گا‘ اور ’بیگم! تم دیکھتی جاؤ‘ کہنے لگے۔

مصنوعی ذہانت کے مستقبل کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اب تک اس میدان میں جتنی ترقی ہوچکی ہے، اس کی بدولت ایسے جدید اور ’ذہین اوزار‘ (اسمارٹ ٹولز) ایجاد ہوچکے ہیں جو وسیع اور پیچیدہ ڈیٹا کو برق رفتاری سے کھنگال کر مطلوبہ نتائج اور پیش گوئیاں کرنے سے لے کر بڑی مہارت سے جعلسازی تک کرسکتے ہیں۔ اس کی ایک مشہور مثال ’ڈِیپ فیک‘ ہے جو اتنی صفائی سے کسی شخص کی ایسی جعلی ویڈیو بناسکتا ہے جس پر اصل کا گمان ہو۔

اب تک تو کمپیوٹر ہم انسانوں کی نقالی ہی کررہا ہے، لیکن کیا مستقبل میں وہ انسانوں ہی کی طرح ایک منفرد شخصیت کا حامل بن جائے گا؟ کیا کبھی کمپیوٹر کو اپنے وجود کا بھی احساس ہوگا؟ کیا مصنوعی ذہانت سے متعلق وہ خیالی منظرنامے سچ ہوجائیں گے جو سائنس فکشن میں پیش کیے جارہے ہیں؟ کیا آنے والی دہائیوں اور صدیوں میں اس دنیا پر کمپیوٹر کا قبضہ ہوگا اور انسان اس کے غلام ہوں گے؟

خدشات سے لبریز سوالوں کی ایک قطار ہے جو ہاتھ باندھے ہمارے سامنے کھڑی ہے اور ان تمام سوالوں کا محتاط جواب صرف اتنا ہے کہ کم از کم ہمارے جیتے جی شاید ایسا نہ ہو۔ کمپیوٹر کا مقصد انسان کو سہولت فراہم کرنا ہے، اس پر حکومت کرنا ہرگز نہیں۔ لیکن اگر کمپیوٹر ایسا کرے گا تو اس کے پیچھے بھی انسانی گروہوں، اداروں اور ریاستوں کی اپنی شعوری کوششیں ہوں گی۔ یعنی کمپیوٹر کی آڑ میں انسان ہی دوسرے انسانوں کو اپنا غلام، اپنا دستِ نگر بنا رہے ہوں گے۔

چیٹ جی پی ٹی اور اس طرح کے دوسرے ذہین سافٹ ویئر تیار کرنے والی کمپنی ’اوپن اے آئی‘ کے شریک بانی سیم آلٹمین واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ان کی کمپنی کا مقصد ’انسان دوست مصنوعی ذہانت‘ پر کام کرنا ہے اور یہ بھی کہ فی الحال عمومی مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس) پر وہ کام کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔

افواہیں گردش میں ہیں کہ جی پی ٹی 4 (جس پر چیٹ جی ٹی پی کی اگلی نسل کو تربیت دی جائے گی) موجودہ چیٹ جی پی ٹی سے بھی بہت زیادہ ترقی یافتہ ہوگا اور یہ کہ اسے اگلے چند ماہ میں جاری کردیا جائے گا۔ لیکن سیم آلٹمین نے ان افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا: ’ہم اسے وقت آنے پر جاری کریں گے، جب تک کہ ہم اس کے محفوظ (یعنی انسان دوست) ہونے پر مطمئن نہ ہوجائیں‘۔

صارف معاشروں کے معصومانہ سوال (اب کیا ہوئے گا؟) کے جواب میں ترقی یافتہ معاشروں کا انداز ’دیکھتے ہیں! جیسے محتاط پیرائے سے لے کر ’دیکھتے جاؤ!‘ جیسے حاکمانہ طرزِ تخاطب تک پھیلا ہوا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں ٹیکنالوجی سے کوئی خطرہ نہیں بلکہ اصل خطرہ ان لوگوں سے ہے جن کے ہاتھوں میں جدید ٹیکنالوجی کی باگ ڈور ہے، جو انسان ہیں اور واضح طور پر سیاسی مقاصد بھی رکھتے ہیں۔

اس بلاگ میں آپ نے مصنوعی ذہانت کے صرف ایک پہلو کی جھلک دیکھی ہے، ورنہ یہ اپنے آپ میں ایک وسیع اور حیرت انگیز دنیا ہے۔ بہت کچھ لکھنے کا دل چاہ رہا تھا لیکن قلم روکنا پڑا کیونکہ تحریر پہلے ہی بہت طویل ہوچکی ہے۔

جناب وہارا امباکر سے ایک انٹرویو کا اقتباس پیش کرتے ہوئے یہ تشنہ بلاگ ختم کرتے ہیں:

’مصنوعی ذہانت دو دھاری تلوار ہے۔ اس پر پائی جانے والی آرا انتہائی مایوسانہ (یہ ہماری آخری ایجاد ہے کہ اس کے بعد ہم ہی نہیں رہیں گے) سے لے کر انتہائی پُرامیدی تک (یہ ہماری آخری ایجاد ہے کہ اس کے بعد مزید کچھ ایجاد کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی) کے اسپیکٹرم میں ہیں۔

’حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اسے غیر اہم مسئلہ سمجھتے ہیں، وہ اس بارے میں غلطی پر ہیں۔ مشینیں پہلے ہی بہت سے معاملات میں انسان کی جسمانی قوت کی جگہ سنبھال چکی ہیں۔ کرین، بلڈوزر، ٹریکٹر جیسی مشینوں نے بائیالوجی (حیاتیات) کو اس مشقت سے نجات دلا دی ہے۔ لیکن یہ اگلی لہر مختلف ہے۔ اس میں انسان کی ذہنی صلاحیت کی اہمیت خطرے میں ہے۔ مصنوعی ذہانت سے مسئلہ خود آگاہی کا نہیں۔ اس سے خطرہ اس کی اہلیت (competence) ہے۔

’کیا ہم مشینوں کو انسانی اخلاقیات کا سبق دے سکیں گے؟ اگر کسی مشین کا مقصد یہ طے کیا جائے کہ اپنے مسافروں کو جلد سے جلد منزل تک پہنچانا ہے۔ اگر ایک خودکار گاڑی نے برق رفتاری سے یہ کام کرلیا لیکن اس بدترین ڈرائیونگ کا مظاہرہ کیا اور منزل پر پہنچنے والے اب الٹیاں کر رہے ہیں اور اس سفر میں کئی زندگیاں خطرے میں تھیں، تو مشین نے اپنا مقصد کامیابی سے ضرور پورا کرلیا لیکن کیا اسے ہمارے نقطہٴ نظر سے کامیاب کہا جائے گا؟ کسی انسان کو جب مقصد دیا جاتا ہے تو اس قسم کی ذیلی تفصیلات بتانا ضروری نہیں کہ حدود کیا ہیں۔

’کیا ہم اپنے اور مشینوں کے مقاصد ہم آہنگ کر پائیں گے؟ یہ طے کرنا کس کا کام ہوگا اور اس پر کس کا کنٹرول ہوگا؟ ان کی کسی غلطی سے پہنچنے والے نقصان کی ذمہ داری کس کی ہوگی اور اس کا تعین کیسے ہوگا؟ یہ اصل مسائل ہیں۔

’ایسی ذہانت جو خود آگاہی حاصل کرکے انسانوں سے مقابلہ کرنا شروع کردے، یہ تو سائنس فکشن کی کہانیاں ہیں جو اس بارے میں سنجیدہ گفتگو میں رکاوٹ ہیں، لیکن ان سے خطرہ اصل ہے۔ ہم اپنے فیصلے غیر شعوری طور پر مشینوں کے حوالے اس وقت بھی کر رہے ہیں۔ کریڈٹ کارڈ کی درخواست سے لے کر ویزہ دینے یا سرمایہ کاری کے فیصلوں تک میں انسانی دماغ کی اثر اندازی اب کم ہوتی جارہی ہے۔

’اس انقلاب کو روکا نہیں جاسکتا۔ مشینوں کے دور میں انسان ہونے کا مطلب کیا ہوگا؟ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے۔‘


بلاگر کا شمار پاکستان کے سینئر ترین سائنسی صحافیوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے سائنسی صحافتی سفر کا آغاز 1987ء میں کیا۔ اس دشت کی سیاحی آج تک جاری ہے۔ ان کی تازہ ترین کتاب ’سائنس، فراڈ اور دھوکہ‘ ہے جو اگست 2021ء میں شائع ہوئی ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

علیم احمد

علیم احمد نے 1987ء میں اردو ماہنامہ ’ سائنس میگزین’سے سائنسی صحافت کا آغاز کیا اور 1991ء میں اسی جریدے کے مدیر مقرر ہوئے۔ 1993ء سے 1995ء تک ریڈیو پروگرام’سائنس کلب’سے وابستہ رہے۔ 1997ء میں’سائنس ڈائجسٹ’کے مدیر کی ذمہ داری سنبھالی اور 1998ء میں ماہنامہ ’ گلوبل سائنس’شروع کیا، جو 2016ء تک جاری رہا۔ آپ کی حالیہ تصنیف’سائنسی صحافت: ایک غیر نصابی، عملی رہنما ’ ہے جو اردو زبان میں سائنسی صحافت کے موضوع پر پہلی کتاب بھی ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔