’نفرت کا نظریہ بھارت کو کھا رہا ہے‘
مہاتما گاندھی کے پڑپوتے نے ان کے قتل کے 75 برس مکمل ہونے سے قبلاپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت میں ہندو قوم پرستی کی بڑھتی لہر انسانی حقوق کے علمبردار رہنما کی میراث کے خلاف ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی خبر کے مطابق مہاتما گاندھی کو 30 جنوری 1948 کو کثیر المذاہب دعائیہ تقریب میں مذہبی جنونی شخص ناتھورام گوڈسے نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا، قاتل شخص ملک کی اقلیتی مسلم کمیونٹی کے لیے ان کے مصالحانہ رویے پر نالاں تھا۔
ناتھورام گوڈسے کو ایک سال بعد پھانسی دے دی گئی اور ملک میں بڑے پیمانے پر اس کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا رہا لیکن عالمی امن کی علامت رہنما اولاد میں سب سے نمایاں فرد، مصنف اور سماجی کارکن تشار گاندھی کہتے ہیں کہ ان کے خیالات اب بھارت میں تشویشناک ہیں۔
انہوں نے ممبئی میں اپنے گھر پر اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نفرت، پولرائزیشن اور تقسیم کے نظریے اور فلسفے نے اب بھارت اور بھارتی عوام کے دلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، ان کے لیے یہ فطری ہے کہ ناتھورام گوڈسے ان کے لیے سب سے بڑا محب وطن اور ان کا آئیڈیل ہے۔
63 سالہ تشار گاندھی نے اس خطرناک تبدیلی کی وجہ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے عروج کو قرار دیا۔
نریندر مودی نے 2014 میں اقتدار سنبھالا اور تشار گاندھی کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت ان سیکولر اور کثیر الثقافتی روایات کو مجروح کرنے کی ذمہ دار ہے جن کے تحفظ کے لیے مہاتما گاندھی نے کوشش کی۔
تشار گاندھی نے مزید کہا کہ نرنندر مودی کی کامیابی نفرت پر مبنی ہے، ہمیں اس حقیقت کو ماننا چاہیے، اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اپنے دل میں وہ بھی یہ بات مانتا ہوگا کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ ایک ایسی آگ جلانے کے مترادف ہے جو ایک دن پورے بھارت کو ہی بھسم کر دے گی۔
آج ماہتما گاندھی کے قاتل کو بہت سے ہندو قوم پرست قبل عزت شخص قرار دیتے ہیں، ناتھورام گوڈسے کے نام پر ایک مندر 2015 میں نئی دہلی کے قریب مودی کے انتخاب کے ایک سال بعد تعمیر کیا گیا اور سماجی کارکنوں نے ان کے نام پر ایک بھارتی شہر کا نام رکھنے کے لیے مہم چلائی۔
ناتھورام گوڈسے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا رکن تھا جو اب بھی انتہائی دائیں بازو کا ہندو قوم پسرس گروپ ہے جس کے ارکان نیم فوجی مشقیں اور دیگر سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔
تشار گاندھی اپنے عالمی شہرت یافتہ بزرگ کی ایمانداری، مساوات، اتحاد اور جامعیت کی وراثت کے زبردست محافظ ہیں۔
انہوں نے ماہتما گاندھی اور ان کی اہلیہ کستوربا سے متعلق 2 کتابیں لکھی ہیں، وہ جمہوریت کی اہمیت کے بارے میں عوامی تقریبات میں باقاعدگی سے اظہار خیال کرتے ہیں اور انہوں نے ملک کے سیکولر آئین کے دفاع کی کوششوں کے طور پر بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت میں قانونی پٹیشینز بھی دائر کی ہیں۔
تشار گاندھی آئندہ سال ہونے والے انتخابات میں نریدنر مودی کی ایک اور ٹرم جیتنے کے امکان کے پیش نظر پریشان ضرور نظر آتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ زہر بہت خطرناک حد سرایت کر چکا ہے اور مخالفین اتنے کامیاب ہیں کہ میں بھارت میں اپنے نظریے کو طویل عرصے تک جیتتا ہوا نہیں دیکھ رہا لیکن اس کے باوجود یہ تمام صورتحال مجھے لڑتے رہنے کے عزم کا حوصلہ دیتی ہے۔