پاکستان

انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 7.17 روپے مزید مہنگا ہو کر 262 روپے پر پہنچ گیا

ملک میں نمایاں ترسیلات زر باضابطہ چینلز کے ذریعے آنا شروع ہو گئی ہیں، جو بتدریج بڑھ کر ماہانہ 3 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں، خرم شہزاد

انٹربینک مارکیٹ میں گزشتہ روز ڈالر کی قدر میں 24 روپے سے زائد اضافے کے بعد مسلسل دوسرے روز بھی روپے کی بے قدری جاری ہے، آج ڈالر مزید 7 روپے 17 پیسے اضافے سے 262 روپے 60 پیسے کا ہوگیا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق آج انٹربینک مارکیٹ میں روپے کی قدر میں 2.73 فیصد یا 7 روپے 17 پیسے کی کمی ہوئی، جس کے بعد ڈالر 262 روپے 60 پیسے پر بند ہوا جبکہ گزشتہ روز 255.43 پر بند ہوا تھا۔

دوسری جانب ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ای کیپ) کے مطابق اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی 4:15 بجے 269 روپے پر لین دین ہو رہی تھی، جس کا مطلب ہے ڈالر مزید 7 روپے یا 2.67 فیصد مہنگا ہوگیا اور جبکہ گزشتہ روز اوپن مارکیٹ میں ڈالر 262 روپے کا تھا۔

اس سے قبل ای کیپ کی جانب سے جاری اعداد و شمار میں بتایا گیا تھا کہ صبح 10 بج کر 32 منٹ پر ڈالر 266 روپے 60 پیسے پر ٹریڈ ہو رہا تھا۔

الفا بیٹا کور کے چیف ایگزیکٹیو افسر خرم شہزاد نے کہا کہ ملک میں نمایاں ترسیلات زر باضابطہ چینلز کے ذریعے آنا شروع ہو گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ آنے والے مہینوں میں ترسیلات زر دوبارہ 2 ارب 50 کروڑ ڈالر ماہانہ سے بڑھ کر بتدریج 3 ارب ڈالر کے قریب پہنچ جائیں گی، اسی طرح اگلے چند مہینوں میں برآمدات میں بھی کم از کم 50 کروڑ ڈالر کی بہتری متوقع ہے۔

خرم شہزاد نے کہا کہ کرنسی ایڈجسٹمنٹ (اور حوالا ہنڈی کے بجائے ترسیلات دوبارہ باضابطہ چینلز سے آئیں گے) کی وجہ سے ممکنہ طور پر ڈالر کی آمد بہتر ہو گی اور اسے ملک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے قابل ہونا چاہیے، اور شرح تبادلہ میں استحکام آئے گا اور درآمدات کا راستہ بنے گا۔

الفا بیٹا کور کے سی ای او نے کہا کہ اگر حکومت 4 ماہ قبل کیپ کو ہٹا دیتی تو ملک کو آنے والے مہینوں میں مہنگائی کی بھاری قیمت ادا نہ کرنی پڑتی، مختلف حوالوں سے 6 ارب ڈالر کا نقصان نہ اٹھانا پڑتا اور نہ ہی ساکھ میں کمی آتی اور ایک بہت بڑی گرے مارکیٹ بنتی۔

خرم شہزاد نے مزید کہا کہ امید ہے کہ پالیسی ساز اب دیگر مطلوبہ ایڈجسٹمنٹ کو جاری رکھیں گے اور معیشت کو مستحکم کرنے اور غریبوں کو ٹارگٹڈ ریلیف دینے کے لیے پالیسی ایکشن اور اصلاحاتی حکمت عملی بنائیں گے۔

میٹس گلوبل کے ڈائریکٹر سعد بن نصیر نے کہا کہ کرنسی ایڈجسمنٹ کے بعد ترسیلات زر اور برآمدات کی رقم سمیت ڈالرز کی دیگر آمد کو باضابطہ چینلز سے آتا دیکھا گیا جو حالیہ عرصے میں رک گئی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نمایاں رقم وصول ہو چکی ہے، اور ڈالر کے مستحکم ہونے کی امید ہے، جیسے ہی عالمی مالیاتی فنڈز سے قسط ملتی ہے تو مارکیٹ کو نئی سمت کی توقع ہے۔

سعد بن نصیر نے کہا کہ معیشت سست ہو چکی ہے اور ڈالر کی طلب کم ہو جائے گی، دباؤ صرف بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا ہو گا۔

ای کیپ کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچا نے بتایا کہ مرکزی بینک نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ایکسچینج کمپنیوں کو ڈالر فراہم کیے جائیں گے، لیکن انہیں ابھی تک نہیں مل سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ڈالر کی فراہمی شروع ہو جائے اور حکومت کی ’پیچیدہ‘ پالیسیوں کو درست کر لیا جائے تو روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ روک سکتا ہے۔

ظفر پراچا نے کہا کہ حکومت کی طرف سے درآمد کنندگان کو ڈالر کا خود بندوبست کرنے کی شرط عائد کرنے کا مطلب انہیں گرے مارکیٹ کے ذریعے غیر قانونی طور پر خریدنے کا کہنا ہے کیونکہ وہ ڈالر ایکسچینج کمپنیز سے نہیں خرید سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اپنی پالیسیاں درست کریں اور گرے مارکیٹ کو فروغ نہ دے اور سہولت کار نہ بنے تو ہم حکومت کا بوجھ بانٹنے کے لیے تیار ہیں۔

گزشتہ روز ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ای کیپ) کی جانب سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت کی مقررہ حد (کیپ) ہٹانے کے ایک روز بعد انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر ریکارڈ اضافے کے بعد 255 روپے 43 پیسے کا ہوگیا تھا۔

اسی طرح گزشتہ روز فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق اوپن مارکیٹ میں بھی روپے کی قدر میں 12 روپے یا 4.94 فیصد کی ریکارڈ کمی کے بعد ڈالر 255 روپے پر فروخت ہوا۔

گزشتہ روز انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان ڈالر کی قدر کا فرق تقریباً ختم ہو گیا ہے، جو حالیہ مہینوں میں 15 روپے تک بڑھ گیا تھا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعداد وشمار کے مطابق مرکزی بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 20 جنوری کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران صرف 3 ارب 67 کروڑ 84 لاکھ ڈالر رہ گئے تھے، یہ رقم تین ہفتوں کی درآمدات کے لیے بھی ناکافی ہے۔

پاکستان کو 7 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام کا نواں جائزہ مکمل کرنے کی ضرورت ہے، جس کے بعد اسے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی قسط مل سکے گی، اس کے علاوہ دوست ممالک اور دیگر کثیر الجہتی قرض دہندگان سے ڈالر کی آمد بھی ہو سکے گی، عالمی مالیاتی ادارے کے جائزے کی تکمیل کے لیے مارکیٹ پر مبنی شرح تبادلہ کی شرط بھی تھی۔

پی ٹی آئی نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی تعیناتی سپریم کورٹ میں چیلنج کردی

’آخر ایٹمی توانائی کا حامل پاکستان بجلی کی قلت کا شکار کیسے ہوا؟‘

روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی کی نئی لہر آنے کا خدشہ