پاکستان

اتحادی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کا اجلاس، ’انتخابات میں تاخیر‘ پر تبادلہ خیال

مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی اعلیٰ قیادت نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق امور اور سیاسی اور معاشی مسائل پر بات چیت کی

پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ (پی ڈی ایم) کی تین بڑی سیاسی اتحادی جماعتوں کے اعلیٰ قیادت کا اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں ہوا، جس میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں میں انتخابات اور قومی اسمبلی کی خالی ہونے والی نشستوں پر آئندہ ضمنی انتخابات سمیت عام انتخابات سے متعلق حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف نے پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما آصف زرداری اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی جس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

آصف زرداری کے ساتھ طویل ملاقات کے بعد بیان میں کہا گیا کہ ’مسلسل دوسرے روز وزیراعظم اور ان کے قریبی اتحادی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے سیاسی اور معاشی مسائل پر بات چیت کی ہے۔

یاد رہے کہ قبل ازیں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تجویز دی تھی کہ 9 سے 13 اپریل کے درمیان پنجاب میں اور 15 سے 17 اپریل کے درمیان خیبرپختونخوا میں انتخابات ہوں گے اسی دوران الیکشن کمیشن قومی اسمبلی کی 93 نشستوں میں ضمنی انتخابات کرانے پر بھی غور کررہی ہے جو پی ٹی آئی کے قانون سازوں کے استعفے منظور ہونے کے بعد خالی ہوگئی تھیں۔

حکمران اتحادی جماعت کے عہدیدار کے مطابق دونوں اجلاس میں سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت نے پنجاب اور خیرپختونخوا میں آئندہ انتخابات اور ملکی معاشی چیلنجز کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا اور دونوں صوبوں میں انتخابات کے ممکنہ ملتوی ہونے کا موضوع بھی زیر بحث لایا گیا۔

عہدیدار نے مزید بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے تجویز دی گئی کہ پارٹی کے لیے صوبوں بالخصوص پنجاب میں الیکشن کرانے کا یہ وقت مناسب نہیں ہے، جہاں جماعت کے اندرونی اختلافات کے ساتھ ساتھ ملکی معاشی اور توانائی کے بحران کے درمیان سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کو نواز شریف عدم موجودگی میں انتخابات کے نتائج کے حوالے سے خدشات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ایک جانب جہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اس وقت سیاسی منظرنامے کی زینت بنی ہوئی ہے وہیں انتخابات کرانے کے معاملے پر مسلم لیگ (ن) نے حتمی بیان طے کرنا ہے۔

اجلاس میں موجود سینیر سیاستدان نے ڈان کو بتایا کہ ’اجلاس میں انتخابات میں تاخیر سے متعلق بھی تبادلہ خیال کیا ہے، تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ حتمی فیصلہ آئندہ ہونے والے متعدد اجلاسوں کے بعد سامنے آئے گا۔

سینئر سیاستدان نے مزید بتایا کہ اجلاس میں اتحادی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت نے مردم شماری میں تاخیر کا بہانہ بنا کر انتخابات میں تاخیر کے آپشن پر تبادلہ خیال کیا ہے تاہم آصف زرداری اس سے متعلق قائل نہیں ہوسکے۔

انہوں نےبتایا کہ آصف زرداری نے اس تجویز کے حوالے سے غور کرنے کے لیے وقت مانگا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان ادارہ شماریات نے پہلے ہی ڈیجیٹل مردم شماری کے آغاز میں ایک ماہ کی تاخیر کر دی ہے اور اس کی وجہ ناگزیر حالات اور زمینی حقائق کو قرار دیا ہے، یکم فروری کو ڈیجیٹل مردم کے آغاز کا شیڈول طے تھا بعدازاں اسے یکم مارچ تک مؤخر کردیا گیا، جو ایک ماہ تک جاری رہے گی۔

اکتوبر 2021 کو سابقہ حکومت نے ڈیجیٹل مردم شماری کو آگے بڑھایا تھا اور اکتوبر 2022 میں اس کے آغاز کا شیڈول طے کیا تھا بعدازاں اسے فروری 2023 تک مؤخر کردیا گیا تھا۔

اجلاس سے متعلق پیش رفت میں پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ ان کی جماعت انتخابات میں تاخیر کے حق میں نہیں ہے، اس طرح کا اقدام بے فائدہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر سے نیا سیاسی بحران آسکتا ہے اور پی ٹی آئی کی پوزیشن مزید مضبوط ہوسکتی ہے جو پہلے ہی مؤقف اپناتے ہوئے عوام کو بتارہی ہے کہ اتحادی جماعتیں انتخابات سے بھاگ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کی نشستوں پر ضمنی انتخابات اور صوبوں میں انتخابات دو مختلف مسائل ہیں اور ان کے اثرات بھی مختلف ہیں۔

پیپلزپارٹی کے سینئر سیاستدان نے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے ممکنہ بائیکاٹ کے امکان کو مسترد نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ پارٹی کی قیادت کا خیال ہے کہ اس طرح سے وہ پی ٹی آئی کا دوہری معیار بے نقاب کریں گے کیونکہ پی ٹی آئی بھی انہی نشستوں کے لیے انتخاب لڑے گی جو انہوں نے حال ہی میں چھوڑی تھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر عمران خان ایک سے زائد نشستوں پر دوبارہ انتخاب لڑیں گے تو اس کے نتائج پی ٹی آئی کے خلاف ہی آئیں گے کیونکہ تحریک انصاف ایوان میں صرف ایک نشست کا مطالبہ کرسکے گی اور اپوزیشن لیڈر کے عہدے کا مطالبہ نہیں کرسکے گی۔

اس معاملے پر تبصرہ کرنے کے لیے پیپلزپارٹی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر سے جب ڈان کو رابطہ کیا تو انہوں نے تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اندرونی مشاورت کے بعد ان کے جماعت ان مسائل پر واضح نقطہ نظر کے ساتھ سامنے آئے گی۔

دوسری جانب وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے انتخابات کی تاخیر کے منصوبوں سے متعلق خبروں کی تردید کی ہے۔

انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ہم انتخابات کے لیے تیار ہیں اور انشااللہ ہم ایک دن بعد پارلیمانی بورڈ کا اعلان کرلیں گے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے پہلے ہی وزیراعظم نواز شریف کو انتخابات کی تیاری کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ برائے قانون سازی ترقی اور شفافیت کے سربراہ احمد بلال محبوب نے ڈان کو بتایا کہ تکنیکی طور پر ہوسکتا ہے کہ مردم شماری میں تاخیر کی وجہ سے حکومت انتخابات میں تاخیر کا اعلان کرے لیکن اس کے نتیجے میں معاملہ عدالت میں جائے گا۔

ان کا خیال تھا کہ اگر عدالتوں نے بھی اس اقدام کی توثیق کی تو تمام سیاسی جماعتیں فیصلے پر عدالت کے فیصلے پر اتفاق کرسکتی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین کے تحت 90 روز کے اندر انتخابات کرانا ہوتے ہیں تاہم نئی مردم شماری کے تحت نئے انتخابات کرانا مشترکہ مفادات کی کونسل (سی آئی آئی) کا انتظامی فیصلے ہوگا۔

اسی دوران صاف و شفاف انتخابات نیٹ ورک کے مدثر رضوی نے ڈان کو بتایا کہ 2017 میں ہونے والی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں پہلے ہی ہوچکی ہیں اس لیے میرے خیال میں انتخابات میں تاخیر کی کوئی وجہ نظر نہیں آرہی، حکومت نے اگر اس طرح کے اقدام کیا تو ملک میں نیا آئینی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔

فواد چوہدری کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا

اتحادی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کا اجلاس، ’انتخابات میں تاخیر‘ پر تبادلہ خیال

قرآن پاک کی بے حرمتی، الازہر یونیورسٹی کا نیدرلینڈ اور سویڈن کے بائیکاٹ کا مطالبہ

بجلی کی اضافی پیداوار بریک ڈاؤن کی وجہ قرار