مودی پر بی بی سی کی دستاویزی فلم کی نمائش پر دہلی یونیورسٹی کے طلبہ گرفتار
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی پولیس نے وزیر اعظم نریندر مودی کے حوالے سے بنائی گئی بی بی سی کی دستاویزی فلم دکھانے پر دہلی یونیورسٹی کے طلبہ کو گرفتار کر لیا۔
بھارتی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق بی بی سی کی جانب سے دستاویزی فلم کو بھارتی حکومت نے پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے اس کی اسٹریمنگ کے ساتھ ساتھ اس کے شیئر کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے جہاں اس دستاویزی فلم میں دو دہائی قبل بھارتی ریاست گجرات میں ہونے والے فسادات میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے کردار پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
گزشتہ دونوں عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کرنے والے نریندر مودی کو اگلے سال ہونے والے عام انتخابات کے لیے ایک مرتبہ پھر فیورٹ قرار دیا گیا ہے اور فروری 2002 میں جب گجرات میں ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے، اس وقت نریندر مودی ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے۔
ان فسادات میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے اکثریت مسلمانوں کی تھی تاہم کچھ این جی اوز اور آزادانہ تحقیقات کرنے والے اداروں کے مطابق ان فسادات میں مرنے والوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے بھی زائد تھی۔
اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا نے بدھ کو کہا تھا کہ وہ بھارت کی ہر ریاست میں یہ ڈاکیومینٹری دکھانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے طلبہ کے دھڑے اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا کے جنرل سیکریٹری مایخ بسواس نے کہا کہ وہ آزادی اظہار کی اس آواز کو دبا نہیں سکتے۔
نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامی یونیورسٹی میں اس کی اسکریننگ سے قبل پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی اور 13 طلبہ کو حراست میں لے لیا گیا، یونیورسٹی نے طلبہ کو امن و امان خراب کرنے کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کو اسکریننگ کی اجازت نہیں تھی۔
یونیورسٹی کی وائس چانسلر نجمہ اختر نے رائٹرز کو گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی کا ڈسپلن خراب کرنے والے کسی بھی شخص کو آزاد گھومنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
اس سے قبل گزشتہ روز دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ نے الزام عائد کیا تھا کہ دائیں بازو کی تنظیم کے اراکین نے مبینہ طور پر ڈاکیومینٹری فلم دیکھنے کے خواہاں طلبہ پر پتھراؤ کیا تھا۔
اسٹوڈنٹ لیڈر ایش گھوش نے کہا کہ دستاویزی فلم کی شیڈول اسکریننگ سے قبل بجلی کاٹ دی گئی اس لیے ہم اپنے موبائل فون اور لیپ ٹاپ پر ڈاکیومینٹری دیکھ رہے تھے۔
یونیورسٹی نے ڈاکیومینٹری دیکھنے پر پابندی عائد کردی تھی اور دستاویزی فلم کی اسکریننگ کرنے والوں کے خلاف ڈسپلنری کارروائی کا عندیا دیا تھا۔
اسٹوڈنٹ لیڈر ایش گھوش نے کہا کہ یقیناً انتظامیہ نے ہی بجلی کاٹی تھی، ہم ملک بھر کے تمام کیمپسوں میں اسکریننگ کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں تاکہ سینسرشپ کے خلاف مزاحمت کی علامت بن سکیں۔