پاکستان

پنجاب: گجرات جیل میں فسادات کی وجہ پولیس کی بدعنوانی، بد سلوکی قرار

جیل اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ، دیگر 2 اہلکار قیدیوں کے ساتھ مسلسل بدتمیزی اور رشوت دینے پر مجبور کر رہے تھے، رپورٹ ضلعی انتظامیہ

گجرات کی ڈسٹرکٹ جیل میں پیر کے روز کے روز ہونے والے ہنگامے کی وجہ ڈسٹرکٹ جیل کے کچھ سینئر اہلکاروں کی بدعنوانی اور بد سلوکی بتائی جاتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق منگل کی صبح قیدیوں، ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) جیل خانہ جات سعید اللہ گوندل اور جیل سپرنٹنڈنٹ غلام سرور کے درمیان بات چیت کے بعد صورتحال معمول پر آگئی جب کہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری اب بھی جیل احاطے میں تعینات تھی۔

دوسری جانب سول لائنز پولیس نے ہنگامہ آرائی کے الزام میں ڈسٹرکٹ جیل کے کم از کم 250 نامعلوم قیدیوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا، یہ مقدمہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ جیل رانا محمد لطیف کی رپورٹ پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 324، 440، 436، 353، 148 اور 149 کے تحت درج کیا گیا۔

ریسکیو 1122 کی رپورٹ کے مطابق ہنگامہ آرائی کے دوران سٹی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) پرویز گوندل، جیل کے 2 اہلکاروں اور متعدد قیدیوں سمیت 18 افراد زخمی ہوئے جب کہ 15 افراد کو معمولی چوٹیں آئیں۔

ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کی گئی ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ فسادات اس وقت شروع ہوئے جب جیل کے ایک سینئر اہلکار کے ساتھ دیوار پر ہینگر لگانے کے معاملے پر قیدی کے ساتھ سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا اور اہلکار نے اس کو مبینہ طور پر تھپڑ مار دیا۔

اس رپورٹ میں مزید الزام لگایا گیا کہ جیل اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ خوشی محمد اور دیگر 2 سینئر اہلکار قیدیوں کے ساتھ مسلسل بدتمیزی کر رہے تھے اور انہیں کسی نہ کسی بہانے رشوت دینے پر مجبور کر رہے تھے۔

پیر کے روز جب قیدی معمول کے مطابق اپنی بیرک سے باہر نکل رہے تھے تو ایک سینئر اہلکار نے قیدی کو تھپڑ مار دیا جس کے بعد صورتحال کشیدہ ہوگئی اور قیدیوں نے پولیس پر پتھراؤ کرتے ہوئے احتجاج شروع کردیا اور جیل کے اندرونی گیٹ کو توڑنے کی کوشش کی۔

واقعے کی اطلاع ملنے پر پولیس نفری موقع پر پہنچی اور ڈی ایس پی پرویز گوندل قیدیوں سے بات کرنے کے لیے جیل میں داخل ہوئے جنہوں نے پتھراؤ جاری رکھا جس سے پولیس افسر کے سر میں چوٹ لگی۔

ملک بھر میں پیر کو ہونے والے بجلی بریک ڈاؤن کے باعث بھی جیل انتظامیہ اور پولیس نے فسادات پر قابو پانے میں شدید مشکلات کا سامنا کیا۔

جیل سپرنٹنڈنٹ غلام سرور تعطیل پر تھے تاہم وہ جیل پہنچے اور ڈی آئی جی کے ہمراہ قیدیوں سے بات چیت کی۔

سرکاری ذرائع نے بتایا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ غلام سرورکو 25 جولائی 2003 کو سیالکوٹ جیل میں فائرنگ کے واقعے میں 3 ججوں اور 5 قیدیوں کے قتل کے الزام کے سلسلے میں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا تھا۔

ذرائع نے مزید کہا کہ ڈپٹی کمشنر گجرات عامر شہزاد کانگ نے ڈسٹرکٹ جیل معاملات کی باقاعدہ انکوائری کی سفارش کی ہے جب کہ گزشتہ 2 برسوں میں جیل احاطے میں یہ دوسرا بڑا پرتشدد واقعہ ہے، سابقہ واقعہ بھی مبینہ طور پر جیل حکام کی رشوت ستانی کی وجہ سے پیش آیا تھا۔

واقعہ کی ایف آئی آر کے مطابق کچھ قیدیوں نے اپنے ساتھیوں کو اکسایا اور الزام لگایا کہ جیل اہلکار خوشی محمد نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی ہے جس کے بعد قیدیوں نے جیل کی املاک کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا اور عملے پر پتھراؤ کیا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ ہنگامہ آرائی کرنے والوں نے موبائل فون جیمرز، سینٹرل واچ ٹاور، راشن، ادویات، فرنیچر، واٹر فلٹریشن پلانٹ، واٹر چِلر، ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر، کال روم، سینیٹری پائپ، کلوز سرکٹ کیمرے اور ہسپتال کا فرنیچر مکمل طور پر جلا دیا۔

اس کے علاوہ، انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات پنجاب مبشر احمد خان نے تفصیلی انکوائری کرنے اور 24 گھنٹے میں رپورٹ پیش کرنے کے لیے پانچ رکنی ٹیم تشکیل دی۔

کمیٹی میں ڈی آئی جی پرویز گوندل، اے آئی جی (جیل خانہ جات) لاہور اشتیاق گل، اٹک اور سیالکوٹ ڈسٹرکٹ جیل کے سپرنٹنڈنٹس فرخ رشید اور ظہیر ورک اور فیصل آباد ریجن کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل خانہ جات رانا شمشاد شامل ہیں۔

اعتراض ہے تو فرح خان کو نگران وزیراعلیٰ پنجاب لگا دیں، مریم نواز کا عمران خان پر طنز

نیوزی لینڈ کو 0-3 سے کلین سوئپ، بھارتی ٹیم ون ڈے میں عالمی نمبر ایک بن گئی

علی ظفر کی پہلی بار خود پر لگے جنسی ہراسانی کے الزامات پر گفتگو