نقطہ نظر

بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کس طرح ہمارے بچوں کو تباہ کررہی ہے؟

طویل عرصہ آلودہ ماحول میں سانس لینے کی وجہ سے انسانوں کی عمر میں اور بچوں کی ذہنی صلاحیتوں بالخصوص ان کے آئی کیو میں واضح کمی واقع ہوتی ہے۔

گزشتہ 7، 8 ماہ میں میری بیٹی متعدد بار بیمار ہوچکی ہے۔ تیز بخار اور کھانسی معمول کی علامات ہیں۔کئی مرتبہ تو کھانسی کے شربت اور بخار کی ادویات سے یہ مسئلہ ایک ہفتے میں ہی حل ہوجاتا تھا لیکن بعض دفعہ ٹھیک ہونے کے لیے اسے اینٹی بایوٹکس کا پورا کورس مکمل کرنا پڑتا ہے۔ کھانسی زیادہ دن تک رہتی ہے جبکہ وہ اس دوران اینٹی الرجی کی ادویات کے طویل کورس پر بھی کرچکی ہے۔

ہم واحد ایسے والدین نہیں ہیں جنہیں اس طرح کی صورتحال کا سامنا ہے۔ ہماری بیٹی کی جماعت اور اسکول میں متعدد بچے گزشتہ چند ماہ سے اسی طرح بیماریوں کا بار بار شکار ہورہے ہیں۔ بہت سے بچے بخار اور کھانسی کی وجہ سے کئی دنوں تک اسکول آنے سے بھی قاصر ہیں۔

صرف لاہور میں ہی بیماری کے باعث اسکول نہیں جانے والے بچوں کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ ان کی موجودہ اور مستقبل کی صحت پر آلودگی کے پڑنے والے ممکنہ اثرات کی وجہ سے تمام بچوں کی بہبود خطرے میں پڑچکی ہے۔

جب میں اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑنے جاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ وہاں بعض بچے ایسے ضرور ہوتے ہیں جو کھانسی کے باوجود اسکول میں حاضر ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی مجھے بہت سے دوستوں نے بتایا کہ یہ ایک عام بات ہے۔ رواں موسمِ سرما میں بے شمار بچے بیمار ہوئے لیکن ان بیماریوں کا شکار تو بچے موسمِ سرما سے پہلے بھی تھے۔

کیا ہمارے بچے اپنی صحت گنوا کر سموگ اور آلودہ ماحول میں رہنے کی قیمت ادا کریں گے؟

حکومت بھی اس صورتحال کی سنگینی کا ادراک رکھتی ہے اور اس نے تمام اسکولوں کو جمعے کے روز بند کیا تاکہ بچے اسموگ کا شکار آلودہ ماحول میں گھر سے باہر نہ نکلیں۔ جبکہ سموگ کی وجہ سے موسمِ سرما کی تعطیلات میں بھی توسیع کی گئی۔

سوشل میڈیا کے استعمال سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ آلودہ ماحول میں رہنے کی قیمت صرف ہم اپنی صحت کے ذریعے ادا نہیں کرتے بلکہ طویل عرصہ آلودہ ماحول میں سانس لینے کی وجہ سے انسانوں کی عمر میں اور بچوں کی ذہنی صلاحیتوں بالخصوص ان کے آئی کیو میں واضح کمی واقع ہوتی ہے۔

اس فضائی آلودگی کے اثرات عمر کے کس حصے میں پڑتے ہیں اس کا تخمینہ لگانا تو کافی مشکل ہے کیونکہ کسی فرد نے آلودہ ماحول کا کتنا سامنا کیا اور اسی طرح کے دیگر عناصر پر اس کا انحصار ہوتا ہے لیکن صرف ان ماحولیاتی اثرات کی حقیقت ہی کافی خوفناک ہے۔ حکومت اس کی سنگینی کا ادراک تو رکھتی ہے لیکن وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرتی نظر نہیں آتی۔

چین کے شہر بیجنگ میں مقیم میرے ایک دوست نے بتایا کہ کیسے دہائیوں پہلے بیجنگ میں فضائی آلودگی کی شرح غیرمعمولی حد تک زیادہ تھی۔ اگرچہ آج بھی فضا میں آلودگی مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوسکی ہے لیکن شہر کی صفائی کے بعد اب ہوا کا معیار لاہور سے کئی گنا زیادہ بہتر ہے۔

چینی حکومت نے آلودگی کو کم کرنے کے لیے صفائی کے کافی سخت اقدامات لینے کا آغاز کیا۔ ان اقدامات میں کوئلے کے استعمال کو ترک کرنا، صنعتوں کو شہر سے دُور کرنا، گیسوں کے اخراج کے حوالے سے سخت معیارات نافذ کرنا، ان معیارات کی نگرانی اور تعمیل نہ کرنے کی صورت میں صنعتوں پر بھاری جرمانہ عائد کرنا اور پبلک ٹرانسپورٹ کو ان ذرائع پر منتقل کرنا جس سے زہریلی گیسوں کا فضا میں اخراج نہ ہو، شامل ہیں۔

بیجنگ کی فضائی آلودگی کم کرنے کے لیے کئی سالوں تک محنت اور ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے پڑے۔ کچھ اندازوں کے مطابق شہر میں فضائی آلودگی کی کمی کے سبب رہائشیوں کی زندگیوں میں کم از کم 2 سال کا اضافہ ہوا ہے۔ مجھے یہ اندازہ تو نہیں کہ آلودگی سے صحت کس حد تک متاثر ہوتی ہے لیکن لوگوں کی زندگیوں میں کمی بھی صحت پر پڑنے والے اثرات میں ہی شمار ہوتی ہے۔

لاہور کے شہریوں کے لیے یہ ایک ایسا واحد مسئلہ ہے جس کا نجی سطح پر کوئی حل دستیاب نہیں ہے۔ چند صاحبِ حیثیت لوگ گھروں اور گاڑیوں میں پیوریفائرز کی سہولت لگا سکتے ہیں لیکن کیا آپ بچوں اور بڑوں کی حرکات کو صرف گاڑی اور گھروں تک محدود کرسکتے ہیں؟ میرے خیال سے ایسا ممکن نہیں ہے۔

ان دنوں جب آلودگی کی شرح انتہا پر ہوتی ہے، وہ لوگ جو نقل مکانی کرسکتے ہیں وہ اپنے بچوں کو لے کر کسی اور مقام پر منتقل ہوجاتے ہیں لیکن پہلی بات یہ کہ کتنے لوگ ہیں جو نقل مکانی کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں جبکہ دوسری بات یہ کہ اسکول اور دفاتر وغیرہ کو مدِنظر رکھتے ہوئے آلودہ فضا سے بچنے کے لیے یہ حل عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔

صحت کے مسائل، تعلیم حتیٰ پینے کے پانی کے لیے بھی ہم ذاتی طور پر کوئی نہ کوئی حل نکال سکتے ہیں لیکن فضائی آلودگی کے حوالے سے ہمارے پاس کوئی اختیارات نہیں ہیں۔ لوگ صحت کے لیے نجی ہسپتالوں کا رخ کرسکتے ہیں، اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں داخل کروا سکتے ہیں اور پینے کے صاف پانی کے لیے بوتل خرید سکتے ہیں لیکن پھر بھی نجی ذرائع سے سانس لینے کے لیے صاف فضا کا حصول کافی مشکل ہے۔

اس سے پہلے کہ عوام اس حد تک مجبور ہوجائیں کہ وہ اس مسئلے کو نجی طور پر حل کرنے کی کوششیں شروع کردیں، امید ہے حکومت آگے بڑھ کر عوامی سطح پر فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے سخت اقدامات کرے گی۔

اسکول بند کرنے اور دفاتر کے عملے کو گھر سے کام کرنے پر زور دینے جیسے وقتی اقدامات سے صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس سے کچھ عرصے کے لیے شاید محسوس ہو کہ صورتحال قابو میں ہے اور شاید حکومت کو بھی کچھ وقت مل جائے لیکن یہ وقتی اقدامات کبھی بھی ان طویل مدتی منصوبوں کے متبادل نہیں ہوسکتے جن پر سختی سے عمل درآمد اور نگرانی کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اگر ہم نے اس موڑ پر سخت اقدامات نہیں اٹھائے تو صورتحال بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔ اسی طرح صنعتیں بنتی رہیں گی، سڑکوں پر مزید گاڑیاں آتی رہیں گی اور نہ صرف ہم یونہی آلودہ صورتحال کا سامنا کرتے رہیں گے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ بھی ہوتا رہے گا۔

حکومت کو بھی صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہے۔ اگر مقامی، صوبائی اور وفاقی حکومتیں یہ سب جاننے کے باوجود کچھ نہیں کرتی ہیں تو یہ لاہور (اور دیگر آلودہ علاقوں) کے رہائشیوں کے قتلِ عام کے مترادف ہوگا۔

جب تک ہماری حکومت سنجیدگی سے موثر حکمتِ عملی تیار کر کے اس پر عمل درآمد نہیں کرتی تب تک لاہور اور فضائی آلودگی کا شکار دیگر شہروں کے باسی اسی طرح ماحولیاتی آلودگی کی بھاری قیمت چکاتے رہیں گے۔

یقیناً فضائی آلودگی سے بچوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے لیکن ہم بڑے بھی کم عمری کی اموات اور صحت کے مسائل کی صورت میں اس المیے کا خمیازہ بھگتیں گے۔ مگر حکومت اس انسانی المیے سے متعلق صرف چند بناوٹی اور سطحی اقدامات لینے کا اعلان کرکے ہی کافی مطمئن نظر آرہی ہے۔

ہمیں بڑے اور سنجیدہ فیصلے لینے کی ضرورت ہے لیکن کیا کوئی حکومت اس طرح کے اقدامات کی سیاسی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہے اور کیا وہ ان اقدامات ہر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی اہلیت رکھتی ہے؟


یہ مضمون 20 جنوری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

فیصل باری

لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس faisal.bari@ideaspak.org اور bari@lums.edu.pk ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔