پاکستان

ناراض سیاسی رہنماؤں کا موجودہ صورتحال پراتفاق رائے کیلئے ملک گیر سیمینارز کا منصوبہ

معاشی بحران اور سیاست میں تنزلی کے تناظر میں ملک کو دلدل سے نکالنے کا طریقہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مصطفیٰ نواز کھوکھر

ملک میں معاشی اور سیاسی عدم استحکام کی صورتحال کا حل تلاش کرنے کے پیش نظر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ’ناراض‘ سیاسی رہنما کل سے ملگ گیر سیمینارز کا انعقاد کریں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملک کے ناراض سیاسی گروپ کی طرف سے ملک کو درپیش موجودہ صورتحال پر ملک گیر سیمینارز کا انعقاد کیا جارہا ہے جس کی معاونت مختلف جماعتوں میں بیٹھے ان کے ساتھی اور دوست کر رہے ہیں۔

ناراض سیاسی شخصیات کا ایک گروپ ملک کو درپیش موجودہ چیلنجز پر تمام سیاسی جماعتوں میں اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے تعاون سے ملک گیر سیمینارز کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تاکہ ملک کو موجودہ صورتحال سے نکالنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کا ساتھ دینے کے لیے مستقبل کے لائحہ عمل پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔

سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکر کی طرف سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کردہ دعوت نامے کے مطابق پہلا سیمینار کل (21 جنوری) کو کوئٹہ میں ہوگا جس کا موضوع ’ری ایمیجننگ پاکستان‘ (پاکستان پر دوبارہ غور و فکر) ہے، جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر شاہد خاقان عباسی اہم خطاب کریں گے۔

سیمینار میں سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل ’پاکستان کے معاشی حقائق اور مستقبل کا روڈ میپ‘ پر ایک پریزینٹیشن بھی دیں گے۔

خیال رہے کہ مصطفیٰ نواز کھوکھر کی طرف سے یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب سوشل میڈیا پر رپورٹس گردش کر رہی ہیں کہ مرکزی جماعتوں کے ناراض سیاستدان ایک نئی جماعت بنانے جارہے ہیں۔

تاہم مصطفیٰ نواز کھوکھر اور شاہد خاقان عباسی نے ایسی رپورٹس مسترد کردی ہیں۔

رابطہ کرنے پر سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ان کا پارٹی بنانے یہ کسی اور پارٹی میں جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے کیونکہ انہوں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ وہ آزاد امیدوار کے طور پر آئندہ انتخابات میں حصہ لیں گے۔

پیپلز پارٹی کے سابق رہنما نے کہا کہ وہ معاشی بحران اور سیاست میں تنزلی کے تناظر میں ملک کو دلدل سے نکالنے کا طریقہ تلاش کرنے کے لیے غیر جانبدارانہ کوشش کر رہے ہیں۔

کسی کا نام لیے بغیر انہوں نے ملک کی سیاسی جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ صرف اقتدار کی سیاست کرتی ہیں اور اپنی تمام توجہ صرف اور صرف اقتدار حاصل کرنے پر مرکوز کرتی ہیں۔‘

ملک کی موجودہ معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پہلے ہی موجود ہے مگر اب ملک معاشی دیوالیہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے ٹوئٹر پر اپنی متعدد ٹوئٹس میں کہا کہ ’ایک غیر جانبدارانہ کوشش کرتے ہوئے میں دوستوں اور ساتھیوں سے پاکستان کے موجودہ معاشی، سیاسی اور سماجی بحرانوں کے بارے میں رابطہ کر رہا ہوں جو اب ریاست اور معاشرے کی بنیادی بنیادوں کے لیے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ بیک وقت شخصی اور اجتماعی حقوق شدید خطرے میں ہیں جو لوگوں میں بڑے پیمانے پر بےیقینی پیدا کر رہے ہیں اور لسانی تفریق پیدا کر رہے ہیں۔

سابق سینیٹر نے کہا کہ امتحان کی اس گھڑی میں ہمیں پاکستان کے بارے میں دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے، لہٰذا ہم میں سے کچھ دوست بشمول حاجی لشکری رئیسانی، میر ہمایوں کرد اور خواجہ محمد ہوتی جیسے لوگ پاکستان کے حکومتی ڈھانچے کی تشکیل نو کے لیے سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ملک بھر میں سیمینارز کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح سے یہ سیمینار لوگوں کی امنگوں کو پورا کر سکتا ہے اور اس کا آغاز سب سے خوبصورت لیکن سب سے زیادہ نظر انداز کیے گئے صوبہ بلوچستان سے کریں گے۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ انہوں نے ایسے سیمینار کراچی، پشاور، لاہور اور اسلام آباد میں بھی کرنے کا سوچا ہے۔

سیمینارز کے لیے مالی اخراجات پر پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ حاجی لشکری رئیسانی کوئٹہ میں میزبانی کر رہے ہیں، خواجہ محمد ہوتی پشاور اور مفتاح اسمٰعیل کراچی میں میزبانی کریں گے مجبکہ وہ خود اسلام آباد میں سیمینار کی میزبانی کریں گے۔

خیال رہے کہ اسحٰق ڈار کی لندن سے واپسی اور وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے مفتاح اسمٰعیل کو سائیڈ کردیا تھا۔

جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ‘ میں بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے مسلم لیگ (ن) چھوڑنے کی رپورٹس مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر بھی ایسی رپورٹس دیکھی تھیں۔

انہوں نے ملک کو ممکنہ دیوالیہ سے بچانے کے لیے حکومت کے اقدامات کا دفاع کیا اور کہا کہ حکومت کو کچھ فیصلے فوری کرنے چاہیے۔

فرانس: پینشن اصلاحات کے خلاف ملک گیر مظاہرے، لاکھوں افراد کی شرکت

اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک انصاف کے مزید 35 اراکین کے استعفے منظور کر لیے

ہم کب تک دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے ممالک سے مدد مانگتے رہیں گے؟