پاکستان

’بڑے لوگ اسٹور کیے ہوئے ڈالر معیشت میں ڈالیں تو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں‘

آئی ایم ایف کا معاہدہ آگے بڑھانے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے اور ہمیں کافی ساری ایڈجسٹمنٹ کرنی پڑے گی، وفاقی وزیر

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے کی تکمیل کو مجبوری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے بڑے لوگ اسٹور کیے ہوئے ڈالر معیشت میں لائیں تو ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کو آج دو قسم کے چیلنجز درپیش ہیں، معیشت کو موسمیاتی اور ماحولیاتی چیلنجز درپیش ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ موسم کے چیلنجز عارضی ہوتے ہیں جو ایک خاص وقت میں پالیسیاں اور انتظامی امور ٹھیک نہیں ہو تو پھر آپ درست پالیسی اپنا کر اس غلطی کو سدھار سکتے ہیں، لیکن خراب ماحولیاتی پہلو جب ڈھانچے کا حصہ بن جائے تو ان کو ٹھیک کرنے کے لیے بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ جب یہ حکومت برسر اقتدار آئی تو ہمیں یہ بتایا گیا کہ ملک کے خزانے میں اتنے پیسے نہیں ہیں کہ ترقیاتی بجٹ کی آخری قسط ادا کی جائے اور یہ ہماری حکومت آنے سے پہلے اعلان کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس کو ایک چیلنج سمجھ کر سنبھالا ہے، ہمیں نظر آرہا تھا کہ ہمیں مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے اور ہم ان مشکل فیصلوں سے پہلے بھی نہیں گھبرائے اور آئندہ بھی نہیں گھبرائیں گے۔

’ہمیں ہر صورت میں ملک کو اس صورت حال سے بچانا ہے‘

انہوں نے کہا کہ ہمیں اس ملک کو ہر قیمت میں اس صورت حال سے بچانا ہے کہ جہاں ملک کی معیشت بالکل انارکی کی صورت میں چلی جائے، اس مقصد کے لیے ہمارے سامنے دو چیلنجز ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ایک چیلنج یہ ہے کہ ہم مختصر مدت میں پاکستان کی صورت حال کیسے بدلیں تاکہ ہماری معیشت بحال ہوسکے، اس تبدیلی کے ایجنڈے میں سب سے اہم چیز پاکستان کو وسائل کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ادھار کے اوپر، قرضوں کی توسیع، دوست ممالک کی امداد پر اس ملک کو مستقل طور پر نہیں چلا سکتے ہیں، ایک یا دو سال کے لیے ہم مہلت حاصل کرسکتے ہیں لیکن مستقل بنیادوں پر امداد، خیرات اور قرضوں سے معیشت نہیں چلائی جاسکتی ہے۔

’ملک کی پیداواری صلاحیت کو فروغ دینا ضروری ہے‘

انہوں نے کہا کہ ہمیں ہر صورت میں پیداواری صلاحیت کو فروغ دینا اور مضبوط کرنا ہے، اس میں یہ بات شامل ہے کہ ہم اپنے وسائل متحرک کریں، جس کے ذریعے اپنے اخراجات کا بوجھ خود اٹھا سکیں اور ہمیں آئی ایم ایف اور دوسرے ممالک پر انحصار نہ کرنا پڑے۔

احسن اقبال نے کہا کہ آج پاکستان کی پیداواری صلاحیت دنیا میں شرح کم ترین ہے، زراعت میں ہماری 10 اہم فصلوں یا شعبے میں ہم سرفہرست 10 ممالک میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ زراعت میں ہماری پیداوار خاطر خواہ ہے لیکن پیداواری صلاحیت کم ہے لہٰذا ہمیں ہر صورت ملک کی پیداواری صلاحیت بہتر کرنی ہوگی اگر ہم اس کو عالمی شرح پر لے آئیں تو اربوں ڈالر حاصل کرسکتے ہیں۔

وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ زرعی نظام میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے پیداواری صلاحیت بڑھا سکتے ہیں، زرعی پیداوار کو بڑھا کر اربوں ڈالرز کا زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صنعتوں کی پیداوار میں بہت سارے خسارے اور صلاحیت میں کمی ہے جس کی وجہ ہم مسابقت میں پیچھے ہے، سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم نے 75 برسوں میں پاکستان کی پیداواری صلاحیت کو عالمی سطح سے ہم آہنگ نہیں کیا۔

’برآمدات کی بنیاد پر معاشی بہتری کی کوشش‘

وفاقی وزیر نے کہا کہ پچھلے 20 یا 30 برسوں میں جتنے ممالک نے ترقی کی ہے وہ برآمدات کی بنیاد پر کی ہے لیکن ہم نے جب بھی برآمدات کی بنیاد پر معاشی بہتری کی کوشش کی تو ہمارے پروگرام کو منقطح کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم کب تک اپنی شاخیں یونہی کاٹتے رہیں گے، اب ہمیں سیاسی اور معاشی استحکام لے کر آنا ہے لیکن ہمارے پاس وقت مختصر ہے اور یہ سیاسی جھگڑوں میں گزرے گا۔

’آئی ایم ایف کا معاہدہ مکمل کیے بغیر کوئی راستہ نہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ ہم پاکستان کی معیشت کو ڈوبنے سے کیسے بچائیں اور اس کے لیے ہمارے سروں پر عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا معاہدہ لٹک رہا ہے، جس کو گزشتہ حکومت میں طے کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اب ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ ہم ایک ذمہ دار ملک ہیں، اگر گزشتہ حکومت نے غیرذمہ داری کے ساتھ اس پر اتفاق کیا تو ہمیں اس کو آگے بڑھانا پڑے گا کیونکہ وہ پاکستان کا معاہدہ ہے اور پاکستان کی حکومت نے دستخط کیے ہیں۔

آئی ایم ایف سے معاہدے کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم پاکستان کی ساکھ کو داؤ پر نہیں لگا سکتے کہ ہر حکومت گزشتہ حکومت کے فیصلے قبول نہیں کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے ہمیں کافی ساری ایڈجسٹمنٹ کرنی پڑے گی، ہمارے اوپر پچھلے کئی برسوں کا بوجھ پڑا ہوا ہے اور ہمیں آئی ایم ایف کے معاہدے میں بھی اسی مسئلے کا سامنا ہے۔

’جو فیصلہ ضروری ہوا کریں گے‘

وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ ملک کے لیے جو فیصلہ ضروری ہوگا وہ ہم کریں گے کیونکہ ہم ملک کو کسی بھنور میں پھینکنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے ترسیلات زر اور برآمدات بڑھانا ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ملک میں معاشی اور سیاسی استحکام لانا ہو گا، معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ کوشش کریں گے کہ پسماندہ طبقے پر مہنگائی کا بوجھ کم سے کم بوجھ پڑے لیکن گزشتہ حکومت کے معاہدوں کے باعث ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

’آگے بڑھنے کے لیے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح بڑھانی ہوگی‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح بہتر کرنی ہے کیونکہ کامیاب ممالک ہمیشہ کم سے کم 16، 18 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح حاصل کی ہے اور ہم 11 پر پہنچے تھے لیکن وہاں سے گر کر 9 فیصد پر آگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قرضوں کا بوجھ ساڑھے 4 ہزار ارب ہوگیا ہے اور اگر ہم نے اپنے وسائل نہیں بڑھائے تو ہمارا پورا ٹیکس صرف قرضے ادا کرنے میں نکل جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسرا پہلو مقامی اور بیرونی دونوں سرمایہ کی ضرورت ہے، آج جتنا پیسہ پاکستانی سرمایہ کاروں کے پاس پڑا ہے اگر وہ اپنے تہہ خانوں سے نکال دیں تو پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بڑے لوگوں نے جتنے ڈالر اسٹور کیے ہیں اگر وہ معیشت میں ڈال دیں تو ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ ہمیں کم از کم 25 سے 30 ارب ڈالر کی سالانہ بیرونی سرمایہ کاری لانی چاہیے اور اسی طرح برآمدات بڑھانی ہے۔

جب چیزیں بہتر ہوں گی تو پیپلز پارٹی کے ساتھ بات چیت آگے بڑھے گی، حافظ نعیم

’کیا آپ کا بچہ اردو کموڈ استعمال کر لیتا ہے؟‘

خیبر پختونخوا میں 5.6 شدت کا زلزلہ، عوام میں شدید خوف و ہراس