’کیا آپ کا بچہ اردو کموڈ استعمال کر لیتا ہے؟‘
اردو زبان، اردو شاعری، اردو ادب، اردو ڈائجسٹ، اردو اسپیکنگ، اردو کانفرنس، اردو میڈیم اور اب اردو کموڈ۔ پہلے تو ہم ہنسے، اتنا ہنسے کہ پیٹ پکڑ کر دوہرے ہوگئے۔ جب کچھ حواس قابو میں آئے تو جی چاہا روئیں وہ بھی دھاڑیں مار مار کر۔
آہ، وقت تو اور پیچھے چلا گیا۔ کیا آپ کو پتا ہے وقت کے پاؤں چڑیلوں کی طرح الٹے بھی ہوسکتے ہیں، ہم نے بھی تب پہلی بار سوچا۔
بات کچھ پرانی ہے۔ نصف صدی سے کچھ کم کا قصہ، اب آپ ہماری عمر کا اندازہ لگانے میں نہ لگ جائیے گا۔ میٹرک کے زمانے کی بات ہے۔ شان سے میٹرک کرنے کے بعد اونچے درجے کے کالج میں داخلہ ہوا۔ پاؤں زمین پر ٹکتے نہیں تھے ہمارے، ڈاکٹر بننے کی منزل کی طرف پہلا کامیاب قدم۔
پنڈی کا سب سے اچھا کالج سو سب اچھے اسکولوں کی لائق لڑکیاں جمع ہوگئیں، سب اپنے آپ پر نازاں۔ لیکن کچھ اور بھی تھا جو ہمیں حیران کرتا تھا۔ نہ جانے کیا بات تھی لیکن تھی تو سہی کہ سیکڑوں چہرے اور شاید اتنے ہی رنگ۔
کچھ چہروں پر ہنسی زیادہ اور کچھ کے چہروں پر دبا دبا خوف۔ کچھ کا اعتماد آسمان کو چُھوتا ہوا اور کچھ زمین میں دھنس جانے کو تیار۔ کچھ شوخ و شنگ ہمہ وقت کھلکھلاتی ہوئیں، کچھ ڈری سہمی اپنے آپ سے بھی شرماتی ہوئیں۔ کچھ کے چہروں پر دنیا فتح کرنے کے ارادے تو کچھ پہلے سے شکست خوردہ سی۔ کچھ مغرور مغرور، کچھ گھبرائی ہوئیں، کچھ لمبی گاڑیوں سے اترتی ہوئیں، کچھ پیدل اور کچھ بس کے پائیدان سے لٹک کر آتی ہوئیں۔ کچھ فر فر انگریزی بولتیں اور کچھ اٹک اٹک کر سوری سوری، تھینک یو تھینک یو کہتی ہوئیں۔
وہ دو دنیاؤں کی باسی تھیں۔ ایک دنیا دیسی اور دوسری ولایتی۔ ایک کو اپنی کلاس طبقے پر غرور جبکہ دوسری کو احساس کمتری۔ ایک طاقت اور حکمرانی کی تھی اور دوسری محکومی کی اور دونوں کی الگ الگ پہچان۔ ایک ہی ملک میں دو دنیائیں اور ان میں رہنے والی مخلوق ایک چاردیواری میں اکٹھی ہوگئی تھی، جس کی ہر چیز ایک دوسرے سے مختلف تھی حتٰی کہ زبان بھی، یعنی انگریزی میڈیم اور اردو میڈیم۔
انگریزی میڈیم لڑکیاں منہ ٹیڑھا کیے، اٹھلا اٹھلا کر آپس میں بلند و بانگ آہنگ میں انگریزی میں بات کرتیں، اونچی آواز میں کھلکھلاتیں، انگریزی لطیفے سناتیں، ملز اینڈ بون کے ناول ایک دوسرے کو دیتیں اور لیتیں۔ انہیں اردگرد بیٹھی خاموش دبو سی لڑکیاں نظر نہیں آتی تھیں، شاید وہ دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھیں۔ اردو میڈیم سے دوستی کرکے اپنے گروپ میں شامل کرنا تو درکنار ان سے کوئی پوچھتا بھی نہیں تھا کہ تم ہوکون اور بیچتی کیا ہو؟
اردو میڈیم چپ چاپ ان کی انگریزی دانی سے مرعوب ایک طرف سمٹتی جاتیں۔ کیا کہتیں؟ کیا پوچھتیں؟ کیا بتاتیں؟ کونسی زبان بولتیں، انگریزی تو آتی نہیں تھی۔ انگریزی بول چال میں پھسڈی ہونا قابلِ معافی تو تھا نہیں۔
انگریزی میڈیم کے گروہ علیحدہ، سہیلیاں اپنی اپنی، استادوں کی چہیتی، پورے کالج کی منظورِ نظر۔ اردو میڈیم تعداد میں کم اور توجہ حاصل کرنے میں اور بھی کم کم۔
کلاس میں کم ہی بولتیں، سوال کیسے پوچھتیں، جواب کیسے دیتیں؟ غلط انگریزی بول کر اپنی ہنسی کیسے اڑواتیں سو خاموشی میں ہی عافیت جانتیں۔ بریک میں بھی انگلش میڈیم سے ہٹ کر چلتیں، کیفے ٹیریا میں بھی پیچھے پیچھے۔
دونوں گروہوں کا حلیہ بھی دُور سے بتا دیتا کہ کون کہاں سے ہے؟ یونیفارم میں تو سب ہوتیں مگر پھر بھی فرق نظر آتا۔ انگلش میڈیم میں سے کسی کے ڈیانا کٹ بال تو کسی کے اسٹیپس میں کٹے ہوئے، ہونٹوں پر لِپ گلوس، کپڑے جوتے قیمتی نظر آتے۔ ہاتھ میں انگلش میگزین، گلے میں لٹکا واک مین، انگریزی فلموں اور گانوں کی باتیں اور دوسری طرف اردو میڈیم سادہ دھلا ہوا منہ، لمبی چوٹی، عام سا حلیہ، نہ کسی انگریزی گانے کا پتا اور نہ ہی انگریزی رسالوں کا، جنرل نالج ٹی وی پر لگنے والے اردو ڈراموں اور اردو رسالوں تک محدود۔
برآمدوں اور راہداریوں میں آتے جاتے اردو میڈیم کی آنکھیں چوری چوری انگلش میڈیمز کے سینوں، کمر اور کولھوں پر کسی اسٹائلش قمیضوں میں ہوتی حرکتوں کو دیکھتیں، سرجھکاتیں، کمر پر کچھ زور ڈال کر ڈھیلی ڈھالی بوری نما قمیض میں چھپا سینہ اٹھاتیں اور پھر نہ جانے کیا سوچ کر اپنے جیسی کسی کو دیکھنے لگتیں۔
چھٹی کے وقت تو یہ فرق اور واضح ہوجاتا۔ انگلش میڈیم اسی مختصر وی نما دوپٹّے کے ساتھ گیٹ پر کھڑی گاڑی میں بیٹھ جاتیں جبکہ اردو میڈیم بیگ سے چادر نکالتیں، اوڑھ کر باہر کھڑی سوزوکی وین یا بھائی کی موٹر سائیکل پر بیٹھتیں۔ ضیا دور میں جب چادر سب کے لیے لازم ہوگئی تب انگلش میڈیم بھی ایک چادر بیگ سے نکالتیں، کندھوں پر ڈالتیں کہ چوکیدار چادر کا رکھوالا تھا۔
ہم نے یہ سب بہت دلچسپی سے دیکھا۔ کچھ حیران، کچھ پریشان، ہم نہ تین میں نہ تیرہ میں۔ اس کالج کی ابتدا ہمارے اسکول سے ہوئی تھی سو وہ نہ انگلش میڈیم جیسا اعلیٰ تھا اور نہ اردو میڈیم جیسا بے حال۔ ایسا ہی حال کچھ ہمارا بھی تھا، نہ ہم انگلش میڈیم جیسے اور نہ ہی اردو میڈیم سے۔
غیر نصابی سرگرمیوں سے حاصل کردہ اعتماد، غیر نصابی کتابیں پڑھ پڑھ کر دنیا کے داؤ پیچ، ابّا کی غیر معمولی محبت اور اہمیت پاکر اہم ہونے کا احساس، امّاں کے غیر معمولی رکھ رکھاؤ کا اثر، باتیں بگھارنے کا ہمارا فن، ذاتی لیاقت کا فخر اور مرعوب نہ ہونے کا ہنر ، کیوں دب کر رہتے ہم کسی سے بھی؟
لیکن اس سب کے باوجود ایک کمی تو تھی اور وہ یہ کہ انگریزی فر فر بولنا نہیں آتی تھی ہاں سمجھتے سب تھے۔ لو جی یہ کیا مشکل ہے، سیکھ لیں گے یہ بھی، زبان ہی تو ہے۔ کیوں شرمندہ ہوں انگریزی نہ جاننے سے، جب لوگ اردو نہ لکھنے پڑھنے کو عیب نہیں سمجھتے۔
لیجیے جناب، ہماری سہیلیوں کا سائنس میں داخلہ تو ہوا نہیں تھا سو ہمیں کچھ تو کرنا ہی تھا۔ بنا لیے دوست انگلش میڈیم، جب پوچھنے پر بتایا کہ ساتھ والے اسکول سے تشریف لائے ہیں تو حیرت سے جواب ملا ’اچھا، لگتا تو نہیں‘۔
آنے والے برسوں میں یہ جملہ ہمیں بار بار سننے کو ملا ’اچھا، لگتا تو نہیں‘ اور ہم ہر بار ہنستے۔ لیکن ایک بار تو ہمیں قہقہے لگانے پڑے جب انگلینڈ میں کانفرنس اٹینڈ کرتے ہوئے پاکستان سے آئے ہوئے ایک پروفیسر نے ڈنر ٹائم پر ہمیں کوک آرڈر کرتے دیکھ کر بڑی معصومیت سے کہا ’اچھا، لگتا تو نہیں‘۔ تب ہمیں بھی کہنا پڑا کہ جی لگتا تو ہمیں بھی نہیں۔
استاد بھی ایسے جو اردو میڈیم پر اپنی توانائی خرچ کرنے میں انتہائی کنجوس۔ 50 میں سے 5 اردو میڈیم پر جان کیوں کھپائی جائے؟ ہیں نا انگلش میڈیم فراٹے دار انگریزی بولتے ہوئے ہر سوال کا جواب دینے کے لیے تیار۔ ایک تو اردو میڈیم کو سمجھنے میں مشکل، دوسرے سوال کیسے پوچھیں؟ اردو میں پوچھ لیا تو استاد سمیت سب ہنسیں گے، انگریزی میں سوال کرنا آتا نہیں۔ نتیجہ کیا نکلا وہ سب لڑکیاں جو میٹرک میں بہترین نمبر لے کر ایف ایس سی میں داخل ہوئی تھیں، میڈیکل کالج نہ پہنچ سکیں، سوائے ایک کے۔ سمجھ جائیے وہ ایک کون تھی؟
میڈیکل کالج پہنچے، وہاں بھی یہی حال۔ انگلش میڈیم ایک سے ایک تیز طرار اور اردو میڈیم عرف پینڈو۔ یہ لفظ سن کر ہمیں تجسس ہوا کہ پتا لگائیں اردو میڈیم کو پینڈو کیوں کہا جاتاہے؟
انکشاف ہوا کہ ’پینڈو‘ کلاس سسٹم کا استعارہ ہے۔ اپر کلاس مراعات یافتہ، کلچر، رکھ رکھاؤ میں اعلیٰ۔ اردو میڈیم کم آمدن والی کلاس سو کیسے بوجھ اٹھائے تام جھام کا، سو رکھ رکھاؤ میں کمزور، جب جیب میں ہی کچھ نہ ہو تو کہاں سے لگائے ذات میں رنگ برنگے پھندنے، سو مل گیا پینڈو ٹائٹل۔
یہ کلاس سسٹم کا جبر تھا جسے نوآبادیاتی دور کا تڑکا لگا ہوا تھا۔ آزادی کے بعد گوری چمڑی کی یاد، انہی کی زبان بول کر اسی احساس تفاخر اور برتری سے زندگی گزارنے والے ہی تو دیسی انگریز تھے اور وہ سب جن کی جڑیں مٹی میں تھیں، دیسی پہناوا اور اپنے پرکھوں کی زبان پہچان تھی، نچلی کلاس تھے۔
نہیں معلوم ہماری کون سی یا کیا قسمت تھی کہ پینڈو کے ٹائٹل سے وہاں بھی ہم بچے ہی رہے۔ زبان بھی صاف، رکھ رکھاؤ بھی اونچا، لباس پہننے کا بھی سلیقہ اور انگریزی بول چال تو سیکھ ہی چکے تھے۔ لیکن کلاس میں پنجاب کے چھوٹے شہروں سے آنے والیوں کی کمی نہیں تھی جو لاہور کی انگلش میڈیم کے سامنے دبو بن کر رہتیں۔ نہ کوئی کلاس ریپ کا الیکشن لڑتیں، نہ بیچ ریپ بنتیں، نہ کسی سوسائٹی میں شامل ہونے کا سوچتیں، نہ اسٹیج پر چڑھتیں کہ ان کے تھیلے اور پرس تو اعتماد سے خالی ہی ہوتے رہتے؟
انگریزی کا غلط تلفظ یا گرامر کی غلطی کے بعد ڈھیروں لوگوں کی دبی دبی ہنسی اور استہزائیہ نظریں برداشت کرنے کا حوصلہ بے چارے اردو میڈیم یا لوئر کلاس والے کہاں سے لاتے؟ کلاس سسٹم نے ہر طرف پنجے گاڑ رکھے تھے۔
ہاسٹل میں بھی یہی رنگ دیکھنے کو ملا۔ انگلش میڈیم انگریزی گانے سنتیں، ملز اینڈ بون اور آرچی کامکس کا ہر طرف دور دورہ ہوتا، دوسری طرف اردو میڈیم ڈائجسٹ ڈھونڈتی پھرتیں۔ اردو میڈیم پینڈو کا فقرہ ایک آدھ بار کان میں پڑا تو ہم نے ہنستے ہنستے کہہ دیا، یارو ہم بھی تو ہیں۔ جواب وہی ملا، ’اچھا، لگتا تو نہیں‘۔
گزرتے برسوں میں بہت سی باتیں ہوئیں۔ اردو میڈیم/انگلش میڈیم کے درمیان کھنچی لکیر مزید گہری ہوتی گئی۔ دنیا ہمارے لیے بھی عالمی گاؤں بنی، مغرب تک رسائی ہوئی اور بڑھتی گئی۔ انگریزی ادب، انگریزی زبان، انگریزی چیزیں، کچھ کی آنکھیں مزید چندھیا گئیں تو کچھ کی بند آنکھیں کُھل گئیں۔ اگلی نسل کے بچے بنے اپنی زبان سے بے بہرہ۔ کچھ کے لیے یہ طمانیت کا باعث مگر کچھ کے لیے سوالیہ نشان۔
ایک بچی نے اپنی خالہ کا غلط انگریزی تلفظ سن کر مذاق اڑایا تو اردگرد ہنسنے والے کم نہیں تھے۔ ہمیں اعتراف کرنے دیجیے کہ کسی زمانے میں ہم بھی ان لوگوں میں شامل رہے جو غلط تلفظ سن کر بھنویں اچکانے سے باز نہ رہتے۔
آنکھ اس دن کھلی جس دن امریکا میں انگریزی ادب پڑھتی ہماری اپنی بچی نے سوال کیا ’ہماری مادری زبان کونسی ہے؟‘
’پنجابی‘، ہمارا جواب۔
’یہ کیسی مادری زبان ہے جو ہمیں سکھائی نہیں گئی‘، وہ حیرانی سے بولی۔
’مما، دنیا کے ہر ملک کا بچہ اپنی مادری زبان ضرور جانتا ہے، جاپان کا جاپانی، فرانس کا فرانسیسی، چین کا چینی، کوریا کا کورین، بنگلہ دیش کا بنگالی، امریکا کا انگریزی، اسپین کا ہسپانوی جبکہ زیادہ تر پاکستانی بچوں کو اردو پڑھنی تو دُور کی بات بولنی بھی نہیں آتی، اس سے ملتا جلتا حال کچھ ہندی والوں کا بھی ہے۔ اور پھر کسی کو اس پر افسوس تک نہیں؟‘
’امّاں آپ نے ہمیں نہ اردو سکھائی نہ پنجابی، کیوں؟‘
’مجھے اردو ادب پڑھنا ہے۔ میں اتنے بہت سے ملکوں کا ادب پڑھتی ہوں اور کلاس میں اتنا بُرا لگتا ہے کہ مجھے علم ہی نہیں کہ اردو ادب میں کیا لکھا گیا، کیسا لکھا گیا ہے؟‘
ہم کیا کہتے؟ کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔
کیا بتاتے کہ اردو ادب میں کیا لکھا جاتا ہے؟ کیا پڑھا جاتا ہے؟ ملک میں بسنے والی انگریزی میڈیم کو آج بھی اس سے کوئی سروکار نہیں اور اردو میڈیم کو اپنی کمتری کا احساس اٹھنے نہیں دیتا کہ تخلیق کے سوتے دنیا تک پہنچ سکیں۔ انگریزی میڈیم آج بھی اپنی گردن اکڑائے بدیسی ادب پر مذاکرے منعقد کرتے ہیں اور اردو کو اس قابل نہیں سمجھا جاتا۔ اردو لکھاری پینڈو کے پینڈو، ان کو کیوں بلائیں؟
اردو کانفرنس کو لوگ باگ میلہ سمجھتے ہیں جبکہ انگریزی کانفرنس، ایک ایسا شو جسے لکیر کے باہر بیٹھے اردو والے حسرت سے دیکھتے ہیں کہ شاید وہ بھی کبھی شامل ہوں۔ ڈان میں کالم لکھنے والے کسی اصیل مرغ کی طرح چھاتی پھلائے، کلغی اکڑائے پھرتے ہیں جبکہ اردو اخباروں والے جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ ڈان پڑھنے والے چند ہزار مگر دیسی انگریز یا نئے آقا جبکہ اردو اخبار پڑھنے والے مٹی کے باسی اور غلام ابن غلام۔
- یہ احساس برتری کیوں؟ یہ احساس کمتری کیوں؟
- کیا ہمیں آزادی پاکر بھی آزادی نصیب نہیں ہوئی؟
- کیا ہم سفید فام آقاؤں کے خادموں کے خادم ہیں؟
- اپنے ہی ملک میں ہم غیر کیوں؟
- کیا غیروں کے ملک میں غیر ہونا کافی نہیں؟
- غیروں کے ملک میں غیر ہونے کی بھی ایک داستان غم ٹھہری۔
انگریز کے ڈسے ہوئے جب مغرب میں آباد ہونے گئے تو سوچا کیوں بولیں ہم اردو؟ جب ہمارا بچہ فر فر انگریزی بولے گا وطن واپس جاکر تب ہی سر فخر سے بلند ہوگا۔ ایسا ہوا تو سہی، ماں باپ تو پُگ گئے مگر بچے، بچے بے چارے نہ تیتر رہے نہ بٹیر۔ بیچارے ہنس کی چال چلنے والے۔
کہنے کو پاکستانی، جنوبی ایشیا سے تعلق اور یہ پہچان نسلوں تک نہیں بدل سکتے لیکن اپنی زبان نہیں جانتے۔ غیر کی زبان انہی کی طرح فراٹے سے بولتے ہیں لیکن ہیں نہیں ان جیسے۔ کسی ایسے بچے سے غلطی سے اگر پوچھ لیا جائے کہ تمہاری مادری زبان کیا ہے تو وہ بے حد کنفیوز کہ ماں جو زبان بولتی ہے وہ تو اسے آتی نہیں۔
ہم نے یہاں اپنے اردگرد بھی بے شمار مائیں دیکھیں جو اس فکر میں بے حال تھیں کہ کہیں اردو سن کر ان کے بچے کا امریکی اسکول میں سیکھا ہوا تلفظ خراب نہ ہوجائے، ’گو گو، فنش یور جوس‘۔
یہ لسانی تفاوت انگریز کی دین ہے جسے پیچھے رہ جانے والوں نے خوشی سے گلے لگایا۔ اہم نظر آنا اور حکومت کرنا کسے بُرا لگتا ہے چاہے وہ اپنے جیسوں پر ہی ہو؟
اپنے بچوں کو اردو پڑھنا نہ سکھا سکے، ہم نادم ہیں، ندامت کا بوجھ کچھ کم کرنے کے لیے ایک کام ہم نے ضرور کیا کہ ان سے گھر میں اردو بولی۔ نہ صرف بولی بلکہ انہیں بھی بولنے پر مجبور کیا، یہاں تک کہ جب وہ انگریزی میں ہم سے بات کرتے ہم ہاتھ ہلا دیتے کہ بات پلے نہیں پڑی۔ آہستہ آہستہ وہ سمجھ گئے کہ ماں سے اردو بولی جائے گی تو جواب ملے گا، بے چاری اردو میڈیم ماں، ویسے لگتی تو نہیں۔
ہمیں کچھ تقویت اور ملی جب امریکا میں سالہا سال پڑھنے والے بچوں نے سفید چمڑی سے مرعوب ہونے کے بجائے ان کو اپنے جیسا سمجھنا شروع کیا۔ ان کا علی الاعلان کہنا ہے کہ دنیا میں کوئی نہیں جنوبی ایشیا جیسا، نہ کلچر میں، نہ کھانوں میں، نہ روایات میں، نہ زبانوں کے تنوع میں، نہ جفاکشی میں، نہ ذہانت میں، نہ صلاحیتوں میں، نہ تہواروں میں، نہ میوزک میں۔
ہمیں رنگ و نسل کی بنیاد پر کمتر جانا گیا، اس سے فائدہ اٹھایا گیا اور اسی فائدے سے فائدہ اٹھا کر صحیح سمت میں سفر انہیں آسمان پر لے گیا۔ ان کے ممالک میں تعلیم حاصل کرنا ہمارا حق ہے کہ اس ترقی میں ہمارا بھی حصہ ہے لیکن ان کے رنگ میں رنگے جانا اور ان کو برتر سمجھنا کسی طور درست نہیں۔ 100 سال بھی کوشش کرتے رہیں تو نہیں بنیں گے ان جیسے اور نہ وہ ہم جیسے۔ ویسے بھی ضرورت کیا ہے اتنی نقالی کی، ہم ہم ہیں اور وہ وہ !
اس احساس برتری یا کمتری کے 2 قصے سنائے دیتے ہیں جنہیں ہم اپنے ہاتھوں ہوا دے رہے ہیں۔ایک نمونہ کراچی اردو کانفرنس میں دیکھنے کو ملا جب لندن سے ایک انگریز اسسٹنٹ پروفیسر کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا۔ ان صاحبہ کی قابلیت انگریزی بولنے کے علاوہ صرف یہ تھی کہ لسانیات میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی۔ تخلیقی ادب سے ان کا دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔
حال ہی میں ہندی مصنفہ گیتانجلی شری کو ہندی ناول ریت سمادھی پر انٹرنیشنل بکر پرائز ملنا اس بات کا ثبوت تھا کہ اپنی زبان میں بات کرنا کس قدر اہم ہے؟ اس ناول کو انگریزی جامہ پہنانے والی ٹرانسلیٹر ڈیزی راک ویل کی تو خوب واہ واہ ہوئی اور خبر ہے کہ وہ لاہور لٹریچر فیسٹویل میں بھی تشریف لا رہی ہیں۔
خیر ایل ایل ایف تو ہے ناریل بننے کا خواب دیکھنے والے یعنی دیسی انگریزوں کا فنکشن سو کیا گلہ کیا جائے لیکن اس کا کیا کیجیے کہ اس ناول کے اردو مترجم انور سن رائے کو کسی نے عالمی اردو کانفرنس تک میں بلانے کی زحمت نہیں کی۔ اردو زبان کا ایسا منفرد استعمال اور ایسا ترجمہ شاید ہی پھر کبھی ہو لیکن احساس کمتری کی ماری قوم کیوں پروا کرے؟ انگریزی میں کچھ ہوتا تو بات اور تھی۔
یہاں ایک حوالہ اور ہوجائے، مابعد نوآبادیات اور نسائیت کی ایشیائی پہچان گائیتری سپیوک کی سب سے اہم ترین پہچان یہ بھی ہے کہ انہوں نے ژاک دریدہ (ڈی کنسٹرکشن والے) کی مشہور زمانہ کتاب گراموٹولوجی کا ترجمہ کیا۔
خیر آخری بات وہ جس سے ہم نے مضمون شروع کیا کہ پہلے ہنسے اور پھر روئے۔ کراچی کے ایک اعلیٰ انگریزی میڈیم اسکول کے بچے ٹرپ پر گئے ہوئے تھے۔ ایک ماں نے اپنے بچے کی فکر میں ہلکان ہوتے ہوئے ایک اور ماں سے پوچھا ’کیا آپ کا بچہ اردو کموڈ استعمال کر لیتا ہے؟‘
دوسری ماں کی اردو کچھ اچھی تھی، وہ تھوڑا سا پریشان ہوکر بولیں ’اردو کموڈ؟ یعنی اردو کموڈ۔ کیا مطلب؟‘
’کیا کموڈ بھی اردو؟ یا کموڈ میں اردو؟‘
’جی اردو کموڈ، وہی جس پر پاؤں کے بل بیٹھتے ہیں‘۔ شکر ہے انہوں نے یہ نہیں کہہ دیا کہ جس پر سر کے بل بیٹھ کر فارغ ہوتے ہیں۔
تو جناب یہ ہے اردو کی اوقات۔ اس اردو کی جسے مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے اوّلین اسباب میں شامل کیا جاتا ہے، اور یہ ہے اردو دانوں کا مقام اور اردو ادب کی منزلت۔ جی تو چاہتا ہے کہ اب کموڈ کی تاریخ بھی آپ کو سناتے چلیں لیکن پھر خیال آتا ہے آپ کی برداشت کا امتحان کیوں لیا جائے تو وہ پھر کبھی۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی پیشے کے اعتبار سے کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ہیں۔ آپ اردو بلاگ نگاری اور پنجابی زبان میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ آپ کی دو کتابیں بعنوان 'مجھے فیمینسٹ نہ کہو' اور 'کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ' بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آپ نے گائنی فیمنزم کا خیال پیش کیا ہے۔ آپ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو اس وقت تک بااختیار نہیں بنایا جاسکتا جب تک وہ معاشرتی ممنوعات کو توڑتے ہوئے اپنے جسم کے بارے میں کھل کر بات نہ کرسکیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔